• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتابیں ہیں چمن اپنا عرض تمنا … خالد محمود جونوی

ایک مرتبہ ہم کچھ دوست پاکستان کے دوردراز علاقے میں سیروتفریح کیلئے گئے، راستے میں سیر و سیاحت کے کئی دوسرے شوقین بھی مل گئے، جب تبادلہ گفتگو اور تعاوف کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں اپنی سکونت کوٹلی کی بجائے میرپور سے کرائی۔ ہمارا خیال تھا کہ کوٹلی کی نسبت میرپور زیادہ مشہور ہے۔ وہ ستم ظریف بولے کہ میرپور کو میرپور اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ امیر ہے۔ ہم نے کہا کہ میرپور واقعی امیر ہے مگر اس کی امارت اس کا اہل ثروت طبقہ نہیں بلکہ رومئی کشمیر حضرت میاں محمد بخشؒ، راجہ اکبرخان، بابا زمان، جی ایم میر، سید علی احمد شاہ، عبدالخالق انصاری، چوہدری نورحسین، غازی الہی بخش، محمود ہاشمی، رانا فضل حسین اور محمد رفیق العصری سمیت ایک عام وہ طبقہ جس نے روشن پاکستان کیلئے اپنا گھر بار حتیٰ کہ اپنے آبائو اجداد کی نشانیاں ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ مٹادیں۔ پہلی مرتبہ جب منگلا جھیل کی تعمیر ہوئی اور دوسری مرتبہ جب اس کی توسیع کی گئی۔ اس منگلا جھیل میں ایک عظیم الشان پل میرپور سے اسلام گڑھ تک زیرتعمیر ہے۔ اسلام گڑھ کے اس کنارے جہاں پل ختم ہوتا ہے ایک عظیم علم و کتاب دوست شخص بستا ہے میں نے ان کے متعلق سن رکھا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں ایک بہت بڑی لائبریری قائم کررکھی ہے جب آپ سے کوئی کہے کہ گھر میں لائبریری قائم ہے تو یہی تاثر ابھرتا ہے کہ ایک گھر کے کمرے میں ایک بڑی لائبریری کیسے سما سکتی ہے۔ کچھ اسی قسم کے مفروضے ہم بھی ذہن میں بٹھائے اقبال دائم لائبریری اسلام گڑھ میں  جا پہنچے۔ وہاں جاکر آنکھوں نے عجیب نظارہ دیکھا کہ لائبریری کیلئے ایک کمرہ نہیں بلکہ پورے گھر میں لائبریری ہے جس کے کم و بیش چھ سے سات کمرے ہیں اور بالائی منزل سب ہی کتابوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ محمد رفیق العصری اس خوبصورت لائبریری کے روح رواں ہیں۔ ان کے ایک بیٹے غلام فرید جو ہیلی فیکس میں مقیم ہیں ہمارے دوست ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا ان سے غائبانہ تعارف تو تھا مگر ملاقات نہ تھی۔ واہ کیا حلیم الطبع شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو کل وقتی طور پر لائبریری کی دیکھ بھال کیلئے وقف کررکھا ہے شاندار طریقے سے شیلفوں میں رکھی کتابیں محمد رفیق العصری کی نفاست کا اظہار ہیں۔ یہ لائبریری انہوں نے اپنے مرشد اور پنجابی زبان کے شاعر دائم اقبال دائم کے نام موسوم کررکھی ہے۔ اللہ ان کے جذبے جواں اور متحرک رکھے انہوں نے لائبریری ہی کو نہیں بلکہ اس علاقے اور ان رستوں کو بھی جو ان کے گھر کی طرف جاتے ہیں، ممتاز بنادیا ہے۔ جب کوئی علمی و ادبی شخصیت اور علم کا پیاسا ان رستوں پر چل کے آتا ہے تو رستے بھی اپنے اوپر فخر کرتے ہیں کہ یہ کس عظیم شخصیت نے قدم رنجہ فرمایا ہے۔ لائبریری قائم کرنے کا خیال کیسے آیا؟ اس کا جواب انہوں نے دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بڑے بھائی محمد صدیق مرحوم شاعر تھے انہوں نے اپنے ایک صندوقچے میں پنجابی ادب کی کچھ کتابیں جمع کررکھی تھیں کبھی کبھار وہ ان کا مطالعہ کرتے اور جھاڑ پونچھ کر واپس رکھ دیتے۔ 1976میں کتابیں پڑھنے کا شوق چرایا اور یوں اس شوق کی تکمیل یہ لائبریری ہے۔ کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں نے خود تو تصنیف و تالیف تو نہیں کی مگر کئی صاحب علم و ادب کے سامنے زانو تلمذ کرنے کا اعزاز رکھتا ہوں لائبریری میں پانچ زبانوں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور پنجابی کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں کے بڑے قدیم قلمی نسخے موجود ہیں۔ محمد صدیق العصری کئی عرصہ تک اولڈھم میں مقیم رہے۔ اب عارضہ قلب کا شکار ہیں اور مکمل طور پر میرپور میں سکونت پذیر ہیں۔ ابتک ہزاروں لوگ لائبریری سے مستفید ہوچکے ہیں۔ سابق وزیراعظم پاکستان راجہ محمد پرویز اشرف سمیت بیرون ملک سے کئی وفود آچکے ہیں۔ محمد رفیق العصری کا کتابوں سے عشق تو ملاحظہ کیا مگر اگلے کمروں میں پہنچے تو ایک پورا عجائب گھر نظرآیا، قدیم زمانے میں استعمال ہونے والی نادراشیاء سے لیکر آلات موسیقی الغرض ہرچیز سے ان کے اعلیٰ ذوق و شوق کی نشاندہی ہوتی تھی۔ لائبریری میں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد ان سے الواداعی مصافہ کیا تو ان کے ہاتھ چومے اور ان کی سوچ و فکر کو داد دی جو اپنے علمی وادبی ورثے کو محفوظ بنانے کیلئے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود چاک و چوبند ہیں گھر واپس آتے ہوئے سارے راستے میں یہ خیال پریشان کرتا رہا اللہ تعالیٰ ان کی عمردراز کرے ان کے بعد اس عظیم ورثے کی کون دیکھ بھال کرے گا اور بالخصوص منگلا جھیل کا پانی جو لائبریری کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس چلا جاتا ہے جس دن کسی سرپھری لہر نے اندر کا رخ کرلیا، بس یہ خیال ہی جھنجوڑ دیتا ہے۔ مجھے امید تو نہیں کہ میری یہ بات حکومت یا اس کے کسی اہلکار تک پہنچ جائے گی مگر اپنی طرف سے کوشش کرکے دیکھتے ہیں، حکومت آزاد کشمیر کو اس لائبریری کو میرپور کے کسی تعلیمی ادارے کے ساتھ منسلک کرکے کسی علم و ادب دوست کو اس کی ذمہ داری سونپے تاکہ محمد صدیق العصری کا احساس جواں رہے کہ ان کا خزانہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اس میں کثیرالجہت موضوعات پر لاکھوں کتابیں ہیں جن سے استعفادہ کرکے ہمارے بچے Phdکی تیاری کرسکتے ہیں۔ لوک ورثے سے دلچسپی رکھنے والے شخص کو اس میوزیم کا نگران بنایا جائے اور جب دونوں سلسلے محفوظ جگہ پر منتقل ہوجائیں ان کا نام محمد رفیق العصری رکھا جائے۔ محترم قارئین کرام! میری سفارش اگر کوئی سنے تو میں برملا اس کا اظہار کروں کہ بہترین علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ خدمت سے نوازا جائے اور ایک درخواست ادارہ اکادمی ادبیات پاکستان سے بھی ہے کہ اے ستم گر ایک نظر ادھر بھی، صرف لاہور ، اسلام آباد میں ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں میں محمد رفیق العصری جیسے لوگ علم و ادب کی خدمت کسی صلے، تمنا و ستائش کی پرواہ کئے بغیر کررہے ہیں۔

تازہ ترین