گزشتہ دنوں گوادر چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے اشتراک سے ایک معروف ہوٹل گوادر میں سی پیک پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں میرے دوست گوادر چیمبر کے صدر تقریب کے روح رواں فیصل دستی نے اسپیکر کی حیثیت سے خصوصی طور پر مجھے مدعو کیا۔ میں سی پیک کے تناظر میں کئی سیمینار اور کانفرنسوں میں شرکت اور اخبارات میں کئی کالم لکھ چکا ہوں لیکن ایک طویل عرصے کے بعد گوادر جانے اور سی پیک پر سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں پاکستان بھر کے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے سربراہان مدعو تھے جنہیں سیمینار سے ایک دن قبل ہی گوادر کے مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جبکہ کراچی سے گوادر جانے والے مندوبین کیلئے گوادر چیمبر کے صدر فیصل دستی نے پی آئی اے کے خصوصی چارٹرڈ طیارے کا انتظام کیا تھا۔ میں اپنے بھائی اشتیاق بیگ، FPCCI کے صدر زبیر طفیل اور دیگر ممتاز صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کے ہمراہ بذریعہ چارٹرڈ طیارہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کاسفر طے کرکے گوادر پہنچا جہاں گوادر چیمبر کے نائب صدر میر امداد رند نے ہمیں سیمینار سے قبل گوادر پورٹ اور شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرایا۔ میں اس سے قبل سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ہمراہ گیس پائپ لائن منصوبے کے افتتاح کے موقع پر گوادر آیا تھا لیکن اُس وقت گوادر میں کوئی خاص ترقیاتی کام نہیں ہوئے تھے مگر آج کے گوادر میں ایئرپورٹ سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹل تک جناح ایونیو جیسی 200 کلومیٹر طویل کشادہ سڑکیں اور گوادر پورٹ پر لوگوں کی گہما گہمی نظر آئی۔
گوادر کے معنی ہوا کا دروازہ ہے جو دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے اور اپنے محل وقوع اور اہمیت کے اعتبار سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گوادر شہر کراچی کے مغرب میں 460 کلومیٹر، ایران سے 80 کلومیٹر، عمان کے شمال مشرق میں 380 کلومیٹر پر واقع ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے مستقبل میں چین، افغانستان، وسط ایشیا ممالک کی بحری تجارت کا مرکز ہوگا جس کی بدولت خطے کے ممالک ایک تہائی وقت اور لاگت پر امپورٹ ایکسپورٹ کرسکیں گے اور چین موجودہ ہمروز کے بحری راستے کے مقابلے میں گوادر پورٹ کے محفوظ راستے سے اپنی توانائی کی ضروریات کیلئے تیل امپورٹ کرسکے گا جس کی وجہ سے دنیا اس منصوبے کو گیم چینجر کہہ رہی ہے۔ شہر کے دورے کے دوران مجھے سنگار ہائوسنگ پروجیکٹ گوادر اور دیگر رہائشی اسکیموں کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور یہ بھی علم میں آیا کہ گوادر میں کئی کمپنیاں خوبصورت بروشرز میں دبئی اور ہانگ کانگ کی اونچی عمارتوں کے مناظر دکھاکر لوگوں کو بے وقوف بنارہی ہیں۔ میرا ان سرمایہ کاروں کو مشورہ ہے کہ وہ زمینوں کی خرید و فروخت میں احتیاط سے کام لیں۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی این او سی، تعمیراتی منصوبوں کی حقیقت اور بجلی و پانی کی فراہمی کے بارے میں انتظامیہ سے ضرور معلومات حاصل کریں کہ کیا ان رہائشی اسکیموں میں تعمیراتی کاموں کی اجازت دی گئی ہے۔ میری ناقص رائے میں گوادر میں زمینوں میں سرمایہ کاری طویل المیعاد عمل ہے۔ جلد بازی میں جعلی رہائشی منصوبوں میں سٹہ بازی سے سرمایہ کار اپنے پیسے گنوا بھی سکتے ہیں۔
گوادر پورٹ کو پاکستان نے فیروز خان نون کی حکومت میں 8 ستمبر 1958ء میں اومان سے 10 ملین ڈالر کے عوض خریدا تھا۔ میرے دوست فیڈریشن کی گوادر ڈویلپمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کرنل (ر) مقبول آفریدی نے بتایا کہ گوادر ایک قدرتی پورٹ ہے جو پاکستان کو اللہ کا تحفہ ہے جس کی گہرائی خطے میں سب سے زیادہ 18 میٹر ہے جسے 22 میٹر تک گہرا کیا جاسکتا ہے جبکہ خطے کی دیگر بڑی بندرگاہوں جبل علی16 میٹر، بندر عباس10 میٹر، چاہ بہار11 میٹر اور سلالہ، عدن کی گہرائی 12 سے 13 فٹ سے زیادہ نہیں۔ گوادر پورٹ پر فی الحال 3برتھیں آپریشنل ہیں جہاں سے 250 کنٹینر کا پہلا چینی کارگو جہاز نے کامیاب سفر کیا لیکن پورٹ کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ میں برتھوں کی تعداد 13ہوجائے گی جہاں 70 ہزار ٹن سے ایک لاکھ ٹن کے 120 بڑے جہاز لنگر انداز ہوسکیں گے جبکہ دبئی کی مصروف پورٹ جبل علی میں 67 اور بندر عباس میں 24 جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے گوادر پورٹ کا سنگاپور پورٹ سے انتظامی معاہدہ منسوخ کرکے چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کو دیا جو گوادر پورٹ کی ڈویلپمنٹ اور آپریشن میں رات دن مصروف ہے۔ چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے سربراہ زینگ بائوژنگ نے اپنے دیگر اعلیٰ حکام جو پاکستانی شلوار قمیص اور سبز واسکٹ میں ملبوس تھے،کے ہمراہ ہمیں گوادر پورٹ پر ایک معلوماتی بریفنگ دی۔ ہمیں بتایا گیا کہ گوادر پورٹ کے چارجز کراچی اور علاقے کی دیگر پورٹس کے مقابلے میں نہایت کم ہیں اور گوادر پورٹ پر کارگو امپورٹ کرکے زمینی راستے شہروں کو پہنچانا نہایت سستا پڑے گا۔ پورٹ کے ساتھ 70 ایکڑ پر گوادر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون واقع ہے جس کی فیز 1 کی پوری ملکیت چینی کمپنیوں کی ہے جس میں ان کو 23 سال کیلئے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے جبکہ باقی زونز میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی چھوٹ 5 سال ہے۔ اس زون میں کام کرنے کیلئے 100 لائسنس چینی کمپنیوں کو دیئے گئے ہیں۔ صرف 4 یا 5 لائسنس پاکستانی سروس فراہم کرنے والے اداروں کو دیئے گئے ہیں جس میں بینک، انشورنس اور مواصلاتی ادارے شامل ہیں۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (GDA) فیز 2 میں زون کے ساتھ 2304 ایکڑ پر ایک انڈسٹریل زون ڈویلپ کررہی ہے جس میں پاکستانی کمپنیاں بھی سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔
سی پیک پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کیلئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال وزیراعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے میں اسلام آباد سے گوادر تشریف لائے جبکہ وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو کراچی سے گوادر پہنچے۔ ہوٹل کا ہال ملک کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مہمانوں میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ساجد حسین بلوچ، گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ اتھارٹی کے محمد وقاص اور ڈسٹرکٹ کونسل گوادر کے چیئرمین بابو گلاب، سمیع خان بھی شامل تھے ۔ تقریب کے میزبان گوادر چیمبرز کے صدر فیصل جمال دستی نے نائب صدر میر امداد رند دیگر عہدیداروں کے ساتھ مختلف شہروں سے آئے ہوئے 100 سے زیادہ ممتاز بزنس مینوں کا استقبال کیا۔ سیمینار سے میرے علاوہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (GDA) کے چیئرمین ڈاکٹر سجاد بلند، گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ اتھارٹی کے محمد وقاص، ڈسٹرکٹ کونسل گوادر کے چیئرمین بابو گلاب، چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے سربراہ زینگ بائوژنگ، فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل، وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی بزنس مینوں سے سی پیک اور گوادر پورٹ جو دنیا میں علاقائی تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا، کے مستقبل کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے کہا جبکہ نیول کموڈور گوادر نے گوادر پورٹ پر میری ٹائم سیکورٹی کی ایک نہایت جامع بریفنگ دی۔ اس موقع پر میں نے اپنی تقریر میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ گوادر انڈسٹریل زونز میں پاکستانی کمپنیوں کو بھی وہی مراعات اور سہولتیں دی جائیں جو چینی کمپنیوں کی دی گئی ہیں۔ چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے سربراہ بائوژنگ نے اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ ہم زیادہ سے زیادہ مقامی افرادی قوت استعمال کریں گے جس کیلئے مقامی لوگوں کو چینی زبان سکھائی جارہی ہے اور منصوبوں کی تکمیل اور کامیابی سے چلانے کے بعد انتظامی امورمقامی لوگوں کے حوالے کئے جائیں گے۔ میں گوادر چیمبرز آف کامرس کے صدر فیصل جمال دستی، نائب صدر امداد رند اور ان کی ٹیم کو سی پیک پر ایک کامیاب سیمینار منعقد کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
.