رمضان میں پھلوں کا بائیکاٹ تو ہو گیا، اب سنا ہے گوشت اور بجلی کے بل کا پروگرام بن رہا ہے (بجلی کا شاید اس لئے نہیں بن سکتا کہ بائیکاٹ کی جانے والی چیز کے لئے اس کا موجود ہونا بہت ضروری ہے) بہرکیف، ہر عمل کی طرح اس اقدام کے بھی مثبت منفی پہلو اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ مثبت ایسے کہ بالآخر، کسی نہ کسی طرح، غلط یا صحیح، مطلوبہ ہدف یعنی اشیاء خود و نوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ منفی پہلو میں اس عام آدمی کا (Suffer) کرنا ہے جس کی روٹی، روزی براہ راست بائیکاٹ کی جانے والی مصنوعات سے وابستہ ہے یعنی پھلوں اور سبزیوں کی صورت میں ایک ’’ٹھیلے والا‘‘ گوشت کے نتیجے میں ’’قصائی‘‘ اور روزمرہ ضروریہ کی صورت میں ایک ’’دکان والا‘‘۔
دوسرے لفظوں میں اس سے متاثر یا اس کو بھگتےگا وہ جو ان معاملات میں تقریباً بے قصور ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اقدامات کا جو اصل (Target) ہے، وہ پورا ہو رہا ہے یا نہیں۔ مقصود ہدف جو کہ مہنگائی بالخصوص خاص مواقعوں پر ’’اچانک‘‘ پیدا ہوجانے والے اضافے کو کم کرنا ہے، اگر بہ احسن و خوبی کم ہو جاتا ہے تو بات الگ ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا خمیازہ (پہلے ہی سے پسے ہوئے) مزدور طبقے کو بھگتنا پڑے تو یہ انتہائی غلط ہوگا۔ اصل ذمہ داران تو ہمیشہ ہی کی طرح ’’بچ نکلنے‘‘ میں کامیاب ہو جائیں گے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایک مہذب معاشرے میں اس قسم کے اقدامات کس حد تک جائز ہیں؟ ہم یقیناً ایک تہذیب یافتہ قوم ہیں، تو کیا ایسے عمل ہماری تہذیبی شناخت کو متاثر کر سکتے ہیں؟
ہماری اقدار ہمیں اخلاقیات، شفقت، تربیت، باہمی حسن و سلوک اور احساس و اپنائیت کا درس دیتی ہیں۔ اس میں کہیں بھی کسی کی دل شکنی، تکلیف، مشکلات اور ایذا رسانی کا تصور نہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ لوگ آخر کریں تو کیا کریں۔ عام آدمی کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور نہ ہی انہیں ان کا کوئی حل نکلتا نظر آرہا ہے۔ ہر سو بے بسی، مایوسی اور حوصلہ شکنی کا راج ہے۔ دلبرداشتہ وجود اپنے تئیں کئے گئے ’’فیصلوں‘‘ کو جائز گردانتے ہیں۔ آخر شروعات ہوئی کہاں سے ہو؟
بیتے عشروں کو یاد کیا جائے تو ثابت ہوگا کہ ’’متوسط‘‘ اور ’’نچلا طبقہ‘‘ ہمیشہ سے ہی مشکلات کا شکار رہا ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی تکالیف سے بھرپور ہے۔ تلخ زندگی کا آغاز بے بسی کی موت پر ختم ہوجاتا ہے۔ لوگ اپنے جائز حقوق سے سالہا سال سے محروم ہیں۔ اکثریت تو اپنے انسانی، معاشرتی اور بنیادی حقوق سے ہی ناآشنا ہے۔ نہ ہی انہیں کوئی ایسا Platformمیسر ہے جہاں وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرسکیں۔
آج ایک غریب مزدور، تھکا ہارا جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو پرسکون نیند اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ سوئے بھی تو کیسے۔ پنکھے، لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے چلتے نہیں۔ اسی صورت میں گھر کے باہر کچے پکے چبوتروں پر قمیص اتارے سونے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اب تو ’’قدرتی ہوا‘‘ بھی چلنی کم ہو گئی ہے۔ کہنے والے اسے شامت اعمال کہہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ اعمال انفرادی ہیں یا اجتماعی یا پھر کسی مخصوص شخصیت کے؟ یہ وضاحت نہیں کی جاتی۔
بجلی نہ ہو تو پانی کا تصور محال ہے کیونکہ اب زمانہ Hand Pumpکا نہیں برقی موٹرز کا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ اچھی اور معیاری غذا کا حصول ناپید ہے۔ نقاہت افسردہ چہروں پر عیاں ہے۔ غریب کے لئے پھل و فروٹ، میٹھے پکوان اور خشک میوہ جات محض ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے بالخصوص پیٹ سے متعلق بیماریوں کی بھرمار ہے۔ سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ بیروزگاری پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ اپنا کاروبار کرنے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، جو غریبوں کے پاس نہیں، معاشرتی و سماجی ناانصافیاں و زیادتیاں عروج پر ہیں۔ اقربا پروری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ملاوٹ شدہ اشیا، صحت مند زندگی پر کاری ضرب لگا رہی ہیں۔ دالیں گلتی نہیں، سبزیاں کڑواہٹ کا شکار ہیں۔ دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ ملا ہے، جانچنا مشکل ہے۔ چوزے انتہائی پھرتی سے بڑے ہو رہے ہیں۔ گوشت زندہ حلال کا تھا یا مردہ حرام جانور کا، بہت سے مقامات پر جواب طلبی کا منتظر رہتا ہے۔ گھی، تیل، آٹا، مرچیں، صابن سب مشکوک ہیں مگر بک رہی ہیں لیکن اب لگتا ہے ملاوٹ کا مسئلہ شاید ختم ہو جائے! کیسے…؟ ’’پلاسٹک والی چیزوں سے‘‘ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ اور پھر جب ان حالات میں صدائیں ’’سب اچھا ہے‘‘ ’’ہم ترقی کررہے ہیں‘‘ کی بلند ہوتی ہیں تو بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے… کھوکھلی مسکراہٹ! یقیناً ہم ترقی بھی کریں گے اور سب اچھا بھی ہوجائے گا۔ بہت ضروری ہے کہ ایک عام، غریب، مفلس اور لاچار آدمی کی ترقی کو مدنظر رکھا جائے۔ رلتی، سسکتی زندگیوں کو فراموش کرکے خوشحالی کا تصور محض ایک فریب ہے۔