کوئٹہ کے سول اسپتال میں وکلا ء پر ہونے والے خودکش بم دھماکے کا ایک سال مکمل ہوگیا ۔دھماکے میں شہدا کی پہلی برسی آج منائی جارہی ہے۔
کوئٹہ کے سول اسپتال میں گزشتہ برس آٹھ اگست کو اس وقت خودکش بم دھماکہ ہوا تھا جب شہر کے علاقے اسپنی روڑ پر ٹارگٹ کلنگ میں شہید کئے گئے۔
بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے مقتول صدر بلال انور کاسی کی میت ضروری کارروائی کے لئے سول اسپتال لائی گئی تھی۔ساتھی وکلاء کی اسپتال میں جمع ہونے کے بعد دھماکا ہوا تھا۔ خودکش حملے میں56وکلا سمیت 73افراد جاں بحق جبکہ سو سے زائد زخمی ہو ئے تھے۔
سانحے نے بلوچستان کو56وکلا ءسے محروم کردیا ۔ ان میں30 سے زائد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں رجسٹرڈ اور سینئر وکلا ء بھی شامل تھے۔ بڑی تعداد میں وکلاء کی شہادت سے صوبے میں شعبہ وکالت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
سانحے کے بعدکوئٹہ میں اس وقت30 سینئر وکلاء سمیت کل وکلا ء کی تعداد تقریباً 800 ہے لیکن اچانک بڑی تعداد میں سینئروکلاء کی شہادت کے بعد سے شہید وکلاء کے سینکڑوں کیسز تاحال زیر التوا ہیں جبکہ سینئرز کے جانے کے بعد جونیئر وکلا کو کیسز کی پیروی میں مشکلات کا بھی سامنا ہے اور پھر یہ صرف ان قیمتی جانوں کا نقصان نہیں بلکہ ان ہزاروں مدعیوں کا بھی شدید نقصان ہے جن کے مقدمات کی پیروی میں مشکلات ہیں۔
سانحہ میں شہید وکلا ء صوبے میں شعبہ قانون کاعظیم سرمایہ تھے۔ انہی میں سے اکثر سینئر وکلا ء کےمستقبل میں اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے ججوں کے منصب پر فائز ہونے کے روشن امکانات بھی تھے۔
سانحے کو ایک سال گزر گیا لیکن اس خون آلود سانحے کے دئیے ہوئے شہدا کے لواحقین کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔آج بھی بوڑھے والدین اپنے جوان سال بیٹے اوربہنیں اپنے بھائی کو یاد کررہی ہیں۔سانحے میں ننھے بچےبھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شفقت پدری سے محروم ہوگئے ہیں۔
ادھر سانحے کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا تھا کمیشن نے صو بے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد،فرانزک لیب کے قیام اورکالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے سمیت متعدد سفارشات کی تھیں تاہم سانحہ کوئٹہ کے ایک سال گزر جانے کے باوجود ان سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
پولیس حکام کا یہ دعویٰ ہے کہ سانحہ سول اسپتال کے ماسٹر مائنڈ سمیت پانچ دہشت گردوں کورواں سال بلوچستان کے ضلع پشین میں پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تاہم واقعہ میں ملوث دو سہولت کاروں کی گرفتاری کیلئے پولیس سرگرداں ہے ۔
سانحے پیش آتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ دیگر لوگ تو بھول جاتے ہیں مگر ان سانحوں سے متاثر ہونے والے انہیں کبھی نہیں بھلاسکتے۔جیسے سانحہ سول اسپتال میں خودکش حملے میں شہید وکلاء کے لواحقین کی حالت ہے۔ادھروکلاءرہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ اب ان کے شہیدساتھی تو واپس نہیں آسکتے لیکن مزید گھر اجڑنے سے پہلے،بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہونے سے پہلے اور بوڈھے والدین کا واحد سہارا ان سے چھین جانے سے پہلے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل انکوائری کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد ضروری ہے۔