• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فروری کی سرد رات دو بجے کا وقت ہر طرف ہوکا عالم، اندھیری رات، دور دور تک کوئی انسان نہ جانور، مگر ایک چنگ چی اس شدید سرد رات میں سڑک پر بڑی تیزی سے چلی جارہی تھی سائلنسرنہ ہونے کی وجہ سےاس کی آواز دور دور تک سنی جارہی تھی۔
ایک سال قبل وہ بھی ایسی ہی ایک چنگ چی میں جارہی تھی۔ امید، خوشی اور انجانے خوف کے ساتھ، مگر کچھ لمحوں بعد ہی اس کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اس کا سات ماہ کا بچہ شکم مادر ہی میں مرگیا تھا اور ا س پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اب پھر وہی صورتحال تھی اس کے گائوں سے بنیادی صحت کے مرکز کا فاصلہ چھ کلومیٹر کا تھا ۔ آج چھ کلومیٹر کا فاصلہ گویا اس کو چھ سو کلو میٹر کا فاصلہ لگ رہا تھا اور فاصلہ ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔
یہ اوکاڑہ کے ایک چھوٹے سے گائوں کی سات ماہ کی حاملہ خاتون راشدہ تھی جو اپنے خاوند کے ہمراہ گائوں کے ایک چنگ چی پر سوار بنیادی صحت کے مرکز پہنچی۔ یہ سفر اس نے45منٹ میں طے کیا۔ شکر تھا کہ سڑک بہتر تھی ورنہ پتہ نہیں راستے میں کیا ہوجاتا اور یہ بھی اچھا ہوا کہ یہ مرکز 24گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ اس وقت اس مرکز میں صرف ایک ڈاکٹر اور ایک ایل ایچ وی تھی۔ نہ کوئی گائنی کی ڈاکٹر نہ بچوں کا ڈاکٹر نہ وینٹی لیٹر نہ Incubatorنہ انسھتیزیا کا ڈاکٹرنہ کوئی نرس نہ کوئی وارڈ بوائے۔ خاتون کی حالت ایسی کہ وہ ڈسٹرکٹ اسپتال فیصل آباد تک نہیں جاسکتی تھی۔ وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا تھا، بھلا ہو ڈاکٹر صبیح اور ایل ایچ وی روبینہ مشتاق کا جنہوں نے کوئی سہولت نہ ہونے کے باوجود بچے کی پیدائش کا عمل مکمل کرایا۔
فتح پور کے اس گائوں میں کوئی سہولت موجود نہیں تھی جو ڈلیوری کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ پھر سات ماہ کی بچی جس کا وزن صرف1.5کلو گرام تھا۔ اس کو اس پسماندہ علاقے کی ایل ایچ وی نے جس طرح بچایا (ویسے تو بچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، انسان صرف ذریعہ بنتے ہیں) وہ واقعی ایک مشکل ترین مرحلہ تھا۔ غربت کا شکار ماں بننے والی یہ لاغر خاتون جس کے پاس اپنے گائوں سے بنیادی صحت مرکز تک آنے کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ اس کی نوزائیدہ بچی کو صرف اور صرف ماں کے دودھ اور کینگرو مادر کیئر نے بچایا جس کی تربیت روبینہ مشتاق نے حاصل کی ہوئی تھی، ورنہ اس سردی کی رات میں اگر ایل ایچ وی کو کینگرو مادر کا پتہ نہ ہوتا تو اس 1.5کلو گرام کی بچی کا بچ جانا ناممکن تھا۔ سردی شدید نامناسب کپڑے اور غربت دوسرے جن کے پاس چنگ چی کا کرایہ بھی نہ تھا وہ بھلا سات سو روپے والا دودھ کا ڈبہ خرید سکتی تھی ۔ کیا اس ملک کے دیہاڑی دار مزدور اپنے پیدا ہونے والے بچوں کو یہ دودھ پلا سکتے ہیں۔یہ بنیادی صحت کے مراکز بنانے اور وہاں پر ڈاکٹر اور ایل ایچ وی کو تربیت دینے کا سہرا واقعی پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کو جاتا ہے اور پنجاب کے سیکرٹری پرائمری ہیلتھ کیئر علی جان خان جس طرح گائوں گائوں میں ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے کام کررہے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ اس دودھ کا پہلا قطرہ ہی سونے کی بوند کے برابر ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں،اسی سونے کی پہلی بوند نے راشدہ کی بچی کو بچایا۔ آج تک دنیا کی کوئی لیبارٹری ماں کا دودھ نہیں بناسکی۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور غذا کے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد مدر فیڈ سونے کی بوندوں کے برابر ہوتا ہے جسے Colostrumکہا جاتا ہے اور نوزائیدہ بچے کو صرف چھ ماہ تک یہ دودھ ہی دینا چاہئے، اسے پانی پلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ چھ ماہ بعد نیم ٹھوس غذا دینی چاہئے البتہ دوسال تک ماں کا دودھ ضرور پلائیں۔ تھوڑی دیر کو سوچیں کہ کیا پاکستان میں کروڑوں غریب خاندانوں جن کے ہاں اولاد ہوتی ہے وہ اپنے بچوں پر ماہانہ پانچ چھ ہزار روپے ڈبے کے دودھ پر خرچ کرسکتے ہیں جبکہ یہاں تو کروڑوں گھرانوں کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار سے بھی کم ہے۔ کیا سول سوسائٹی، ڈاکٹروں اور حکومت کا فرض نہیں کہ وہ مدر فیڈ کی اہمیت کو اجاگر کریں۔
عزیز قارئین ! ماں کا دودھ نہ صرف بچے کو کئی خطرناک بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ جن بچوں نے یہ دودھ پیا ہوتا ہے وہ زندگی بھر مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔، مگر کیا کریں یہاں کئی بچوں کے ڈاکٹروں نے بیرون ممالک اپنے بچوں کے ساتھ ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیوں کے خرچ پر سیر سپاٹے اور شاپنگ کرنا ہوتی ہے۔ اب اگر یہ ڈاکٹرز ڈبے کے دودھ کی سفارش نہیں کریں گے تو ان کی عیاشیاں کیسے پوری ہوں گی؟۔ ہمارے عزیز ڈاکٹرو اللہ سے ڈرو ایک دن تم سب کو6x2میں جانا ہے۔ ڈبے کے دودھ میں کوئی غذائیت نہیں۔ ماں کا دودھ غیر ممالک میں محفوظ کرکے اسے چھ ماہ تک استعمال کیا جاتا ہے(ایک مرتبہ وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں پروفیسر فیصل مسعود نے بالکل درست کہا تھا کہ ڈبے کا دودھ صرف بعض ڈاکٹروں کے گٹھ جوڑ سے پروموٹ ہورہا ہے) آج اکثر بچے چھوٹے قد اور دماغ سے خالی، موٹاپا کا شکار ہورہے ہیں وہ صرف ڈبے کی دودھ کی مہربانی ہے۔ حکومت پنجاب مدر فیڈ کی افادیت کو اجاگر کرنے کے لئے لائق تحسین کام کررہی ہے۔
ہم نےراشدہ نامی خاتون کا سچا واقعہ بیان کیا ہے۔ ہم خود اس خاتون اور بچی سے مل چکے ہیں۔ یہ 45کلو کی عورت جس کا ہموگلوبن صرف 7.9 ہے جبکہ خواتین کا ہموگلوبین12اور 12سے زیادہ ہونا چاہئے۔ اس عورت کے اندر آئرن کی شدید کمی ہے۔ خون جسم میں بالکل نہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے اس نے صرف اپنی بچی کو اپنے دودھ اور کینگرو مادر کیئر سے بچایا جس طرح کینگرو اپنے بچے کو اپنی گودمیں چھپا کر گرمی پہنچا کر بچاتی ہے اور پالتی ہے اسی طرح مائیں اگر اپنے بچوں کو پیٹ پر الٹا لیٹا کر فیڈ کرائیں تو ان کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ اسپتال ضرور بنائیں مگر لوگوں کی مجموعی صحت کو بہتر کرنے کے لئے بھی اقدامات کرنا چاہئیں۔ انہیں خالص دودھ، تازہ سبزیوں، گوشت اور پھلوں کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب آپ کسی روز کسی چھوٹے سے گائوں میں چند گھنٹے بغیر پروٹوکول کے گزار کر دیکھیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں حالات کیا ہیں اور جس ایل ایچ وی اور ڈاکٹر نے راشدہ اور اس کی بچی کی زندگی بچائی انہیں کوئی انعام دینا چاہئے ۔ ویسے صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر نے میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے سیمینار میں راشدہ کو ہماری درخواست پر وظیفہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ (جاری ہے)



.
تازہ ترین