پاکستان ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔جس میں مختلف رنگوں کے پھول مخصوص کلچر کی علامت ہیں۔مختلف ہونا برائی نہیں بلکہ خوبصورتی کا مظہر ہے۔ لیکن یہ بات صرف وہ ہی سمجھ سکتے جو زمین کی دھڑکنیں سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں،جوموسموں،پرندوں اور درختوں سے مکالمہ کرنے کا گُر جانتے ہیں،جوآتی جاتی ہوائوں سے دنیا کی خبریں معلوم کرکے اپنا رُخ متعین کرتے ہیںاوراپنی مٹی اور اپنی ثقافت کو اپنا فخر بنا کر وجود پر یوں اُوڑھ لیتے ہیں کہ اُسکی خوشبو اُنکی فکر میں سما جاتی ہے۔
گلگت بلتستان میں پہلے ادبی میلے کے انعقاد کا سہرا ڈاکٹرکاظم نیاز چیف سیکرٹری بلتستان کے سر ہے جو علمی ادبی پس منظر کی وجہ سے زبانوں کی اہمیت اور احترام سے کماحقہ آگاہ ہیں۔میلہ قراقرم یونیورسٹی کے خوبصورت ہال میں منعقد کیا گیا تاکہ شعراء ادبا ء،دانشوروں اور لسانی ماہرین کی عمر بھر کی کمائی نئی نسل کے علم میں آسکے اور وہ علم کی گٹھڑی میں ادبی اور ثقافتی میراث بھی محفوظ کرلیں۔ڈاکٹر کاظم نیاز چونکہ اپنی سابقہ ذمہ داریوں میں زبانوںکے حوالے سے کام کرچکے ہیں اس لئے انھوں نےاس خطے کی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے اکیڈمی کے قیام کا ارادہ کیا تو پاکستان کی تمام اکائیوں میں اس مقصد کے لئےکام کرنے والے اداروںکی کارکردگی سے استفادہ کرنے کے لئے خشک سیمینار کی بجائے رنگا رنگ دور وزہ ادبی میلے کا انعقاد کیا۔گلگت بلتستان میںپانچ مادری زبانیں بولی جارہی ہیں۔کچھ زبانوں کے بولنے والے بہت کم تعداد میں ہیں اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اُن کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ڈاکٹر صاحب کی زبان و ادب اور ثقافت سے گہری وابستگی کا عالم یہ ہے کہ وہ لسانی امور کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی کی سرپرستی خود کر رہے ہیں۔ لیکن خود کوئی فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے مادری زبانوں کی ترقی کے لئے قائم زبانوں کے سربراہوں سے مشاورت کو ضروری سمجھااور یوں میلے کی ضرورت نے جنم لیا۔جس میں براہویں اکیڈیمی کے چیئرمین صلاح الدین مینگل، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ پاکستانی زبانوں کے ڈاکٹر عبدلواحد، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کے چیئرمین ڈاکٹر اباسین یوسفزئی، بلوچی اکیڈیمی کے ممتاز یوسف، لوک ورثہ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فوزیہ سعید، سندھ اکیڈیمی سندھیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر اسحاق سیمجو،سوات سے ماہرِ لسانیات زبیر تور والی،قراقرم یونیورسٹی شعبہ ماڈرن لینگوئجز کی اسسٹنٹ پروفیسر فوزیہ منصور اور پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرصغرا صدف نے Presentaionsکے ذریعے مادری زبان کے لئے کئے گئے اقدامات سے حاضرین محفل کو آگاہ کیا اور مقالوں کے ذریعے ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔پلاک محکمہ اطلاعات و ثقافت،پنجاب کی طرف سے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ،کتب اور طالبعلوں کے لئے انعامات کی بھرپور پذیرائی کی گئی اور زبان و کلچر کی ترویج میں اس قدم کو دیگر صوبوں میں بھی اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔حکومتِ گلگت بلتستان کی نیک نیتی کا یہ عالم ہے کہ لینگوئج اکیڈمی کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے سال گلگت بلتستان کی پانچ مادری زبانوں کو نصاب میں ایک مضمون کے طور پر شامل کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔وہ دن دور نہیں جب پنجاب میںبھی پرائمری سطح پر مادری زبان کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کر لیا جائے گا۔
گلگت بلتستان کی زبانیں اس مقام پر نہیں جس پر ملک کی دیگر مادری زبانیں ہیں۔لیکن سلام ہے ان ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو جنہوں نے انفرادی سطح پر ان زبانوں کو زندہ رکھا۔کچھ زبانیں صرف بول چال تک محدود ہیں ان کو تحریری شکل میں لانابہت بڑی نیکی ہے۔مجھے یاد ہے ایک اجلاس میں گلگت سے ایک معزز ممبر نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ شینا زبان بولنے اور لکھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔
اس ادبی میلے نے مادری زبانوں کے لئے کام کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو بھی ایک جگہ جمع کرکے ایک دوسرے کی معلومات سے استفادے کا موقع فراہم کیا۔کچھ عرصہ قبل تک ہمیں گلگت کے لکھنے والوں تک رسائی نہیں تھی۔کانفرنس کے پہلے روز آخری سیشن میں مادری زبانوں اور دوسرے دن اردو مشاعرے کے دوران علم ہوا کہ شعروادب کے حوالے سے بھی یہ خطہ کتنا سرسبز و شاداب ہے۔سینئر شعراء کے ساتھ ساتھ نوجوان شعراء کا کلام دِلوں میں گھر کرگیا۔ریسرچ اینڈ لینگوئج اکیڈیمی کے قیام کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے سیکرٹری اور معروف شاعر ظفر وقار تاج کی پھرتیاں عروج پر رہیں۔
مہینہ بھر رابطے کرنے والے اشتیاق یادمہمانوں کاشکریہ ادا کرتے رہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان حافظ حفیظ الرحمن، وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہرکی خصوصی شرکت کے علاوہ تمام سیشنز کے دوران مختلف محکموں کے وزیر اور سیکریٹریز ہال میں موجود رہے۔اگرچہ گلگت بلتستان کے لئے ریسرچ اینڈ لینگوئج اکیڈیمی کا قیام 70 سال کی تاخیر کے بعد عمل میں لایا جا رہا ہے تاہم حکومت کی حکمت عملی اور نیک نیتی کو دیکھتے ہوئے یہ واضع اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بہت جلد یہ ادارہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔اکادمی ادبیات نے بھی وہاں اپنے ادارے کی شاخ قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور اس مقصد کے لئے حکومت ِ گلگت نے زمین بھی الاٹ کر دی ہے۔دشوار گزار سڑکوں سے چودہ گھنٹے کے سفر کی تھکن اہل ِ گلگت کی مہمان نوازی اور خلوص کے سامنے ہیچ نظر آئی۔گلگت کے دلکش مناظر اور موسم اپنے من میں جھانکنے کی ترغیب دیتے ہیں۔فضائوں میں سلمان پارس کا گلگت بلتستان کی محبت میں گایا گیت گونجتا رہا اور ہم سب دیو مالائی کوہساروں، جھرنوں، دریائوں اور پھلدار درختوں کے سحر میں جکڑے رہے۔اس دلفریب وادی کے نام دو شعر
تو مجھے مجھ میں نظر آتا نہیں
اس لئے اب آئینہ بھاتا نہیں
اے محبت سے بھرے موسم بتا
کیا ترا مجھ سے کوئی ناتا نہیں