خبر ایک حکایت ہی تو ہے۔ مدیر کا منشا ہے کہ آٹھ کالم کی سرخی سے بانس پر چڑھا دے یا آخری صفحے پر یک کالمی خبر میں دفن کر دے۔ لاہور میں بیدیاں روڈ پر مردم شماری کی قومی خدمت کرنے والے سات خاک نشین خودکش بمبار کا نشانہ بن گئے۔ مردم شماری کے اعداد و شما ر تو جب آئیں گے، سو آئیں گے، یہ سات نام حذف ہو گئے۔ نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے… سرگودھا کے گائوں 95 شمالی میں الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ افسر نے عقیدت کے آستانے پر بیس جانوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ روزمرہ زندگی کے دکھوں سے گھبرا کر درگاہ پر حاضر ہوئے تھے. مرشد کے فیضان نظر کی ایک تجلی سے دکھ اور سکھ کی سرحد پار کر گئے۔ تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی، تیرے جانثار چلے گئے… ادھر سیاست کی رزم گاہ میں دار و رسن کی آزمائش جاری ہے۔ ایک معروف طنز نگار نے گزشتہ اپریل میں پانامہ کا ہنگامہ اٹھنے پر ایک تحریر میں گورکن صحافت کا خاکہ اڑایا تھا. طنز میں مبالغہ اسی لئے کیا جاتا ہے کہ حقیقی دنیا میں افراط و تفریط کو واضح کیا جا سکے. استاذی مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ مجسمہ قد آدم سے ڈیڑھ گنا بڑا نہ ہو اور کارٹون کے خدوخال مبالغے کی حد تک کھینچے نہ جائیں تو تخلیق کا نقش مدھم رہ جاتا ہے۔ محبی جعفر حسین نے داستان گو صحافیوں کے رنگ تحریر میں ایک سازش بیان کی تھی۔ کہنا یہ چاہتے تھے کہ حقیقت کی دنیا ہمارے تخیل کی سازش سے کہیں زیادہ ٹھوس اور منطق کے تابع ہوتی ہے۔ حادثے کو علت اور تلون کو اصول قرار دینے سے قوم کا سیاسی شعور کند ہوتا ہے۔ جعفر حسین کی تحریر پر مدیر نے دو سطری نوٹ لگا دیا کہ ’یہ طنزیہ تحریر ہے، اسے قانونی شواہد کی روشنی میں پرکھا نہ جائے. اسے سیاسی تجزیہ سمجھنے سے گریز کیا جائے۔ اس کا مقصد چند مہربانوں کے غول بیابانی طرز بیان کا پھلکا اڑانا ہے‘۔ بھائی نعیم الحق مگر کہاں سمجھتے ہیں۔ محترم عمران خان کے چیف آف اسٹاف کہلاتے ہیں۔ مالیاتی مہارت کے جوار بھاٹے پر کراچی سے اسلام آباد پہنچے ہیں۔ طنزیہ تحریر کو ٹھیک سے نہیں پڑھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ’شعر فہمی عالم بالا معلوم شد‘ کا مضمون رہا ہو. ٹیلی وژن پروگراموں میں دائیں بائیں دھول اڑاتے نکل گئے۔ بھور بھئے خبر آئی کہ نعیم الحق نے 2013 ء کے انتخابات کے بارے میں ذاتی رائے دی تھی۔ سرگودھا کا سابق مرشد (حالیہ ملزم) بھی عدالت میں یہی کہتا ہے کہ بیس کشتگان کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ پنجاب پولیس آس پاس نہیں ہو۔ قرار یہ پایا کہ نعیم الحق سے اصل غلطی تو یہ ہوئی کہ انتخابی دھاندلی میں محترم ریٹائرڈ جنرل کیانی صاحب کو بھی لپیٹ لیا اور سرگودھا کے مرشد کا اعجاز نظر اس لئے دھندلا گیا کہ پنجاب پولیس نے کھنڈت ڈال دی۔ ڈپٹی نذیر احمد کا کردار کلیم اپنے قبلہ گاہی نصوح کے وفور تقویٰ پر جھلا کر کہتا ہے ’سارے گھرانے نے متوالی کودوں تو نہیں کھا لی‘۔ بتا دینا چاہئے کہ کودوں ایک ادنیٰ درجے کا پہاڑی غلہ ہوتا ہے اور روایت کے مطابق اسے کھانے سے اختلال ذہنی پیدا ہوتا ہے۔ استاذی چراغ حسن حسرت نے ایک مضمون نگار کو مشورہ دیا تھا کہ تحریر کے آخر میں بریکٹ میں اعلان کر دیا جائے کہ یہ طنزیہ تحریر ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اشتباہ نہ ہو۔ حسرت صاحب کا وقت گزر گیا. اب وضاحتی نوٹ کے باوجود لوگ طنز نہیں سمجھتے۔
