پاکستان کی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے اور اقتدار کی کشمکش زوروں پر ہے۔ کچھ لوگ اس میں ٹہراؤ لانے کی کوشش کررہے ہیں تو کچھ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں کے اندر کا میل اور اُنکے ارادے ظاہر ہورہے ہیں۔ بات جا کر ٹہرتی ہے تیری جوانی تک، موجودہ حکومت کے سیٹ اپ نے اچھی سیاست کی۔ایک چہرہ نرم خو رکھا اور دوسرا اپنے کام کرتا رہا اور یوں اس تکنیک سے وقت حاصل کیا، اب پتّے کھل رہے ہیں اور راز عیاں ہورہے ہیں، کرپشن زوروں پر ہے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ عوام ہے کہ پسی جارہی ہے، تصادم ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ سب اسلئے ہورہا ہے کہ پاکستانی طاقت کا ایک حصہ ایک طرف سرگرم عمل اور سیاسی میدان میں تقریباً مفلوج ہوگیا ہے یا پھر خود سے دور رہنا چاہتا ہے یا حالات اور اُن کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ان کو سیاسی معاملات کی طرف توجہ دینے کا وقت نہیں دے رہی ہیں مگر سیاست تو سیل رواں کی طرح ہے وہ کب رکتا ہے؟ چلتا اور بڑھتا ہی رہتا ہے۔ سیاستداں اپنا کھیل کھیلنے اور حکمراں اپنا سکہ جمانے اور اپنی کرسی مضبوط کرنے میں لگا رہتا ہے کیونکہ یہ کرسی ہمیشہ کمزور ہوتی رہتی ہے۔ اس کو وہ نت نئے طریقوں، کیلوں، آریوں اور اضافی سامان سے مضبوط کرنے کی سعی میں لگا رہتا ہے۔
سیاست کے کھیل میں اقتدار کی کرسی کو خطرہ اپوزیشن سے رہتا ہے۔ اس حکومت کا طرئہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنے مخالف میاں محمد نواز شریف کو ایک طرف تو جمہوری آدرش کے چکر میں پھنسا رکھا تو دوسری طرف پنجاب میں حکومت دے کر اس کو اقتدار کے سانجھی بنا لیا ہے، اوپر سے گورنر ایسا رکھا جس نے ن لیگ کے اقتدار کو کانٹوں کی سیج بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے۔ دوسری طرف خودامریکہ کی حمایت حاصل کرنے میں اس کی بگھی کے گھوڑے بن گئے اور اسے یقین دلاتے رہے کہ امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں وہ کوئی دقیقہ فروگزشت نہیں کریں گے چاہے کوئی عمل قومی مفاد میں ہی کیوں نہ ہو۔ تیسری طرف اس نے پاکستانی فوج کو سوات، فاٹا، جنوبی وزیرستان میں پھنسائے رکھا اور شمالی وزیرستان کے دلدل میں دھنسانے کی تیاری ہے۔ اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی جو نومبر 2010ء میں ریٹائر ہونے والے ہیں کو موقر روزنامہ ”دی نیوز“ کی خبر کے مطابق دو سال کی توسیع کی آفر دی گئی ہے۔ اگرچہ اس کی تردید کردی گئی ہے مگر اس افسانے میں کچھ نہ کچھ تو حقیقت ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ مصطفی خاں جو اکتوبر 2010ء میں ریٹائر ہوں گے کو بھی دو سال کی اضافی مدت کے ساتھ اپنے عہدہ پر برقرار رکھنے یا چیف آف دی آرمی اسٹاف بنانے یا چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت جنرل پرویز کیانی کی موجودگی سے راحت محسوس نہیں کررہی ہے تو جنرل مصطفی خاں تو ان سے پہلے ریٹائر ہونے جارہے ہیں اس لئے یہ تجویز آئی کہ اس طرح کوراپ ہو۔ ہم دونوں جنرلوں سے نہیں ملے اور نہ ہی ان کے کارناموں سے واقف ہیں اگرچہ جنرل کیانی کی کارکردگی دو حوالوں سے دیکھنے کو ملی ایک تو جمہوریت کی مضبوطی اور دوسرے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُن کا کردار جو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ اخبارات اُن کی مدتِ ملازمت میں توسیع ایک رشوت کے طور پر پیش کررہے ہیں تاکہ وہ موجودہ حکومت کی راہ اور ان کی اضافی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ چونکہ امریکی جنرل میک کرسٹل اور جنرل پیٹریاس کے ساتھ جنرل اشفاق کیانی کے درمیان اچھے ورکنگ ریلیشن قائم ہیں اور جنرل پیٹریاس کی ملازمت میں توسیع کی جاچکی ہے اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ جنرل کیانی کو بھی اس وقت اس عہدہ پر قائم رکھا جائے تاکہ مل جل کر وہ دہشت گردی کا قلع قمع کردیں۔
