• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کے عام لوگ بچوں کی روٹی روزی ،علاج معالجہ ،تعلیم اور بجلی کے بل کی آخری تاریخ کوہی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ۔دوسری طرف اس ملک کی سیاسی ایلیٹ جو کہ صحیح معنوں میں ’’اشرف المخلوقات ‘‘ واقع ہوئی ہے اپنے تخلیق کار وں اور مینوفیکچرز کے ساتھ اقتدار کا آخری رائونڈ کھیل رہی ہے۔ کیاتصویر اپنے مصور کے ساتھ اختلاف کرسکتی ہے؟ کیاکوئی روبوٹ مینوفیکچرر کی حکم عدولی کرکے اپنا مشینی پیرہن اور وجود قائم رکھ سکتاہے اور کیامورتیاں اور بُت اپنے سنگ تراشوں کو چمتکار دکھانے کی ’’شکتی ‘‘رکھتے ہیں؟
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
80ء کی دہائی میں بھارت کی عظیم مغنیہ لتا منگیشکر نے مہدی حسن کو گائیکی اور سُروں کا بھگوان قراردیاتو موسیقار ماسٹر عبداللہ نے ایک ایسی پیچیدہ دھن تیار کرلی تھی جس سے بھگوان (مہدی حسن ) پھر سے اپنے آپ کو انسان سمجھنے لگے تھے۔یہ دلچسپ واقعہ آخر میں بیان کروں گا پہلے اس غدر پر نگاہ ڈالتے ہیں جوسیاست کے میدان میں مچا ہواہے ۔اخبارات کی تیزابی شہ سرخیوںکا اثر ابھی ماند نہیں پڑتا کہ سرشام تجزیوں اور تبصروں کا بازار سج جاتاہے۔ ہرلمحے سیاسی فضا میں ایک نئی شرلی (ہوائی) چھوڑی جاتی ہے۔ حکومت کے خلاف فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے ایک کھلاڑی نے تو چکری کے چوہدری صاحب کی سربراہی میں قائم ہونے والے نون لیگ کے مبینہ فاورڈ بلاک کی تصویری جھلکیاں بھی نشر کردی ہیں۔یعنی حکومتی کیمپ کے ایڈوانس بھگوڑوں اور اشتہاریوں کا جملہ نام پتہ ،ذات برادری اور ڈاکخانہ وغیرہ ظاہر کیاہے۔اسدعمر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شفقت محمود نے بھی دعویٰ کیاہے کہ ہمارے ساتھ نون لیگ کے ممبران صوبائی وقومی اسمبلی رابطے میں ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد بہت سے نون لیگی،پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے۔ان کا مطلب ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد اقتدار کے بہت سے پیراک نون لیگ کے ’’بڈھے دریا‘‘ سے پی ٹی آئی کے سمندر میں گریں گے ۔غالب نے ایسے کسی منفعت بخش سفر کیلئے کہاتھاکہ
غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
اقتدار کے کھیل کے سیاسی’’ ترقی پسند‘‘ ( براہ کرم اسے بورژوانہ سمجھئے گا) نون لیگ کو ٹائی ٹینک سمجھ کر اس سے چھلانگیں لگانے کے لئے تیار ہیں۔ٹائی ٹینک وہ بدنصیب بحری جہاز تھا جو برطانیہ کے ساحل سائوتھ ایمپٹن سے نیویارک کیلئے روانہ ہوا تھا اور بحراوقیانوس میں غرق ہوگیاتھا۔ بربادی اور خانہ آبادی کے اس سانپ سیڑھی کھیل میں سادہ چوہدری مان نہیں ہوتا اور اگرچوہدری بیرسٹر بھی ہوتو پھر اعتزاز احسن ہوتا ہے۔ گزری سردیوں کی ایک یخ بستہ شام لاہور گلبرگ میں دانشوروں اور چاند چہروں کی ایک محفل سجی تھی ۔ اس خوبصورت محفل میں میں بھی شریک تھا۔ میںنے بیرسٹر صاحب کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ پاناماکا کیاہوگا؟ چوہدری صاحب نے جھینپے بغیر جواب دیا تھاکہ ’’شریفوں کو سینک پہنچایاجائے گا لیکن ضربِ شدید نہیں آئے گی‘‘۔بیرسٹر صاحب اب بھی وہی بات کررہے ہیں، انہوں نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے لگتاہے میچ فکس ہے۔سیاست،قانون ،انصاف اورپاور گیم میں بیرسٹر اعتزاز کی حیثیت کیری پیکر جیسی ہے وہ گرائونڈ میں اتری ٹیموں کی اجتماعی اور انفرادی خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہیں اسلئے پیشن گوئی کرسکتے ہیںکہ کون ففٹی اور کون سنچری بنائے گا اور کون اس گیم میں کلین بولڈ ہوگا۔