28؍ جولائی 2017ء بروز جمعۃ المبارک ! سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا۔ (تاحیات نا اہل قرار دینے کے فیصلے میں’’ایک بار کی نا اہلی‘‘کا نکتہ تلاش کیا جانا شروع ہو گیا ہے)
شائع شدہ اطلاع کے مطابق ’’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے پانچ عزت مآب ججوں اور اس ملک کے 6ریاستی اداروں کے نمائندگان پر مشتمل جے آئی ٹی کے لئے ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں تواتر کے ساتھ ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے لگوا دیئے گئے!
منتخب وزیراعظم کی ’’تا حیات نا اہلی‘‘ کے حوالے سے ہم عصر کالم نگاروں میں سے کسی نے کوئی منفرد قسم کی یاد دلائی، کسی نے علامتی انداز میں کچھ کہنا چاہا، کسی نے حسرت تعمیر کی تکمیل کے لئے مدت کا سوال اٹھایا۔ مثلاً ’’پاکستان میں سیاستدانوں کا ’’بی‘‘ کیوں مارا جاتا ہے‘‘ کا عنوان جما کر بتایا گیا۔ ’’سیاسی قائدین پر دشنام طرازی کا نیک فریضہ شروع کرنے کا فیصلہ اس لمحے ہوا ہو گا جب قائداعظم نے مشرقی پاکستان کے دورے میں بریگیڈیئر ایوب خان کو روز افزوں سرحد اسمگلنگ پر ڈانٹ ڈپٹ کی تھی‘‘ قائداعظمؒ سے ایک گناہ سرزد ہو گیا کہ انہوں نے ایک فوجی بریگیڈیئر پر کرپشن کا الزام لگایا، بعد میں یہ الزام صرف اور صرف سیاستدانوں پر ہی لگتا رہا اور آج بھی ایک سیاستدان پر کرپشن کے الزام کا ہی مقدمہ چلا‘‘۔ ایک صاحب کا کہنا تھا ’’افسوس اس بات پر ہے کہ آج 37سال کی سیاسی زندگی کے بعد ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ تو آئین کے آرٹیکل 62پر پورا ہی نہیں اترتا۔ وہ تو صادق اور امین ہی نہیں ہے۔ وہ تو اس کا اہل ہی نہیں ہے کہ اس ملک میں حق حکمرانی حاصل کر سکے‘‘ تیسرے صاحب نظر نے ’’2027‘‘ کے لئے لکھی گئی تصوراتی تحریر کے ذریعہ اپنے قارئین کو مطلع کیا ہے ’’ایک ریاست میں ’’دیو‘‘ رہتا تھا۔ ہمارا ’’دیو‘‘ دنیا کی دوسری کہانیوں کی طرح ’’آدم بو‘‘، ’’آدم بو‘‘ نہیں کرتا، بلکہ وزیراعظم بو، وزیراعظم بو کرتا تھا۔ یہ منتخب حکومتیں بناتا، اکھاڑتا اور وزیراعظموں کو کھاتا تھا‘‘۔ حسرت تعمیر کے انتظار میں تڑپتے قلمکار نے فیض کی مشہور نظم کے چند مصرعوں کا تذکرہ کیا۔ ملاحظہ فرمایئے۔
’’ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
اور پھر سوال کیا ہے۔ ’’آخر کب دیکھیں گے، جس کا وعدہ تھا!
یہ سب لوگ غالباً پاکستان کا معاملہ زیر بحث لا رہے ہیں، یہ سب لوگ ہو نہ ہو ’’آئین کی بالا دستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی داغداری پر کسی باطنی کرب کا شکار ہیں، اس کے لئے انہوں نے ’’لٹا پٹا بیانیہ‘‘ اپنایا ہے۔ ہم ان کے اضطراب کا احترام کرتے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑتے ہوئے، ’’استعفیٰ، جاوید ہاشمی اور مقدر‘‘ کے عنوان سے بدھ، بتاریخ 15؍ جولائی 2017ء کو چھپے ’’چیلنج‘‘ کا اختتامی حصہ مکمل کرتے ہیں۔
15؍ جولائی 2017ء کے ’’چیلنج‘‘ میں عرض کیا گیا تھا۔ ’’یہ جو بعض قلمکار منتخب وزیراعظم کی جانب سے ’’آخری دم تک لڑوں گا‘‘کے عزم کو ان کی ذات کا تکبر، ذاتی ضد، ذاتی ہٹ دھرمی ثابت کرنے میں تاریخ عاجزی، فلسفہ عاجزی، نتیجہ عاجزی، مقصد عاجزی اور عظمت عاجزی کے میناروں کی تعمیر میں دن رات معماروں کی طرح مصروف ہیں، وہ زیادتی کر رہے ہیں۔ عاجزی کی عمارت پہلے ہی عوامی ووٹ کے انتخاب کی شکل میں موجود ہے یعنی نوا زشریف تو ایک فرد ہے لیکن پاکستانی عوام کے ووٹ نے 1973ء کے آئین کی روشنی میں اسے حق حکمرانی تفویض کیا ہے‘‘۔
ملتان، بدھ 12؍ جولائی 2017میں منعقدہ اس پریس کانفرنس کے ’’جاوید ہاشمی بیانیہ، کے چند مزید حصے پیش خدمت ہیں۔ برادر ہاشمی صاحب کا کہنا تھا۔ ’’ایک جج کا نام بھی پاناما پیپرز میں موجود ہے لیکن کوئی نہیں جو ان کے احتساب کا مطالبہ کرے، ان کی برطرفی کے لئے لاہور ہائیکورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں پٹیشنز بھی داخل کی گئی تھیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی‘‘