سوال یہ ہے کہ فروری کے مہینے میں یہ بحث کیوں چھیڑی گئی کیا جنرل کیانی کو کمزور کرنا مقصود ہے کہ نگاہیں کہیں اور نشانہ کہیں کے مصداق اُنکے کمانڈ اسٹرکچر کو ڈھیلا کیا جائے۔ ویسے دیکھا جائے تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد دس اور جنرل حضرات کے نمبر ہیں اور شاید جنرل مصطفی خاں سینیارٹی کے حساب سے گیارہویں نمبر پر آتے ہیں اسلئے اُن کی مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر کچھ معنی ضرور رکھتا ہے اور ایسی صورت میں جبکہ موجودہ حکومت معینہ مدت کے ملازمین کی طرف سے سازش کی بات بھی کرچکی ہو۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد سینیارٹی کی لسٹ میں لیفٹیننٹ جنرل خالد شمیم وائن آتے ہیں جو کوئٹہ میں کورکمانڈر ہیں، ان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل خالد ضیاء ہیں جو جی ایچ کیو میں اے جی کے عہدہ پر تعینات ہیں اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل شجاعت ضمیر ڈار ہیں جو آرڈیننس فیکٹری کے کمانڈنٹ ہیں۔ چوتھے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل محسن کمال ہیں جو اس وقت ملٹری سیکریٹری کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں، انہوں نے دس کور کی کمانڈ بھی کی ہے پھر لیفٹیننٹ جنرل جمیل حیدر کا نمبر آتا ہے جو ڈی جی آرمز اور ایمونیشن ہیں، چھٹے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج ہیں جو گجرانوالہ میں کورکمانڈر کے طور پر تعینات ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل طاہر محمود ہیں جو جی ایچ کیو میں کمانڈر ہیں، آٹھویں نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل شاہد اقبال ہیں جو کراچی کے کور کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل زاہد حسین ہیں جو کوارٹر ماسٹر جنرل کے پوزیشن پر تعینات ہیں۔ ان کے بعد جنرل احسان پاشا ہیں جو ڈی جی آئی ایس آئی ہیں۔ ان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل مصطفی خاں کا نمبر آتا ہے جو سی جی ایس کے طور پر ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے وہ زیادہ نگاہوں میں آگئے ہیں۔ جنرل مصطفی خاں 2 اکتوبر 2010ء کو ریٹائر ہونیوالے ہیں تو کیانی صاحب نومبر 2010ء میں۔ افسران کیلئے مدت ملازمت میں توسیع کی آفر ایک زبردست لبھاؤ کا کام سرانجام دیتا ہے، اُن کی خواہش شدید ہوتی ہے کہ انکی توسیع ہوجائے مگر ایسا کرنے سے فوج میں ترقیوں کا راستہ رک جاتا ہے اور توسیع زدہ جنرل زیادہ پُراعتماد ہو کر کام کرتا ہے۔ ویسے اگر لیفٹیننٹ جنرل مصطفی خاں اکتوبر اور جنرل کیانی سے پہلے ریٹائرڈ ہوگئے تو وہ چیف آف دی آرمی اسٹاف نہیں بن سکیں گے یا چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ان کے نصیب میں نہیں آسکے گا اگرچہ سینیارٹی کے لحاظ سے خالد شمیم وائن کو آئندہ چیف بننے کا موقع ملنا چاہئے اگر اشفاق پرویز کیانی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ کہتے ہیں کہ اسکے امکانات بھی ہیں مگر پھر فوج میں ترقی دینے کے موقع پر کئی طرح سے پرکھا جاتا ہے کہ کسی نے کمانڈ کی ہے یا نہیں یا کسی نے دفتری کام کیا ہے یا نہیں مگر سی جی ایس کے عہدے پر فائز ہونیوالے کو اکثر نائب چیف مانا جاتا ہے کیونکہ وہ چیف آف دی آرمی اسٹاف کے بعد سب سے اہم ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بدلتا آسمان اور بدلتی سیاست کیا انداز اختیار کرتی ہے۔