بیرسٹر صاحب کی پیپلز پارٹی کے لئے میڈیا میںعام طور پر کہاجاتاہے کہ وہ قصہ ،کہانی اور داستان بن چکی ہے لیکن حال ہی میں ہونے والے کراچی اور گلگت کے ڈسٹرکٹ ہنزہ کے علاقہ نگر کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا ہے پی پی پی 2018کی انتخابی چیمپئنز ٹرافی کی اہم ٹیم ہوگی ۔اگرچہ متحدہ (پاکستان) کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے کراچی کے انتخاب کی دوبارہ گنتی کیلئے کہاہے لیکن نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔
اس ایک زندگی میں ہی ابھی کیاکیادیکھنا باقی رہ گیاہے ؟کبھی بانی متحدہ کانام کراچی کے لئے ’’کھل جا سم سم‘‘ ہواکرتاتھا۔
اس شہر کی حیثیت کوہ قاف جیسی تھی اور بانی متحدہ اس کے شاہ ِجنات ہوا کرتے تھے لیکن اب اس جن کو بوتل میں بند کردیا گیاہے۔گزشتہ دور میں دھرنا اور لاک ڈائون جیسی سرگرمیاں اگر نون لیگ برینڈ جمہوریت کے لئے مضرثابت ہوئیں تو کراچی کو دوبارہ عروس البلاد بنانے کی داغ بیل بھی رکھی گئی ۔یہ سہرا بھی ان طاقتوں کے سر ہے جنہوں نے جنرل ضیاالحق کے دور میں لاہور گورنر ہائوس میں جواں سال صنعت کار کے سر پر ایک ویٹرکی پگڑی سجا کر بتادیاتھاکہ حکمرانی کا ہُما اب کس کے سر بیٹھے گا،آنے والے وقتوں میں کون ہیٹرک کرتارہے گا؟اب اگر واویلاکیاجارہاہے کہ کٹھ پتلوں کا تماشہ ہورہاہے تو اس نوٹنکی کا اصول ہے پتلی اپنے پاٹے خاں کی حکم عدولی نہیں کرسکتی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کٹھ پتلی کی ڈور پاٹے خاں کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔آخر میں ماسٹر عبداللہ اور مہدی حسن کا قصہ بھی سن لیں۔ جس کے تحت ماسٹر عبداللہ نے مہدی حسن کو بھگوان سے دوبارہ انسان بنانے کی ’’سازش‘‘ کی تھی۔ 60سے 70کی دہائی میں جب برصغیر خصوصاََ بھارتی فلم انڈسٹری میں مہدی حسن کے فن کا ڈنکا بجا تو بڑے بڑے فنکاروں نے مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کیا۔ لتا منگیشکر نے مہدی حسن کے لئے کہاتھا کہ ’’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں‘‘۔یہ بات ماسٹرعبداللہ نے بھی سنی اور معاصرانہ چشمک کے جذبے کے تحت ہارمونیم لے کر بیٹھ گئے اور کئی دنوں کی شبانہ روز محنت کے بعد انہوں نے ایک ایسی دھن تیار کرلی جسے مہدی حسن کے خلاف ’’سازش‘‘ بھی قرار دیا جاسکتاہے۔یہ دھن تکنیکی طور پر بڑی پیچیدہ تھی ۔مجھے یاد ہے ماسٹر عبداللہ نے یہ دھن پنجابی فلم ’’دل ماں دا‘‘ کے لئے موضوع کی تھی۔ ماسٹرصاحب کا خیال تھاکہ مہدی حسن ان سمیت دوسرے موسیقاروں کی دھنیں گا کر عظیم فنکار بنے ہیںاور لتا منگیشکر نے انہیں ’’بھگوان‘‘ قراردیا ہے دوسری طرف انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی ۔ایورنیو اسٹوڈیو میں مہدی حسن جب اس دھن کو ریکارڈ کرانے آئے تو وہ بھگی پر سوار تھے ۔ریڈکارپٹ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے انہیں ریکارڈنگ روم میں لایا گیا، رسمی آئو بھگت کے بعد جب گانے کی باری آئی تو ماسٹر عبداللہ کی بنائی استھائی کئی گھنٹوں تک مہدی حسن ادا نہ کرپائے ۔عینی شاہدین بیان کرتے ہیں کہ مہدی حسن بار،بار یہ استھائی سنتے اور کہتے ۔۔ایک بار اور کہیے ماسٹر صاحب۔۔۔جواب میں ماسٹر صاحب طنزاََ کہتے !بھگوان گائیں ناآپ تو لتا کے بھگوان ہیں ۔۔۔مہدی حسن درخواست کرتے رہے کہ ماسٹر صاحب ایک مرتبہ پھر کہیں۔جب یہ سلسلہ پھر دیر تک چلتا رہا تو ماسٹر عبداللہ نے یہ کہتے ہوئے اپنی بھڑاس نکالی کہ ۔۔۔اوئے بھگوان گائو ۔۔۔گاتے کیوں نہیں!!!لگتاہے وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف بھی ان کے موسیقار کوئی سریلی سازش کررہے ہیں!

تازہ ترین