• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیکر تسلیم ورضا۔میاں طفیل محمد....سید منور حسن…امیر جماعت اسلامی

Todays Print News

میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔الفاظ کا ذخیرہ زیادہ دیر تک اور دور تک ساتھ نہیں دیتا وگرنہ درویش صفت کہنا، فقیر منش کا عنوان دینا، سادگی کا ان پر ختم ہوجانا اور للہیت کا پیکر ہونا، مزید یہ کہ بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ہونا ایسی صفات ہیں جو گفتگواور تحریرمیں باربار گنوائی گئی ہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مرحوم ان تمام صفات اور خصوصیات کامرقع تھے۔ فریضہ اقامت دین ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ میاں صاحب  بلاشبہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سامنے دنیااپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ لبھانے کے لئے کھڑی تھی مگر اس مرد درویش نے اس پر ایک نگہ غلط اندازبھی ڈالنا گوارا نہ کیا۔ علامہ اقبال نے میاں صاحب جیسے لوگوں کے لئے کہا تھا:


نگاہِ فقر میں شان سکندری کیاہے؟


بظاہر میاں صاحب نے عسرت اور تنگدستی سے زندگی گزاری مگر عشق الٰہی سے سرشار لوگوں کا نشہ کوئی ترشی اتار نہیں سکتی۔ سیدمودودی  سے ان کی محبت اور عقیدت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ میرے محسن ہیں۔ جس شخص کے ذریعے انھوں نے زندگی کے نصب العین کو سمجھا اور زندگی کے مقاصد کو پہچانا اور جس شخص کے ذریعے ان میں دنیاداری سے بہت دور اپنے آپ کو بسانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ بیدارہوا، اس کی قدرومنزلت، دل و دماغ کی دنیا میں اس کا مقام اور اس سے تعلق خاطر ، بلاشبہ یہ احسان شناسی ہے اور ساری عمر ”مرہون منت“ رہنے کا عنوان بھی۔یہ میاں طفیل محمد کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسانی قدروں اور اخلاقیات کے ہر تقاضے کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔


میاں طفیل محمد اپنی سوچ اور فکر کے اعتبارسے پختہ رائے کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔ رائے قائم کرنے میں جس بصیرت و بصارت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے، میاں صاحب ان تمام حوالوں سے آراستہ و پیراستہ تھے،اور کبھی کبھی سخت گیری کی حد تک بھی اپنی رائے پر عملدرآمدکے لئے کوشاں نظر آتے تھے۔ان کی تحریر میں بلاغت ،سلاست اور جامعیت ، سبھی کچھ پایا جاتاہے۔ تقریریا گفتگو میں ان کا لہجہ کچھ اورتھا۔ ان کی تحریر میں بعض دفعہ تو سید مودودی کا رنگ جھلکتا نظر آتا تھا۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کی املا دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ اس میں بھی سید مودودی کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ اگر میاں صاحب لکھنا شروع کردیتے تو بلاشہ آسانی سے مصنفین کی صف میں شامل ہو سکتے تھے ۔ جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں، رپورٹوں، ان پر تبصروں اور معاملات و تنازعات کو نمٹانے میں اس حد تک ڈوب کر اپنے آپ کو پانے کا عمل جاری رہا کہ سرکھجانے کی فرصت میسر نہ آتی تھی، اس پر مستزاد تنظیمی دوروں، کارکنوں کی خبرگیری، ان کے دکھ درد سے آشنا ہونے اور ان کی سیرت و کردار کے ہر جھول کو دور کرنے میں میاں صاحب اس قدر مصروف رہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنی تحریر کاذوق لوگوں میں پیدا نہ کرسکے۔


