28جولائی کو سپریم کو رٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے بعض دیگر افراد کو ’’نااہل‘‘ قرار دے دیا جس کے بعد میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ تحلیل ہو گئی۔ شاہد خاقان عباسی ملک کے ستائیسویں وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ ان کی حکومت اور ذات الزامات سے کس قدر بری الذمہ رہیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں جس مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے وہ ’’مالی کرپشن‘‘ کے حوالے سے اب تک کا سب سے بڑا مقدمہ ہے جبکہ مالی کرپشن کے دیگر کئی مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت اور زیر التواہیں لہٰذا مذکورہ فیصلے کے بعد قوم کو بجا طور پر یہ اُمید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ’’کرپشن سے پاک پاکستان‘‘ کیلئے پیش قدمی شروع کر دی گئی ہے تاہم کرپشن میں دھر لئے جانے والے شرفاء نے ابھی سوگ اور ان کے مخالفین نے جشن منانا شروع کیا ہی تھا کہ یہ خوشی اُس وقت مدھم پڑ گئی جب تحریک انصاف ہی کی ایک ایم این اے عائشہ گلالئی نے اپنے ہی چیئرمین عمران خان پر الزام لگا دیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ گلالئی کیس جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قانون کے تحت حل کیا جانا چاہئے۔ مختلف چینلز، سیاسی اور دینی جماعتیں ’’عمران گلالئی اسیکنڈل‘‘ پر تبصروں میں مصروف ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے مالی کرپشن کے مقدمات پرسے توجہ ہٹانے کیلئے اس اسکینڈل کو چرچا کی جارہا ہے بلکہ خبر تو اب یہاں تک ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ عائشہ گلالئی کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کی تفصیلات اقوام متحدہ کو ارسال کر رہی ہے یعنی پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اسکینڈلز کو اسکینڈلز کے ذریعے تحلیل کرنے کی منصوبہ بندی کون کر رہا ہے بہرحال جو بھی کر رہا ہے بہت خوب کر رہا ہے اور کمال کر رہا ہے۔’’مالی کرپشن‘‘ کے اسکینڈلز کا چھپانا یا یہ کہ آسانی سے ان سے جان چھڑا جانا اب ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ کرپشن مقدمات پر اعلیٰ عدلیہ کی بھرپور توجہ اس بات کی ضمانت ہے کہ مالی کرپشن میں ملوث کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی طاقتور اور بڑے تعارف کا حامل کیوں نہ ہو اُسے ہر حال میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہو گا تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جو الزامات عمران خان پر لگ رہے ہیں ان کا سدباب یا سامنا کس طرح سے کیا جائے کیونکہ اگر اس باب میں مزیدپیش رفت کی گئی معاشرے پر برے اثرات پڑیں گے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ اس طرح کے جو بھی اسکینڈلز ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے اس کے لئے عائشہ گلالئی صاحبہ کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ اب یہ مسئلہ محض عمران خان کی معافی مانگ لینے سے حل نہیں ہو گا کیونکہ آپ نے پریس کانفرنس کے ذریعے انکشاف کرکے قوم اور میڈیا کاجو وقت اور توجہ حاصل کی ہے اس کا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا اور آنا چاہئے۔ہمارے نزدیک مذکورہ اسکینڈل کا فیصلہ ’’پارلیمانی کمیٹی‘‘ کے ذریعے کرنا مناسب نہیں بلکہ اس کیلئے دیگر طریقے یا آپشن موجود ہیں۔ اوّل یہ کہ اس اسکینڈل کا متاثرہ فریق معاملے کو عدالت میں لے جائے۔ دوم آپشن یہ ہے کہ اس اسکینڈل کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق حل کرنے کیلئے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ سے مشورہ اور رہنمائی لی جائے۔ بہتر ہو گا کہ مالی کرپشن کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے اسکینڈلز کو روکنے کیلئے بھی ضروری، فوری اور سخت اقدامات اٹھائے جائیں اور یہ کریڈٹ بھی ’’تحریک انصاف‘‘ ہی کو ملنا چاہئے کہ ’’مالی کرپشن‘‘ کے خلاف بھی اس نے مقدمہ جیتا اور اب اس طرح کے اسکینڈلز خلاف بھی اُس کا مقدمہ ایک مثال بن جائے۔ اگر اس طرح کے واقعات سے بچنا مقصود ہے تو ضروری ہے کہ اس کے تدارک کے لئے موثرقانونی اقدامات کئے جائیں لیکن ضروری ہے کہ احتیاط کی جائے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح تصدیق کرلی جائے اور سزا اس ہی کو دی جائے جس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے تاکہ اس طرح کے اسکینڈلز سے مستقبل میں چھٹکارا حاصل ہوسکے۔