پاکستان کے حالات دن بدن جمہوری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے پارلیمانی تبدیلی کی طرف جارہے ہیں، اگر آنے والے دنوں میں جے آئی ٹی کی رپورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بنچ کی حتمی رائے یا فیصلہ آنے کے بعد ایسے ہی ہوجاتا ہے تو اس سے جمہوری نظام کے بچائو کی تدابیر آسان ہوسکتی ہیں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی اطمینان ہوسکتا ہے،خاص کر چین اور امریکہ سمیت کئی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیاں مطمئن ہوسکتی ہیں جن کو یہ فکر لاحق ہورہی ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل میں کسی قسم کی رکاوٹ سے بین الاقوامی سطح پر معاشی پالیسیوں کے حوالے سے کئی نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ شاید اس لئے ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم سیاسی اور انتظامی حالات کے حوالے سے بے پناہ دبائو کے باوجود اپنے آپ کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔یہی صورتحال پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی ہے یہ سب کچھ وہ اپنے سیاسی تجربہ کی بنیاد پر شو کررہے ہیں حالانکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ ان کی پارٹی کے 70سے 100کے درمیان ایسی بااثر شخصیات درمیانی راستے پر چلنا شروع ہوگئی ہیں مگر وہ سب جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کا انتظار اور اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی نئی سیاسی حکمت عملی کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ اپنی جگہ عارضی طور پر کس کو نامزد کرتے ہیں، جو ان کے اعتماد پر پورا اتر سکے اور پارٹی کے مرکزی رہنمائوں کو بھی قابل قبول ہو۔اس سلسلے میں ویسے تو کئی شخصیات کی آوازیں لگ رہی ہیں کسی جگہ سینیٹر اسحاق ڈار، کسی جگہ نثار علی خان اور احسن اقبال غرض کئی نام اسمبلی کی لابی اور میڈیا چینلز پر زیر بحث ہیں مگر ایسے لگتا ہے کہ چونکہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے امکانات ہیں اس لئے قرعہ فال اسپیکر ایاز صادق کے نام نکل سکتا ہے۔ جیسے ہی اس حوالے سے کوئی چیز حتمی سطح پر پہنچ جاتی ہے تو ہمارے ملکی سیاسی مزاج کے عین مطابق یہ آوازیں لگ سکتی ہیں کہ ’’ایاز صادق قدم بڑھائو‘‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس صورت میں شریف فیملی کو اپنے حوصلے مضبوط رکھنے ہوں گے مگر دوسری طرف عمومی تاثر یہ سامنے آرہا ہے کہ میاں نواز شریف یا شریف فیملی کو اپنے بیگیج میں سے کچھ تو قربانی دینا ہوگی جس کا فیصلہ عدالت عالیہ نے کرنا ہے اور اسے قبول کرنا ہے۔مسلم لیگ کی قیادت اور شریف فیملی کی۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بظاہر سیاسی طور پر بڑے محفوظ دکھائی دے رہے ہیں ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی اس پس منظر میں ہوگا۔یہ سب کچھ جو بھی ہونے جارہا ہے اس میں شریف فیملی ایک بڑے دبائو میں آنے کے باوجود سیاسی طور پر مکمل کمزور نہیں ہوسکے گی۔ اس کی وجہ ان کی کئی ہزار افراد پر بہترین سرمایہ کاری ہے جن کی وجہ سے ان کے کیرئیر بنے اور اب ان کے اس صلہ میں کچھ ریٹرن کرنے کا وقت آچکا ہے۔ اس کے علاوہ شریف خاندان پر کرپشن کے نئے نئے الزامات اورریفرنس آنے کے باوجود قومی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کو کوئی دوسرا نظر نہیں آرہاجس سے مستقبل کا سیاسی نظام چلایا جاسکے۔ اس لئے ایسے نظر آرہا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف ہردو صورت میں بھی کئی حلقوں کے لئے قابل قبول ہوسکتے ہیں۔
اب آگے ان کے مخالفین کا کام یا کمال ہے کہ وہ 14اگست سے پہلے ہونے والی نئی ڈویلپمنٹ میں کس طرح فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی اور عمران خان کو فرنٹ لائن پر آکر چھکے پہ چھکا مار کر اپنی جگہ بنانا ہوگی۔ یہ سب مخالفین کے لئے آخری موقع ہوگا ورنہ پھر یہاں جمہوریت نہیں اور یا پھر ہمیشہ کے لئے خاندانی بادشاہت آسکتی ہے اور اس کے بعد کرپشن سب کے لئے قابل قبول’’اسپرو ‘‘ کی گولی ثابت ہوتی جائے گی جس سے اخلاقی طور پر معاشرے میں تنزلی کا سفر تیز ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