انہیں دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے غصہ بھی چڑھتا ہے۔ چھتر، لتر، ٹھڈے اور گالیاں کھا کر بھی یہ کامیڈین اور جوکر کچھ نہیں سیکھتے۔ کل تک جوتیاں چٹخانے والے جب اپنے لئے روٹ لگواتے اور سکیورٹی کے نام پر غیرضروری پروٹوکول لیتے ہیں تو انہیں نہ گزرا ہوا کل یاد ہوتا ہے نہ آنے والے کل پر ان کی نظر ہوتی ہے کہ جانے کب پھر ”ایکشن ری پلے “ ہو جائے۔
بڑی اناؤں اور چھوٹے دماغوں والے یہ لوگ اپنے غیرملکی آقاؤں، محسنوں اور سپانسرز کے تلوے بلکہ ان کے جوتوں کے تلوے چاٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے مقامی سرپرستوں کے گھروں اور دفتروں کے باہر بھی ان کی حیثیت ”ڈور میٹس“ سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن عوام کے لئے یہ ”ظل سبحانی“… ”عالم پناہ“ اور ”مغل اعظم“ بنے پھرتے ہوتے ہیں۔
عوام کے رستے روک کرجب کئی کئی کاروں اور جیپوں پر مشتمل ان ”سنجیدہ مسخروں“ کے برق رفتارقافلے ہوٹر بجاتے ہوئے گزرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جمہوری رنگ باز اور سیاسی بھانڈ کشمیر فتح کرنے جارہے ہیں یا کشمیر فتح کرکے واپس آ رہے ہیں حالانکہ یہ ستیاناس کا سوا ستیاناس کرنے جارہے ہوتے ہیں یا کرکے واپس آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ مہنگائی بڑھانے جارہے ہوتے ہیں یا ایسا کرکے آ رہے ہوتے ہیں، یہ دیہاڑی لگانے جا رہے ہوتے ہیں یا دیہاڑی لگا کر واپس آ رہے ہوتے ہیں، یہ لاء اینڈ آرڈر کا بیڑہ غرق کرنے جارہے ہوتے ہیں یاکرکے واپس آ رہے ہوتے ہیں کیونکہ جنہوں نے اپنی جان کے لئے سینکڑوں سرکاری اہلکاروں کو انگیج کر رکھا ہو وہ عوام کو امن و امان اور تحفظ دے ہی نہیں سکتے… یہ کوئی نیا ڈ رامہ کرنے جارہے ہوتے ہیں یا کرکے واپس آ رہے ہوتے ہیں۔
ذرا اندازہ لگاؤ ان دروغ گوؤں کے ننگے ترین جھوٹ کا… یہ کس منہ سے قبضہ گروپوں کی بات کرتے ہیں کہ یہ تو خود سب سے بڑے قبضہ گروپ ہوتے ہیں جنہوں نے سرعام دن دہاڑے اپنے گھروں او ر دفتروں کے باہر سرکاری سڑکوں اور رستوں پر قبضہ کر رکھا ہوتا ہے۔ اس ملک سے تجاوزات کا منحوس کلچر ختم ہو ہی نہیں سکتا کہ اس ملک کا ہر مقتدر آدمی خود بدترین انکروچمنٹ کامرتکب ہوتا ہے۔ مہذب دنیا کے حکمران اپنے عوام کے رستے آسان، صاف اور بے رکاوٹ کرتے ہیں جبکہ خود کو ”قائدین“ پوز کرنے والے یہ جعل ساز اپنے عوام کے رستے مشکل اورلمبے کرکے انہیں قدم قدم پر رکاوٹوں کے تحفے پیش کرتے ہیں اور یہ سب نوٹنکی ”سکیورٹی“ کے نام پر ہوتی ہے جبکہ یہ بھی ایک بہت بڑا جھوٹ ہے کیونکہ جب تک مظلوم پاکستانیوں کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کا تحفہ نہیں ملا تھا… یہ سیاسی تحفے اس وقت بھی یہی کچھ کرتے تھے۔ یہ احساس کمتری کے مریض اور بیمار لوگ ہیں۔ لوگو! یہ مسائل کا حل نہیں بلکہ خود مسئلہ اور مسائل کی جڑ ہیں جو پروٹوکول کے نام پر عوام کو فحش گالی دیتے ہیں، ان کی خدمت کے نام پر ان کی توہین، تذلیل اور ذلت کا باعث بنتے ہیں اور یہ سارا غلیظ کاروبار صرف اسی لئے ہے کہ عوام اس بے عزتی کے عادی بنادیئے گئے ہیں۔ یہ کہنے کی حد تک تو عوام کو غیور اور باشعور کہتے ہیں لیکن عمل سے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ان میں نہ غیرت ہے نہ شعور۔
اقتصادی ریلیف تو بہت بعد اور دور کی بات ہے… عوام پہلے عزت ِ نفس میں توریلیف حاصل کرلیں جس میں نہ امریکہ رکاوٹ ہے نہ آئی ایم ایف نہ یہود نے روکا ہے نہ ہنود کوئی سازش کر رہے ہیں۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں، اس اتنی بڑی سول سوسائٹی میں کیا اٹھارہ سو خواتین وحضرات بھی ایسے نہیں جو ان کے نمرودی قافلوں، فرعونی ہوٹروں اور شدادی رکاوٹوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں اور بیک آواز کہیں… ”بدمعاشی بند تم نوکر ہو اپنی اوقات میں رہو اور یہ ڈرامے بند کرو“ (میں رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرتا ہوں)
بات بات پر خلفائے راشدین کے حوالے دینے، قدم قدم پر آبدیدہ ہونے کی اداکاری کرنے، انقلابی شعر پڑھنے اور بابائے قوم کو ”آئیڈیل“ قرار دینے والے یہ تمام بہروپئے اس وقت تک عوام کی سرعام توہین، تذلیل اور بے عزتی کا شغل جاری رکھیں گے… جب تک اٹھارہ کروڑ میں سے صرف اٹھارہ سو غیور اورباشعور شہری آگے نہیں آتے۔
ہے کوئی سیاسی جماعت (عمران خان سمیت) یا کوئی این جی او (عاصمہ جیلانی سمیت) یا کوئی اورفورم جو صرف 1800افراد کو اس مقدس مشن کے لئے منظم کرنے کے بعد حکمرانوں کو باقاعدہ وارننگ دے سکے کہ باز آجاؤ ورنہ… تمہارے چیتھڑے اڑا دیں گے!