وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی سفر کو آزمائشی حالات کا سامنا ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے تو دوسری طرف پرانے ساتھی ان سے روٹھ رہے ہیں۔مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف کے لئے ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں رہی۔مارشل لادور سے لے کر آج تک ہمیشہ نوازشریف کی زندگی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ تمام قوتوں کا ٹارگٹ نوازشریف کی سیاست ہے۔ایسے کٹھن حالات میں پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہونا مناسب نہیں ہے۔اگر آج کی مسلم لیگ ن کا جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے بعد شاید تین سے چار لوگ ہونگے ،جو اس وقت سے نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں،جب مسلم لیگ ن کی باقاعدہ بنیاد بھی نہیں ڈالی گئی تھی۔چوہدری نثار علی خان کا شمار ان گنتی کے افراد میں ہوتا ہے جو مسلم لیگ ن کے قیام سے بھی پہلے کے نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔آج خبریں منظر عام پر آرہی ہیں کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار نوازشریف سے 35سالہ رفاقت کا سفر ختم کرنے جارہے ہیں۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ چوہدری نثار ناراضی میں وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے مگر مسلم لیگ ن نہیں چھوڑیں گے۔جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ چوہدری نثار مسلم لیگ ن چھوڑ کر نئے سیاسی سفر کا آغاز کریں گے۔میری اطلاع کے مطابق 80کی دہائی سے چلنے والی رفاقت کو ختم کرنا بہت مشکل ہوگا۔
چوہدری نثار علی خان کا شمار نوازشریف کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔نواز شریف کی چوہدری نثارسے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی غیر موجودگی میں جس شخص نے 2008میں مسلم لیگ ن کی طرف سے بطور اپوزیشن لیڈر نمائندگی کی تھی ،وہ چوہدری نثار علی خان کی ذات تھی۔2013کے عام انتخابات کے بعد واحد آدمی تھے جنہیں پسند کی وزارت دی گئی۔اسی طرح چوہدری نثار نے بھی نوازشریف کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔مشرف آمریت کے دوران چوہدری نثار کو وزارتوں کی آفر کی گئی مگر انہوں نے ہر چیز پر نوازشریف کو ترجیح دی گئی۔دھر نا سیاست کے دوران جب ذوالفقار کھوسہ اور غوث علی شاہ جیسے لوگ خفیہ "دوستوں"کے اشاروں پر ڈگمگاگئے تھے مگر چوہدری نثار ناراضی کے باوجود نوازشریف کے ساتھ کھڑے رہے۔حالانکہ اطلاعات ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کو بھی پیغامات بھجوائے گئے مگر انہوں نے نظر انداز کردئیے۔آج ایک مرتبہ پھر چوہدری نثار اور مسلم لیگ ن کے قائد کے درمیان ناراضی کی خبریں عروج پر ہیں۔مسلم لیگ ن میں موجود چوہدری نثار کی مخالف لابی وزیراعظم کو مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ مشکل وقت میں چوہدری نثار ہمیشہ ایسا کرتے ہیں۔حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔چوہدری نثار اور وزیراعظم کا ذاتی رشتہ بہت مضبوط ہے۔کسی بھی مشکل سے پہلے چوہدری نثار مسلسل وزیراعظم نوازشریف کو بلاواسطہ یا بالواسطہ مشورے دے رہے ہوتے ہیں ،تاکہ آنے والے آزمائشی حالات سے بچا جا سکے۔دھرنا سیاست سے قبل بھی چوہدری نثار کی رائے تھی کہ مشرف والے معاملے کو زیادہ طول نہ دیا جائے،وگرنہ اس کے اثرات خطرناک ہونگے۔