ان کی پوری زندگی مربوط کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے میاں صاحب  نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیاہواتھا۔انھیں نماز پڑھتا دیکھ کرپتہ چلتا تھا کہ خاصان خدا کی نمازکیسی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہوجا ئے گی کہ ان کی زندگی کا محور نماز ہے اور نماز کے پرتوسے ان کی زندگی جگمگااٹھی ہے۔جس اہتمام و تیاری سے اور جس درجہ ڈوب کر انھیں ہمیشہ نماز پڑھتے دیکھا گیااورنماز کو باجماعت پڑھنے کی حرص کو ہمیشہ بیدار پایا گیا، وہ دیکھنے والے کو حیرت کا مجسمہ بنادیتا تھا۔ اس قدر ڈوب کر نمازپڑھتے تھے کہ خشوع وخضوع گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میاں صاحب کو اس عالم میں دیکھ کر کارکنوں کی نمازوں میں بھی نکھار پیدا ہوتاتھا۔ جب نماز کے لئے آتے تو جہاں جگہ ملتی، وہیں نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ کبھی کبھی پچھلی صف میں کھڑے ہوئے، کسی کی نظر پڑ گئی تو اس نے پہلی صف میں جگہ پیش کی تو بڑی مشکل سے اس طرح کی پیشکش قبول فرماتے۔ میاں صاحب نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی باجماعت ادا کی اور اس روز سب ملنے والوں سے بڑی بشاشت ملے اور سب کو دعائیں دیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے آخری رمضان کی تراویح مسجد میں آکر پڑھیں اورپوراقرآن کھڑے ہوکر سنا۔


میاں طفیل محمد  نے ایک لمبی عمر پائی اور لمبی عمر کی جتنی آزمائشیں ہوتی ہیں، ان سب سے وہ دوچار رہے۔بینائی کا ختم ہوجانا، سماعت کا حددرجہ متأثر ہونا، جسم وجان کی توانائیوں کا ڈھلان پر چل پڑنالیکن ان حوالوں میں سے کوئی حوالہ ان کے لب ولہجے میں تندی و ترشی پیدا نہ کرسکااور گلے شکوے کا کوئی پیرایہ ڈھونڈھے سے بھی نہ مل سکا۔ میاں صاحب ہمیشہ راضی برضا نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔ کم و بیش چھیانوے سال عمرپانے والا ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر ورضاکا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے۔ انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے ، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر وصلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتاہے۔جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی تقریباً بائیس سال تک میاں صاحب  جماعت میں رکنیت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب ۳۹۹۱ء میں پالیسی مسائل پر اختلافات ابھرے تو کئی اہم اور پرانے ذمہ دار حضرات الگ جماعت بنانے کے لئے کوشاں نظر آئے اور سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم تھی کہ اس خلفشار میں میاں صاحب کی شخصیت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے، اختلاف رائے اور اظہار رائے میں وہ پیش پیش بھی تھے لیکن ایک ایسی مجلس میں جس میں بالآخر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوناتھا، میاں صاحب محترم نے یہ کہہ کربہت سوں کو ورطہ حیرت اور بعض کو سکتے میں ڈال دیاکہ ’ ہم الگ جماعت کیوں بنائیں، ہماری جماعت تو جماعت اسلامی ہے، اگر اس میں خرابیاں ہیں تو ہم انھیں دور کریں گے، اگر یہ اپنی منزل سے ہٹ رہی ہے تو اصلاح کریں گے۔‘ مزیدارشاد فرمایا’اب سے پہلے جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے اور ان میں سے بعض نے نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، ان سب کی کارکردگی اور انجام کس سے مخفی ہے، لہٰذا ہم اندھیرے میں تیر چلانے کے بجائے جو کچھ نظروں کے سامنے ہے،اس کی کمزوری کو رفع کریں گے اور پوری جماعت کو صحیح رخ پر استوار کریں گے۔‘میاں صاحب کے اس عزم نے ان گنت لوگوں کو اپنی رائے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔اس کے بعد ۶۱ سال تک میاں صاحب جماعت میں رہے، خود بھی یکسوئی اور انشراح صدر کا پیکر بنے رہے اور جماعت کے ذمہ داران کو بھی تمام امور میں مشورہ دیتے رہے اور ان کے کیے کی تحسین کرتے رہے۔شفقت اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی جاری رہا اور کہنے سننے کے دروبست بھی کھلے رہے۔غرض میاں طفیل محمد اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اپنی سوچ اور فکر میں تحریک اور انقلاب تھے اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لئے کھولا جاسکتاہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور ان سے سیکھنے کے ان گنت حوالے موجود ہیں۔ اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ:


’بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘





































تازہ ترین