چند برس گزرے، آکسفورڈ یونیورسٹی میں سازش کو خفیہ رکھنے کے امکانات پر تحقیق کی گئی۔ایک نتیجہ یہ تھا کہ سازش کے افشا کا براہ راست امکان اس امر سے طے پائے گا کہ سازش کی تکمیل میں کتنے افراد کی شمولیت ضروری تھی۔ دوسرے یہ کہ سازش پر کتنا عرصہ گزر گیا؟ وہی احمد مشتاق کی بانی کہ ’جان امیدوار من، وقت بہت گزر گیا‘۔ اور تیسرے یہ کہ سازش کا انکشاف حادثاتی طور پر بھی ہو سکتا ہے. یونیورسٹی نے اس ضمن میں 1969 ء میں چاند پر اترنے کے دعوے پر تحقیق کی تھی. برطانوی یونیورسٹی کے اساتذہ نے ناحق تحقیق کی زحمت کی. ہمارے ملک میں چلے آتے. ہمارا مسئلہ سچائی اور سازش میں تفریق کا نہیں۔ ہم نے خود فریبی سے شغف پایا ہے۔ ہمارے منتخب رہنما پہاڑ کی گھپائوں میں رہنے والے سنیاسی بابا سے جھاڑو کی چوٹ کھاتے ہیں۔ انتخابات کی پیش گوئی کے لئے سری لنکا سے نجومی بلاتے ہیں۔ منتخب صدر کی سرکاری کار پر کراچی کا گیانی پھونکیں مارتا ہے۔ ہم نے خواہش کی بنیاد حقیقت پر نہیں رکھی۔ معاملہ ہی کیا ہو، اگر زیاں کے لئے… سیاسی رہنمائوں ہی پر کیا موقوف، اخبار کے مدیر کا دفتر خانقاہ کا منظر پیش کرتا ہے۔ ادیب اپنی تخلیق کے لئے بابا جی سے گواہی لیتا ہے۔ ہم نے تو کئی جنگوں میں باطنی قوتوں کے سہارے فتح حاصل کر رکھی ہے۔ یہاں اکبر الٰہ آبادی کا ذکر کرنا سخت منع ہے۔’ فتح انگلش کی ہوتی ہے قدم جرمن کے بڑھتے ہیں‘. ہماری ذہانت تو جدیدیت کے بحر ظلمات کو عبور کر کے مابعد جدیدیت کے آفاق میں کلیلیں بھر رہی ہے۔ اعلیٰ ترین درس گاہوں کے سربراہ ضخیم کتابیں تالیف کر چکے ہیں کہ نائن الیون ایک سازش تھی۔ یہودی مسلمانوں کی آبادی کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد سے برآمد نہیں ہوا۔ واللہ علم، شکیل آفریدی کس جرم کی سزا بھگت رہا ہے؟ ہمارے اولوالعزم وزیر داخلہ نے حال ہی میں ہولوکاسٹ سے انکار کو اظہار کی آزادی سے تعبیر کیا ہے۔ کیا تعجب کہ ملک میں امن و امان کے ذمہ دار یہ منصب دار آزادی تقریر اور نفرت انگیزی یا اشتعال انگیزی میں امتیاز نہیں کر پاتے۔ عقیدے کی آزادی ایک محترم انسانی حق ہے۔ عقیدے پر دلیل دی جاتی ہے اور نہ طلب کی جا سکتی ہے۔ تاریخی حقائق سے انکار عقیدے کی بجائے سیاسی اور قانونی موقف کے ذیل میں آتا ہے۔ تاریخ اور عقیدے کو گڈمڈ کرنا سیاست اور معاشرت کو غبار آلود کرنے کے مترادف ہے۔ تھامس جیفرسن نے اٹھارہویں صدی میں لکھا تھا کہ عقیدے کی حقانیت طے کرنا عدالت کا کام نہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عدالت واقعات اور حقائق پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ مفہوم صرف یہ تھاکہ موضوعی رائے اور معروضی حقائق کے درمیان واضح لکیر کھینچنی چاہئے۔مگر صاحب ہم نے تو عدالت کا مقام دھندلا دیا ہے۔ سرگودھا کے ملزم عبدالوحید ہی کی طرح الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار افضل خان قذافی تھے۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد ڈی چوک میں درون خانہ سازش کا انکشاف کیا۔ عدالت نے جواب دہی چاہی تو معافی مانگ لی۔ کمرہ عدالت سے باہر آئے تو معافی سے انکار کر دیا۔ جعفر حسین کو طنز لکھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ نعیم الحق ایک معقول سیاسی رہنما ہیں۔ نعیم الحق سمیت قوم نے اجتماعی طور پر آزادی اظہار کے نام پر ذیل کے حقائق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ قومی ریاست سے انکار کر کے قوم تعمیر نہیں ہو سکتی۔ علم سے دشمنی پال کر علم کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ جمہوریت سے انحراف کر کے جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ سرحدوں پر گھات باندھ کر تجارت نہیں کی جا سکتی۔ تاریخ کا پہیہ الٹی سمت میں نہیں گھمایا جا سکتا. گولیوں سے محبت نہیں بوئی جا سکتی۔ جدید دور کے آلات کی مدد سے قدیم مفاد کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اکثریت کے جبر پر تکیہ کرنے والی سیاست سے فراست برآمد نہیں ہوتی۔ اصول دین اور تاریخ کو گڈ مڈ کرنے سے سیاسی شعور مجروح ہوتا ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے دہشت گردی کو مسترد کرنا پڑتا ہے۔
.