پھر اس کا ردعمل دھرنا سیاست کی صورت میں سامنے آیا اور چوہدری نثار نے ناراضی کا اظہار کیا کہ اگر ان کی بات مان لی گئی ہوتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔اسی طرح پاناما لیکس آنے کے بعد چوہدری نثار کی رائے تھی کہ وزیراعظم ،وکلاء اور تمام بچے پورا مسئلہ پارٹی کے چند ذمہ دار لوگوں کے سامنے رکھیں۔جس پر ہم سب تنقیدی سوالات کریں اور یہ پریکٹس بار بار کی جائے گی۔اگر وزیراعظم اور ان کے بچے ہمارے ہر سوال کا جواب تلاش کرنے اور ہماری تنقید کوغیر موثر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر کسی بھی عدالت یا جے آئی ٹی میں معاملہ لے جائیں۔کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔لیکن اس معاملے میں بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔جس کے بعد نااہلی کی تلوار تک معاملہ پہنچ گیا اور چوہدری نثار نے کابینہ اجلاس میں اپنا موقف بیان کیا۔بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید آزمائشی صورتحال کے دوران اچانک چوہدری نثار کا یہ ردعمل سامنے آیا ہے لیکن وہ لوگ معاملے کے سیاق و سبا ق سے آگاہ نہیں ہوتے۔اسی طرح چوہدری نثار اور وزیر اعظم کے درمیان دراڑ ڈالنے والوں نے رائے دی کہ سول عسکری تعلقات کی نئی بنیاد ڈالی جائے اور اس میں چوہدری نثار کو دور رکھا جائے۔نئی قیادت کی تبدیلی و دیگر معاملا ت میں یہی پالیسی اپنائی گئی ۔ایسے لوگوں کو سول عسکری تعلقات کی کمان سونپی گئی جن کا عملی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔سول عسکری تعلقات کے رموز واوقاف سے بھی ناآشنا تھے۔پھر سب نے دیکھا کہ معاملات چند ہفتے بھی ٹھیک نہیں چل سکے۔چوہدری نثار کی خوبیوں اور خامیوں کے باوجود پچھلے 30سال سے تو یہ معاملات چل رہے ہیں اور کبھی بھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ درپردہ قوتیں نوازشریف کی سیاست ختم کرنے پر تل جائیں۔یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چوہدری نثار کا ایک منفرد مزاج ہے اور حساس بھی بہت ہیں مگر چوہدری نثار کبھی بھی نوازشریف کے خلاف سازش کا حصہ نہیں بن سکتے۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی وزیر پچھلے چار سال سے مسلسل ان کی سیاست ختم کرنے کی کوشش کررہا ہوتو وہ موقع آنے پر ان کے من پسند چیئرمین کی تحقیقات میں ایف آئی اے پر اثر انداز نہ ہواور ایف آئی اے جو کچھ کرے ،خاموشی سے دیکھتے رہیں۔
ان سب بالا حقائق کے باوجود میری رائے ہے کہ چوہدری نثار کو کابینہ اجلاس میں تنقیدی تقریر سے اجتناب کرنا چاہئےتھا۔دوستی سب مفادات سے بالاتر ہوتی ہے ۔اس بار تنقید اس لئے مناسب نہیں تھی کہ معاملہ مسلم لیگ ن کی سیاست کا نہیں بلکہ آپکے اپنے نوازشریف کی ذات کا تھا۔ایسے موقع پر یہ کہا جاتا تو اچھا ہوتاکہ جناب وزیراعظم! میرا تمام معاملات سے شدید اختلاف ہے مگر اس جنگ کے بعد ان اختلافات پر بات ہوگی۔چوہدری نثار صرف ایم این اے یا وفاقی وزیر نہیں بلکہ نوازشریف کا دوست بھی ہے اور دوستوں کو آزمائش میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔
چوہدری نثار کے جو تحفظات ہیں۔شاید مسلم لیگ ن کے اکثریتی وزراء کی رائے ان کے ساتھ ہو۔مگر یہ موقع درست نہیں تھا۔آج کی قومی اسمبلی میں چوہدری نثار واحد رکن قومی اسمبلی ہیں جو 1985سے مسلسل آٹھویں مرتبہ منتخب ہوتے آرہے ہیں۔جن کی سیاست نوازشریف کے ساتھ شروع ہوئی ہے اور اسی کے ساتھ ختم ہوگی۔جن کو حلقے کے عوام صرف اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ چوہدری نثار وضع دار انسان ہے اور ہمیں ہماری خوشی غمی یاد ہویا نہ ہو ۔مگر چوہدری نثار کو یاد ہوتی ہے۔ایک ایسا شخص جس نے روایات اور بھرم میں زندگی کے 40سال صرف ایک شخص کے نام کردئیے۔ آج وہ بھلا اسے کیسے چھوڑ سکتا ہے؟