’’آئین کو کچلنے والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے؟ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ جب چاہو بادشاہ کو پیادوں سے مروا دو، جس جج کا نام پاناما میں ہے کوئی اس کا نام نہیں لے سکتا، جے آئی ٹی کیسے بنتی ہے کام کرتی ہے جسٹس عظمت سعید کو پتا ہے، نواز شریف کی کوئی حیثیت نہیں، جرنیلوں کی انگلی کے اشارے سے تو ملک ہل جاتا ہے، قربانی ہمیشہ سیاستدانوں کو دینی پڑتی ہے، احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ سازشیں عروج پر ہیں۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات ہمیشہ یکطرفہ ثابت ہوتی ہیں۔ دنیا میں ایسی کوئی عدالت نہیں جس کے حکم پر جے آئی ٹی بنی ہو لیکن ہم نے بنا کر دکھا دی۔ اس کی رپورٹ کس کام کی جب جج پہلے ہی حکمرانوں اور حکومت کو گاڈ فادر اور مافیا قرار دے چکے تھے۔ چند ریاستی اداروں اور بیورو کریسی نے ماضی میں ملک کو نقصان پہنچایا جبکہ سپریم کورٹ نے آمروں کو تحفظ فراہم کیا، جرنیل جوں ہی ریٹائر ہوتے ہیں، امریکہ چلے جاتے ہیں۔ ایک خفیہ ادارے کے تمام سربراہان ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔ ان کی بے شمار جائیدادیں ہیں، کوئی نیوزی لینڈ میں ہے تو کوئی آسٹریلیا اور دبئی میں ہے، کسی میں جرأت ہے ان سے پوچھ سکے؟ آج تک سپریم جوڈیشل کونسل سے کسی جج کو سزا نہیں ہوئی، اس کونسل کی حیثیت کیا ہے؟ یہ غلط قسم کے ججوں کو کیوں نہیں پکڑتی؟ میں جانتا ہوں کسی کی ورتھ کیا ہے؟ میں سب کی ورتھ جانتا ہوں، مجھ پر کوئی الزام کیوں نہیں لگاتے؟ عدالتیں مجھے کیوں طلب نہیں کرتیں‘‘۔ ’’مجھے ساری عمر جیل میں پڑے رہنا تو منظور ہے لیکن میں سچ بولنے سے باز نہیں آئوں گا، عدالتیں مجھے اس لئے نہیں بلاتیں کہ میں وہاں بھی سچی باتیں کروں گا۔ (شاید اسی لئے برادر نے اس پریس کانفرنس کے انعقاد کے چند روز بعد پھر میڈیا سے خطاب کیا اور کہا’’ ملٹری کورٹس بنا لیں اور مجھے بلوائیں‘‘نواز شریف، آصف زرداری اور بے نظیر دس سال جرنیلوں کی خوشامد کرتے رہے، اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا گیا، بے نظیر نے جرنیلوں کے کچن میں جا کر برتن دھوئے، ان کے لئے چائے اور کافی بنائی، یہ ہے ہمارے ملک کا حال، جرنیل دس سال پلاٹ اور مربعے لیتے رہتے ہیں، پھر آ کر کہتے ہیں سیاستدان کرپٹ ہیں، ملک کو لوٹ کر کھا گئے، اب ہم آ گئے ہیں، خود ملک کو چلائیں گے، یہ اس ملک کا مقدر ہے‘‘۔
برادر کے خیالات کی روشنی میں اب ’’تاحیات نااہل‘‘ منتخب وزیراعظم نواز شریف کے اپنی جماعت کے پارلیمانی پارٹی سے خطاب کا کچھ حصہ بھی پڑھتے چلیں، پھر نتیجہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف نے ’’نا اہل‘‘ ڈیکلیئر کئے جانے کے بعد پارلیمانی پارٹی سے اپنے پہلے خطاب میں کہا۔ ’’اگر مجھے سزائے موت سنا دی جاتی تو میں بھی سوچتا کہ سزا دے دی گئی، یہاں پہلے بھی وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔ وہ وقت بھی دیکھ چکا ہوں، جب کہتے تھے آپ کو سزائے موت ہو گی۔ اگر پیسہ مطمع نظر ہوتا تو مجھے 5ارب ڈالر کی پیشکش ہوئی تھی۔ امریکی صدر کلنٹن نے دھماکے نہ کرنے پر معاوضے کی پیشکش کی تھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں‘‘۔ کبھی مارشل لا لگتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پوری فوج اس میں ملوث ہے، چند لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں۔ ’’وزیراعظم ایسے ہی آتے جاتے رہے تو ملک نہیں چلے گا۔ کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے‘‘۔ اور ایک بڑا حادثہ ملک دو لخت ہونے کی صورت میں ہو چکا، یہ ٹریجڈی ہماری دھرتی پر ایک میت کے طور پر موجود رہے گی، فی الحال برادر جاوید ہاشمی نے پاکستان کی آئینی تاریخ میں طاقت کے عنصر کی من مانی کا قصہ دوہرا کر اپنا فرض ادا کیا اور ملک کے 27ویں (منتخب) وزیراعظم نے انتباہ کیا۔ کیا یہ آخری انتباہ ہے؟ اور کیا طاقتور آخری قہقہہ لگانے پر تلے ہوئے ہیں؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ نا اہلی کے فیصلے کی بازگشت ’’آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی جدوجہد کو ایک نئی زندگی دے جائے گی!