صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے پر ہزارہ ڈویژن کے عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا اور اس طرح الگ صوبے کا مطالبہ سامنے آیا۔ جہاں اس وقت احتجاجی تحریک جاری ہے۔ جنوبی پنجاب سے سرائیکی صوبہ کی آواز ایک مدت سے ابھرتی ڈوبتی رہی ہے ، میرے دوست تاج محمد لنگا بار ایٹ لا نے تو سرائیکی پارٹی بھی بنا رکھی ہے اب مسلم لیگ (ق) نے اس کی نہ صرف حمایت بلکہ چوہدری پرویز الٰہی نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ بہاولپور صوبہ کا مطالبہ الگ صوبہ نہیں بلکہ صوبہ کی بحالی کا مطالبہ ہے۔ چند ماہ قبل اس حوالے سے علاقہ کے عوام نے ایک بار پھر آواز اٹھائی ہے اور تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے نام سے باقاعدہ ایک کور کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں تمام جماعتوں کے نمائندے اور بہاولپور سے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان شامل ہیں۔ پیر کو لاہور میں اس تحریک کے ایک اجلاس میں مخدوم احمد محمود کو کور کمیٹی کا چیئرمین، ڈاکٹر وسیم اختر کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ احمد محمود مسلم لیگ (ف) پنجاب کے صدر اور پنجاب اسمبلی میں فنکشنل لیگ کے پارلیمانی لیڈر جبکہ ڈاکٹر وسیم اختر جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ہیں۔ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مخدوم احمد محمود اور کور کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے عوام کی جانب سے شدید ردعمل نے انہیں صوبہ کی بحالی کا مطالبہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ”یہ بہاولپور کے عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے“۔ ہم خیال مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ہمایوں اختر نے تحریک کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ مخدوم احمد محمود نے جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ کی تحریک کی بھی حمایت کی اور کہا کہ ملتان ڈویژن کو بھی صوبہ بنا دیا جائے۔ ان سب کا یہی دعویٰ ہے کہ انتظامی طور پر اور صوبے قائم ہونے سے فیڈریشن مضبوط ہو گی۔
بہاولپور صوبہ کا مقدمہ الگ صوبہ کا مطالبہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے اور درست بھی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ریاست بہاولپور کے نواب اور حضرت قائد اعظم کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ ریاست کی حیثیت برقرار رکھی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نواب بہاولپور نے ریاست میں باقاعدہ عام انتخابات کروائے اور جمہوری حکومت قائم کی۔ قیام پاکستان کے وقت نواب مشتاق احمد گورمانی اس صوبہ کے وزیر اعظم تھے۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے بھارت سے ریاست کے الحاق کے حوالے سے بھارتی وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کو ایک خط لکھا تھا۔ نواب صاحب مرحوم صوبہ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ اس وقت مرحوم زیڈ اے سلیری نے اپنے اخبار میں یہ خط شائع کیا جو انہیں ایک سیاسی کارکن حکیم سیف علی نے مہیا کیا تھا۔ نواب گورمانی نے اس کی تردید کی اور گورنری سے ہٹنے کے بعد زیڈ اے سلیری کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس کیس نے بڑی شہرت حاصل کی اور نواب گورمانی اس میں باعزت بری ہوئے کہ خط پر ان کے دستخط جعلی تھے۔ نواب مشتاق احمد گورمانی مرکز میں وزیر بن گئے تو 1950ء میں مخدوم احمد محمود کے والد گرامی مخدوم زادہ سید حسن محمود ریاست بہاولپور کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وہ ملک کی تاریخ میں سب سے کم عمر صوبے کے سربراہ تھے۔ جب 1955ء میں صوبہ مغربی پاکستان بنایا گیا تو بہاولپور اس میں ایک صوبہ کی حیثیت سے شامل ہوا۔ چار صوبوں سرحد، سندھ، پنجاب اور بہاولپور کے وزرائے اعلیٰ نے اس پر دستخط کئے۔ اس وقت بلوچستان سنٹرل کنٹرولڈ علاقہ تھا جبکہ 9 ریاستیں اس میں مدغم ہو گئیں۔ ایوب حکومت کے خاتمہ کے بعد جب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان برسر اقتدار آیا تو اس نے ایل ایف او کے تحت صوبہ مغربی پاکستان توڑ دیا۔ اس طرح صوبے بحال ہو گئے اور 23 سال بعد بلوچستان کو صوبہ کا درجہ دے دیا گیا لیکن بہاولپور صوبہ بحال نہیں کیا گیا۔ اس وقت بہاولپور محاذ کے پلیٹ فارم سے بھرپور تحریک چلائی گئی۔ ریاست کے ایک سیاسی رہنما نظام الدین حیدر کی صاحبزادی طاہرہ حق کو”لیلائے بہاولپور“ کا خطاب دیا گیا۔ ان دنوں آزادی فلسطین کے حوالے سے لیلا خالد کو بڑی شہرت ملی تھی۔ عام انتخابات میں صوبہ محاذ کے قومی و صوبائی اسمبلی کے کم و بیش تمام امیدوار جیت گئے۔ تحریک اتنی موثر تھی کہ بہاولپور کی اہم سیاسی شخصیت مخدوم زادہ سید حسن محمود ایک نوجوان مخدوم نور محمد ہاشمی سے ہار گئے۔ قریب تھا کہ صوبہ بہاولپور بحال ہو جاتا لیکن ملک ایک اندوہناک سانحہ سے دوچار ہو گیا اور جسد چمن کا ایک بازو جبراً کاٹ دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نواب بہاولپور کو پنجاب کا گورنر بنا کر اس تحریک کا زور توڑ دیا۔ بہاولپور کے عوام کو یقین تھا کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ ان کی یہ شکایت ہر صورت درست ہے اور کتنے ظلم کی بات ہے کہ صوبہ ہی نہیں ملک بھر میں انتظامی طور پر بہت سے نئے اضلاع اور تحصیلیں بنائی گئی ہیں لیکن1947ء میں ریاست بہاولپور میں رحیم یار خان، بہاولپور اور بہاولنگر کے تین اضلاع تھے اور 62 سال گزرنے کے باوجود ان کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جبکہ آبادی دس لاکھ سے بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ عوام کو ان کے حقوق نہیں ملے، بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا، یہ درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کے وہ منتخب نمائندے، وہ لیڈر جو ماضی میں وزیر مشیر رہے انہوں نے ان علاقوں کی تعمیر و ترقی، عوام کے مصائب کے سدباب کے لئے اقدام کیوں نہیں کئے؟ ماضی کے یہ ”عوامی لیڈر“ بھی عوام کے مجرم ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان کی بات کوئی نہیں سنتا تھا تو ان کی جانب سے احتجاج کیوں نہیں کیاگیا؟ تحریک بحالی ٴ صوبہ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بہاولپور صوبہ کی بحالی کے لئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر سے صوبہ بحال کیا جا سکتا ہے تاہم اتمام حجت کے طور پر یہ ریفرنڈم کرانے کے لئے تیار ہیں۔
جمہوری اور سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ نئے صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ نہ ہی کوئی نیا مطالبہ ہے۔ ماضی میں متعدد بار ملک میں انتظامی سطح پر یونٹ بنانے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ ایک بلوچ لیڈر میر باقی بلوچ نے تو اس حوالے سے باقاعدہ ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں ملک میں 12 صوبے قائم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اس بارے میں ”ہوم ورک“ مکمل کر لیا تھا اور 1988ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں یہ تجویز پیش کی جانی تھی۔ یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے بہتر ہو گا اس میں سیاست کو ملوث نہ کیا جائے بلکہ عوام کی سہولت اور ان کی مرضی کے مطابق اسے حل کیا جائے۔ تاہم موجودہ حالات میں چاروں طرف نظر دوڑا کر یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کوئی ایسا تو نہیں ہے جو اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی سازش کر رہا ہو۔ مخدوم احمد محمود اور ان کے ساتھیوں کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ ان کی کور کمیٹی قانونی اور آئینی طور پر اپنے حق کے لئے جدوجہد کرے گی اور منتخب ایوانوں میں آواز اٹھائی جائے گی وہ بڑے پرامید ہیں کہ صوبہ بہاولپور جلد بحال ہو گا!!