• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کی 70ویں سالگرہ پر بھارتی وزیراعظم جناب نریندرمودی نے نئی دہلی کے تاریخی لال قلعے پر اپنی تقریر میں کشمیر کے بارے میں مختصر مگر اہم بات کی. انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو گولیوں یا جبر سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل کیا جاسکتا ہے- میرے خیال میں یہ بیان تین وجوہات کی وجہ سےاہم ہے- ایک: بھارتی وزیر اعظم نے بالاخر یہ اعتراف کرلیا کہ کشمیریوں کو بھارتی ریاست کے بے پناہ ظلم اور جبر کا سامنا ہے. دوسرا: انہیں یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ ظلم وجبر سے لوگوں کو ہر وقت دباتے رہنا اب ممکن نہیں ہے اور تیسرا: اندھا دھند ریاستی ظلم اور جبر کے باوجود بھارتی حکومت مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیراعظم مودی کا یہ پیغام انکی حکومت کی پہلے سے وضح کردہ پالیسی سے مکمل انحراف ہے جسکے بموجب وہ کشمیر کی سیاسی جدوجہد کو دہشت گردی اور پاکستان سے جوڈ کر اسکو ہر طرح سے بدنام کرنے کی کوششیں کرتے رہے اور کشمیریوں کے جائز مطالبات کو ظلم سے کچلتے رہے. اس ضمن میں بھارتی میڈیا کا رول بھی شرمناک رہا ہے جس نے کشمیریوں کے خلاف نفرت اور کشیدگی کو فروغ دیاجسکے نتیجے میں ملکی سطح پر بھارتی قتل و غارتگری اور تباہی کی پالیسی پر کسی قسم کا کوئی منفی عوامی رد عمل سامنے نہیں آ سکا۔ اس سے کشمیریوں کی بڑی تعداد کے ذہنوں میں یہ خیال مستحکم ہو گیا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت نسل کشی کی کلیدی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
نریندر مودی کے حوصلہ افزاء الفاظ سے یہ موہوم سی امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس سے تناؤ بھرے ماحول میں کچھ کمی واقع ہو لیکن ایسا نہیں ہوا !بھارتی آزادی کی سالگرہ کے دن کشمیریوں کو معمول سے زیادہ فوجیوں سے واسطہ پڑا کیونکہ حکام نے ممکنہ عوامی مظاہروں کو روکنے کیلئےپوری وادی کو فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا تھا۔ 15اگست کی دوپہر کو میں اپنے آبائی شہر کی سڑکوں پرعوامی موڈ کا اندازہ لگانے کیلئےایک مختصر گشت پر نکلا تو چہار جانب فقط فوج اور بکتر بند گاڑیاں تھیں اور کرفیو کا سا سماں تھا- پرانے شہر میں زندگی کی کچھ علامات نظر تو آئیں لیکن ہندوستانی وزیر اعظم کی باتوں کو کسی نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
اگرچہ آزادی کشمیر کے ممتاز رہنما میرواعظ عمر فاروق نے مودی کے بیان پر محتاط رد عمل کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’’جبر اور گولیاں کو انسانیت اور انصاف سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ‘‘مگر عمومی طور پر وزیر اعظم کی باتوں کو کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔ماضی میں بھی بھارتی وزراے اعظم پی وی نرسمہاراؤ اور اٹل بہاری واجپائی نےکشمیریوں کو مشغول کرنے کی حد تک انسانیت کے دائروں اور آسمان کی بلندیوں کی باتیں کی مگر وہ مکر و فن خواجگی کی سوا کچھ بھی نہ تھا۔کشمیر کے ایک اہم مصنف شیخ شوکت حسین نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم مودی کے بیان کو لا یعنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بیانات سے کشمیر کے زمینی حالات پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ الٹا کشمیریوں کو مزید ظلم اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے .حسین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ’’مودی نے یہ نرم بیان صرف ذرائع ابلاغ کیلئےاور اپنے پچھلے گناہوں کو دھونے کیلئے دیا ہے‘‘۔ کشمیر کے معروف انسانی حقوق کے علمبردار پرویز امروز نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ کشمیریوں کے خلاف جبر کی ’’اسرائیلی حکمت عملی‘‘ پر کاربند ہے۔وزیر اعظم مودی کے الفاظ بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں کو بھی متاثر نہیں کرسکے. جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ایک ممتاز رکن جناب انجینئر رشید نے مودی کے بیانات کو کھوکھلا قرار دیا. انہوں نے الزام لگایا کہ بھارتی وزیراعظم کشمیریوں کے درمیان الجھن پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دعویٰ کیا کہ مودی کے پاس کشمیریوں کو پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رشید نے اصرار کیا کہ کشمیری حق خود ارادی سے کم کوئی چیز تسلیم نہیں کرسکتے جسکے حصول کیلئے انہوں نے بےپناہ قربانیاں پیش کی ہیں۔
پس نوشت
وزیراعظم مودی کے حوصلہ افزا بیان کے ایک دن بعد دہشتگردی کےخاتمے کیلئے بھارتی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے آزادی پسند کشمیری رہنماؤں اور انکے خاندانوں کو نشانہ بنانے کیلئے دوبارہ چھاپے مارنا شروع کردیئے۔ این آئی اے نے گزشتہ مہینے کے دوران مختلف حریت رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر غیر قانونی اثاثوں یا غیر ملکی فنڈز کی تحقیقات کی آڑ میں درجنوں چھاپے مارے اور کئی گرفتاریاں عمل میں لائیں. اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں آزادی کشمیر کے رہنماؤں کے ذاتی مالی معاملات حیرت انگیز طور پر حد درجہ بہتر ہوئے مگر این آئی اے کی موجودہ مہم سیاسی انتقام گیری کے سوا کچھ بھی نہیں جسکا مقصد کشمیری قیادت کو جاری تحریک آزادی کی حمایت سے روکنا ہے. مزیدبرآں یہ کہ ان رہنماؤں کو ایک دہشتگردی مخالف ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کا نشانہ بنایا جانا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں سمجھتی. یہ سوچ بذات خود وزیر اعظم مودی کے تازہ ترین بیان کی واضح انداز میں نفی کرتی ہے۔
ضمیمہ
مودی حکومت نے تریپورہ صوبے کے وزیراعلی جناب مانیک سرکار کی یوم آزادی کی تقریرسرکاری ذرائع ابلاغ پرنشرکرنے پر پابندی لگا کر غیرجمہوری روایت کی ایک نئی تاریخ رقم کی .جناب سرکار جو صوبے کی لیفٹ فرنٹ حکومت کے سربراہ ہیں، نے اپنی تقریر میں بھارت کے کثیرالجہتی روایتی ورثہ اور سیکولر اقدار کی بات کر نے کے ساتھ ساتھ موجودہ خطرات کی نشاندہی کی تھی جسکے ذریعے ملک میں نفرت اور تقسیم کی فضا پیدا کی جارہی ہے. چونکہ یہ حکمران جماعت بی جے پی کی منافرت کی پالیسی پر ایک راست حملہ تھا اسلئے تقریر نشر ہونے سے روک دی گئی۔
ایک صوبے کے سربراہ کی تقریر کا صرف اس بنیاد پر روک دیا جانا کہ وہ سیکولر اور کثیرالثقافتی ورثے کی نشاندہی کر رہی تھی سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ مودی سرکار کے بارے میں کسی بھی خوش فہمی کا شکار ہونا خالی از علّت نہیں. کشمیر تو بہت دور کی بات ہے جہاں دودھ پیتے بچوں کو بھی دشمن اور پاکستانی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے ۔

تازہ ترین