• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرب اسلامک امریکی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی کامیابی ہے،تجزیہ کار

کراچی( ٹی وی رپورٹ) فلسطینی صحافی عبدالرحمان مطرنے جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کے دوران سعودی عرب میں ہونے والی عرب اسلامی کانفرنس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک خوش ہیں کہ امریکا سے تعلقات بحال ہوگئے اور عرب دنیا کے لیے یہ بڑی کامیابی ہے۔سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس کا واحد مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے،سب اتحادیوں کے لیے دہشت گردی کی تعریف مختلف ہے،امریکا کے لیے حماس بھی دہشت گرد ہے اور حزب اللہ بھی ہے،سعودی عرب کے لیے یہ نہیں ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ داعش اور ایران سے دہشت گردی کے خاتمے کا کہا گیا ہے،اس کے ساتھ ساتھ داعش کے خلاف پوری امت میں اتفاق ہے۔ ممتاز تجزیہ نگارمعید یوسف نے کہا کہ اوباما کے دور میں ایران سے دوری کم کی جارہی تھی اور اس عمل کی مخالفت بھی بہت کی جارہی تھی،یہ ایک طرح سے یو ٹرن ہوا ہے سعودی عرب کو اس کانفرنس سے بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ہے لیکن ایران کوبھی ناراض نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ وہ اس کا ہمسایہ ہے ۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ تمام دنیا کو دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے اور اسرائیل اسی ستون کی طرح امریکا کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ اوباما کے دور میں وہ تھوڑا کمزور ہوا تھا اہداف مختلف ہیں لیکن سعودی عرب اور امریکا دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں،عرب ممالک کی مجبوریاں اور کمزوریاں انہیں ایک ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کررہی ہیں،امریکا میں ایران سے ہونے والی ڈیل پر کوئی خوشی نہیں تھی۔ممتاز تجزیہ نگار کامران بخاری نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب نے اپنا ہدف حاصل کیا ہے یا کوئی ٹوپی ڈرامہ ہورہا ہے،مجھے تو نہیں لگتا کہ کوئی سنجیدہ قسم کا اتحاد ہوا ہے،ٹرمپ کا اچھا استقبال ہوا ۔اس معاملے پر گلف کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔امارات کویت سے کسی خلاف ورزی کی توقع نہیں ہے۔اومان بھی خاموش رہے گا۔بحرین بھی سعودی عرب کا ہمنوا ہے،اس کھیل میں چار کھلاڑی ہیں ایران،ترکی،اسرائیل اور سعودی عرب،اگر آپ پانچویں کو تصور کرنا چاہتے ہیں تو وہ داعش ہے۔امریکا داعش کا تو خاتمہ چاہتا ہے۔اسرائیل بھی نہیں چاہتا کہ ان بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے، سعودی عرب کمزور ہوتا جارہا ہے۔اس طرح عرب پاور علاقے میں دو طاقتیں ہیں ترکی اورایران جو دونوں عرب نہیں ہیں اب عرب دنیا جو ہے وہ کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔امریکا چاہتا ہے کہ ترکی  اس کا سب سے بڑا حلیف ہو لیکن امریکا کردوں کو استعمال کررہا ہے جو ترکی کو بالکل  پسند نہیں ہے تو اسٹرٹیجک طور پر ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے جسے سلجھانا بڑا مشکل ہے اور امریکا کے لیے بڑی مشکل ہے۔عربوں کا اندرونی انتشار داعش کو جگہ دے رہا ہےاورایران کا خوف بھی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حزب اللہ کو ایران کی طرف سے سپورٹ تو مل رہا ہے لیکن حماس کو کسی عرب ممالک سے سپورٹ نہیں مل رہی ۔ حماس مکمل آزاد ہے،امریکہ کی اپنی پالیسی ہے اور وہ یہ ہے حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے عرب ممالک کے اندر اس پالیسی کے ساتھ کوئی اتفاق نہیں ہے لہٰذا یہ امریکہ والی پالیسی ہے اور عرب کی اپنی پالیسی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جولائی 2014 ءء میں چونسٹھ ممالک میں ایک اتحاد داعش کے خلاف بنایا جو ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا لہٰذا عرب دنیا اور سعودی عرب کے اندر یہ تصور ہے کہ ہمیں لیڈ کرنا چاہیے ہمیں الائنس کرنا پڑے گا۔ لہٰذا انہوں نے امریکہ عرب اسلامک سمٹ جو ہوا وہ بہت بڑی کامیابی ہے۔انہوں نے دہشت گردی کا نام لیا اور اس کو ختم کرنے کا طریقہ بنایا صرف عسکری نہیں ، ثقافت ، فکر کے ساتھ ہے علماء کا رول بھی ہے جو سینٹر قائم کیا گیا ریاض کے اندر یہ سب کا پوائنٹ ہمیں لینا چاہیے صرف عسکری والا نہیں ہے ۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ سیریس ہیں ثالثی کرانے میں یا اسرائیل اور فلسطین کے معاملات کو بہتر بنانے میں کیا ان کے پاس کوئی حل ہے،اس کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ مجھے لگتا ہے اس وقت ماحول ایسا نہیں ہے ٹرمپ اپنے آپ کو ایک ڈیل میکر کے طور پر دیکھتے ہیں۔کسی بھی پسِ پردہ معاملات میں عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ کوپریشن ہوتی ہے۔ان کے تعلقات بھی ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ایک طرف وہ سفارتی طور پر فلسطین کے لئے کھڑے ہیں لیکن دوسری طرف وہ مفاد دیکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں ۔ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں سلیم صافی نے ریاض میں ہونے والے عرب اسلامک اور یو ایس سربراہی کانفرنس میں جو اعلامیہ جاری کیا گیااس کے حوالے سے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ان کے دیگر اہداف کے ساتھ ساتھ تین مقاصد ایسے بیان کئے گئے جو ایران سے متعلق ہیں۔لیکن شروع میں یہ تاثر دیا گیا کہ اس اتحاد کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 14 جنوری 2017 ءء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں ، میں لکھ چکا ہوں کہ دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ اتحاد بظاہر سعودی بنا رہے ہیں لیکن اصل سرپرستی امریکہ کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان اور دیگر ممبر ممالک کے ساتھ سعودی عرب نے جو خط و کتابت کی ہے اس میں بھی امریکی کردارکا ذکر موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اومان جیسے ملک جہاں شیعہ اور ابازی بڑی تعداد میں بستے ہیں جس کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں،بھی اس اتحاد کا حصہ بن گئے ہیں۔ اب جس اتحاد کو امریکہ کی شہہ پر بنایا جارہا ہو جو سعودی عرب کی قیادت میں بن رہا ہو اور جس میں مصر،ترکی اومان جیسے ممالک بھی شامل ہوں کیا اس میں شمولیت سے میاں محمد نواز شریف معذرت کرسکتے ہیں۔بہرحال بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے امریکہ کی سرپرستی میں اور سعودی عرب کی قیادت میں پچپن کے قریب اسلامی ممالک کا یہ اتحاد تشکیل پاگیا ہے۔اس اتحاد کے اغراض و مقاصد داعش اور اس جیسی قوتوں سے نمٹنا،ایران اور اس کے زیر اثر قوتوں کوقرب کرنا بتایا گیا ہے۔ اب ایک سوال جو پاکستانیوں کے لئے تشویش کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف جس فوج کی قیادت کرنے گئے ہیں جو 34 ہزاراہلکاروں پر مشتمل فوج ہوگی اس کا کردار کیا ہوگا ،ہمیں یہ بتایا جاتا رہا کہ وہ جو فوج تشکیل پائے گی اس اسلامی اتحادکے اس کا ایران یا سعودی عرب سے باہر کوئی سروکار نہیں ہوگا لیکن خود جو عرب اسلامک سربراہی کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں اس فوج کا جس کی راحیل شریف قیادت کریں گے،اس کا ہدف اور مقصد کچھ یوں بیان کیا گیا ہے بوقت ضرورت عراق اور شام میں دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کس حد تک عملی طور پر اس اتحادکا حصہ بنے گا،اس اتحاد سے سعودی عرب  اور امریکہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس کے فلسطین، عرب دنیا، ایران ، پاکستان امریکہ کے تعلقات اور پاکستان ایران کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
تازہ ترین