23اگست2009ء کی تاریخ نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ان اوراق کو سیاہ کردیا جس میں ایم کیو ایم کو غدار اور ملک دشمن لکھا گیا تھا۔ یوں تو پاکستان کی تاریخ سازشوں اور بحرانوں سے عبارت ہے لیکن جو کچھ بریگیڈیئر (ر) امتیاز اور پانچویں کور کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصیر اختر نے کہا اس نے ایک ایسی تاریخ کو جنم دیدیا جسے سیاست کا طالب علم کبھی بھی اپنے نصاب سے الگ نہیں کرسکے گا ۔
19 جون 1992ء کو ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا گیا جس کے دوران فوج کے ادارہ تعلقات عامہ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ایسے مبینہ نقشے جاری کئے جو ایم کیو ایم کے دفاتر سے برآمد کئے گئے تھے جن میں پاکستان کے اندر ایک ریاست جناح پور کے نام سے بنانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ نقشے ایک اسپانسرڈ پریس کانفرنس میں پیش کئے گئے لیکن دو روز بعد ہی ان نقشوں کی حقیقت واضح ہوگئی اور اس کی تشہیر کو خاموش انداز میں غیر موٴثر کردیا گیا لیکن23 اگست 2009ء کی رات ریٹائرڈ جنرل نصیر اختر نے کہا کہ جناح پور کے نقشے کا انہیں علم نہیں تھا اور یہ دو روز کے بعد واپس لے لئے گئے تھے۔ آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل اور آئی ایس آئی میں داخلی سلامتی کے انچارج بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد نے کہا کہ مکمل تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ جناح پور کا نقشہ جھوٹا اور فراڈ تھا اور یہ ایم کیو ایم کے کسی دفتر سے برآمد نہیں ہوا ۔ بقول بریگیڈیئر امتیاز یہ عوام کو تقسیم کرنے کی سازش تھی۔ جون1992ء کے آپریشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ فوجی آپریشن نواز شریف کی اجازت سے شروع نہیں ہوا لیکن وہ بحیثیت سربراہ حکومت اس آپریشن کو رکوا سکتے تھے۔ اس پروگرام کے دوران انہوں نے بہت سے انکشافات کئے جس میں غلام مصطفی کھر پر فوجی قیادت کو قتل کرنے کی سازش کا بھی الزام عائد کیا اور اس ضمن میں ماضی میں چند افسران کا کورٹ مارشل بھی کیا گیا۔ انہوں نے آئی جے آئی کی تشکیل کے حوالے سے بھی بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو گیا جہاں الطاف حسین صاحب سے میری پانچ گھنٹے طویل ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے آئی جے آئی کی تشکیل میں مدد کرنے سے انکار کردیا۔ بریگیڈیئر امتیاز مزید کہتے ہیں کہ آئی جے آئی کی تشکیل بنیادی طور پر جنرل اسلم بیگ اور سابق صدر غلام اسحاق خان نے کی اس سلسلے میں مجھے رقم موصول ہوئی۔ اس تشکیل میں پاکستان کی اہم مذہبی سیاسی جماعت اسلامی کا کردار بہت اہم ہے۔ آئی جے آئی کی تشکیل بنیادی طور پر پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کیلئے کی گئی۔ فوجی قیادت کو قتل کرنا، سیاسی قوت کا راستہ روکنا اور ایک سیاسی جماعت پر عرصہ حیات تنگ کرنا یہ وہ انکشافات تھے جو دو ایسے اشخاص نے کئے جو کافی عرصے تک ملک کی داخلی اور بیرونی سلامتی کے ذمہ دار تھے۔ ایک موقع پر بریگیڈیئر امتیاز نے یہ سوال اٹھایا کہ جنرل نصیر اختر اس وقت آپریشن کے انچارج تھے ان کے علم میں لائے بغیر جناح پورکے نقشے منظر عام پر کیسے آئے اور ان کے علم میں یہ بات کیوں نہ آئی اور اس کی تحقیقات ہوئی یا نہیں ہوئی، اس ضمن میں جنرل نصیر اختر ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ یہ تو تاریخ رقم ہوئی کہ کراچی کے پندرہ ہزار نوجوان جس آپریشن کی بھینٹ چڑھے، ہزاروں بے گھر ہوئے، اتنے ہی جلاوطن ہوئے اور آج وہی لوگ ایم کیو ایم کو بریت کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں جنہوں نے یہ فرد جرم عائد کی تھی کہ لال مسجد میں ہونے والی ہلاکتوں کا واویلا کرنے والے، آپریشن راہ ِ راست میں مارے جانے والوں کی دھائی دینے والوں کو دعوت فکر ہے کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ شہر کراچی کے پندرہ ہزار نوجوان کس کی انا کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے اور وہ مائیں جو اپنے پیاروں کے انتظار میں آنکھیں پتھرائے بیٹھی ہیں ان کے دکھوں کا ازالہ کون کرے گا۔ وہ باپ جنہوں نے اپنے سپوتوں کو زمین کی آغوش میں سلا دیا ان کے سہاروں کو کون واپس دلائے گا، وہ بہنیں جن کے آنچل کے محافظ چھین لئے گئے اور وہ بیٹیاں جن کا سہاگ اجاڑا گیا، بچے یتیم کئے گئے، چادر اور چہار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا اس کا جواب یقیناً ریاست پاکستان کے ان اداروں کو دینا ہوگا جو سلامتی اور انصاف کے ذمہ دار ہیں ۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتیں جنرل مشرف کے ٹرائل کیلئے تو آمادہ ہیں تو کیا وہ جنرل آصف نواز جنجوعہ ، جنرل نصیر اختر ، بریگیڈیئر آصف ہارون، بریگیڈیئر عباس شاہ ، کرنل خٹک ، میجر جنرل سلیم اسحاق سمیت اس وقت کے ذمہ داروں کا ٹرائل کریں گی اور اگر نہیں کریں گی تو وہ کونسا امر معنی ہے کہ ان اشخاص کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جائے کیونکہ مشرف پر تو لال مسجد کے93 نفوس کو قتل کرنے کا الزام ہے، مشرف کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے لیکن ان لوگوں کا احتساب کون کرے گا جنہوں نے کراچی کے ان پندرہ ہزار نوجوانوں کو خاک و خون میں نہلا کر ان کی لاشوں پر فتح کے نعرے بلند کئے کہ جن کے اجداد نے اس وطن کو بنانے کیلئے لاکھوں جانوں کے نذرانے دیئے یہ اس نسل کے وارثین تھے جو تحفظ اور حفاظت پاکستان کے گیت گاتے نہ تھکتے تھے اس ظلم نے محرومیوں کو جنم دیا اگر اس کا ازالہ نہ ہوا تو اب ملک کے اس حصے کا بھی وہی حشر ہوگا جو بلوچستان میں ہم دیکھ رہے ہیں، محرومیوں کو بڑھنے نہ دیا جائے اور اس بات کو ممکن بنایا جائے کہ ایم کیوایم کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے ،ان کے مقاصد کیا تھے؟ کیا ان کے مقاصد وہی تھے جو بریگیڈیئر امتیاز نے بتائے۔ جنرل نصیر اختر اور بریگیڈیئر امتیاز احمد کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ پاکستان کی فوج اور سلامتی کے اداروں میں ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ ان انکشافات کے بعد ان مقدمات کی حقیقت کا بھی جائزہ لیا جائے جو میجر کلیم کیس سے قتل اور اقدام قتل تک کے بے شمار مقدمات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان ٹارچر سیلز کا بھی اب فیصلہ ہونا چاہئے جن کا ذکر متعدد اسپانسرڈ پریس کانفرنسوں میں فوج کے تعلقہ عامہ کے بریگیڈیئر آصف ہارون نے کیا، ان بہن، بیٹیوں جن کی عزتوں کو تاراج کیا گیا اس کا بھی فیصلہ ہونا چاہئے۔ مجرم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اگر پاکستان کی سلامتی کو محفوظ بنانا ہے تو ان کردار وں کو بے نقاب کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور ریاست پاکستان ان لوگوں کو معاوضہ دے جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں۔ عدالت عظمیٰ ان انکشافات کے بعد ازخود نوٹس کے ذریعے عدالت عظمیٰ کا لارجر بنچ تشکیل دے اور ان معاملات کی تحقیقات کرکے حتمی نتیجے پر پہنچا جائے اور مستقبل میں اس قسم کے معاملات کی روک تھام کو ممکن بنایا جائے۔ کراچی کے عوام نے19جون 1992ء سے تادم تحریر جو وقت دیکھا ہے اس کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن آج بریگیڈیئر امتیاز اور جنرل نصیر اختر کے انکشافات نے جہاں ان کے سر فخر سے بلند کئے کہ وہ ایک ایسی جماعت کو اپنا مینڈیٹ دیتے رہے جو حقیقی معنوں میں ایک محب وطن جماعت ہے اور جس کے منتخب نمائندوں نے اس شہر کی ترقی میں انتہائی مظالم اور ناانصافیوں کے باوجود وہ کردار ادا کیا جو ماضی کے حکمراں 6دھائیوں میں نہ کرسکے ۔ ایم کیوایم آج سرخرو ہوئی ہے کہ وہی لوگ اس کو محب وطن اور بھائی قرار دے رہے ہیں جو کل انہیں دہشت گرد ، ملک دشمن اور جرائم پیشہ قرار دیتے نہ تھکتے تھے ۔ کراچی کے لگ بھگ سو تھانوں کے وہ ایس ایچ اوز جو رات کی تاریکی میں گھروں میں اتر جاتے تھے ، سڑکوں پر بزرگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر شناختی پریڈ کراتے تھے ان کا احتساب بھی ضروری ہے اور اس تمام تناظر میں آج بھی جو عناصر کراچی کے امن کو خراب کرکے اس کا سارا الزام ایم کیوایم کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا بھی سدباب کیاجائے ظلم کی وہ سیاہ رات یقیناً آج ختم ہوگئی جو ایم کیوایم پر 17برس سے مسلط تھی ۔ ایم کیوایم کی سیاسی قیادت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہمیشہ امن پسندی کی بات کی ، صبر ، تحمل ، برداشت کو اپنا ہتھیار بنائے رکھا اور آ ج ریاستی اداروں کے سابقہ ذمہ داروں کے سچ نے الطاف حسین کے دعوے کو ثابت کردیا کہ الطاف حسین نے ہی غریبوں کا سر اونچا کیا اور شاید یہ سزا اسی لئے دی گئی تھی کہ الطاف حسین نے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب لوگوں کو جینے کا درس دیا ان کو ایوانوں میں بھیجا اور پاکستان بھر کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ اپنے اندر سے قیادت نکالو، اپنے اندر سے قیادت نکالو اور منظم ہوجاؤ ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ آج ایم کیوایم کا پیغام پورے پاکستان میں پھیلتا نظر آرہا ہے اور اس راہ میں رکاوٹ ختم ہوگئی اور آج ایم کیوایم نہ صرف سرخرو ہوئی ہے بلکہ 24اگست کا دن اس بات کی نوید ہے کہ آنے والا کل الطاف حسین کا ہے اور ایم کیوایم کا ہے کیونکہ یہی وہ قیادت اور جماعت ہے جو غریبوں کی اصل حکمرانی کیلئے کوشاں ہے ۔ 24اگست کے دن کی کامیابی پر ایم کیوایم کی قیادت، کارکن اور الطاف حسین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کا صبر اور ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور آج وہ تمام باطل قوتوں کو شکست دیکر اس فتح مبین کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