مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیری عوام کی تحریک مزاحمت سے پیدا ہونے والی صورتحال بھارت کے کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے اور سات لاکھ بھارتی فوج تعینات کرنے کے باوجود اس کے قابو میں نہیں آرہی۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا ایک عرصے سے اس طرف توجہ دلارہی تھی مگر بے رحم بھارتی حکمرانوں کو وہاں ”سب اچھا“ کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اب خود بھارتی فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔انہوں نے وادی کشمیر میں ”غم وغصے“ کی بنیادی وجوہات، مشکل صورتحال میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی قرار دیا ہے۔ایک بھارتی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ کشمیر کی صورتحال کا فی عرصہ سے شدید کشیدگی کا شکار ہے اور کہا کہ یہ مقامی انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ عام آدمی کا اعتماد حاصل کرتے اور انہیں احتجاج سے دور رکھتے۔بھارتی آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں محتاط مگر شکست خوردہ لہجے میں ایک حقیقت کھول دی ہے تاہم وہاں اس وقت جو اصل صورتحال ہے اسے پوری شرح دبسط کے ساتھ بیان کرنا ان کے بس میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 63سال سے کشمیری عوام جان و مال کی بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں، خونریز جنگوں اور بھارت کے بے پناہ مظالم کے باوجود وہ اپنے حق خودارادیت سے نہ صرف دستبردار نہیں ہوئے بلکہ منزل کے حصول کے لئے ان کے عزم و حوصلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تازہ ترین تحریک کا آغاز 11جون کو ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے مقبوضہ کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسے کچلنے کے لئے فوج بلا لی گئی ۔ تمام بنیادی حقوق معطل کر دیئے گئے۔ سری نگر، پلوامہ، سوپور اور دوسرے علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا۔ سری نگر میں تو کئی روز سے مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے۔ کرفیو میں وقفے کے دوران لوگ نعرے لگاتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں اور احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ سری نگر اور بٹ مالو میں ایسے ہی ایک مظاہرے میں لوگوں نے ”ہم آزادی چاہتے ہیں، خون کا بدلہ خون“ کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے بھارتی فوج موقع پر پہنچ کر اندھادھند فائرنگ کرتی ہے جس سے درجنوں لوگ اب تک شہید یا زخمی ہوچکے ہیں۔ ممتاز حریت پسند رہنما سید علی گیلانی سمیت درجنوں افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ جیو سمیت آٹھ پاکستانی ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ صحافتی تنظیموں نے اس پابندی کے خلاف مظاہرے کئے اور سری نگر میں احتجاجی دھرنا دیا۔ کٹھ پتلی حکومت کی پابندیوں کے خلاف مقامی اخبارات نے احتجاجاً اپنی اشاعت معطل کر دی ہے۔ اخبارات کے ایڈیٹروں کی تنظیم نے بھی ان پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا اور اخبارات کی اشاعت معطل کرنے کی توثیق کی۔ ادھر حریت کانفرنس نے بھارتی فوج کی زیادتیوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ حریت کانفرنس کے صدر میرواعظ عمرفاروق، سید حسین موسوی اور کئی دوسرے رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کو بھارتی وزیراعظم نے صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر آل پارٹیز میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی تھی جو انہوں نے مسترد کردی۔ میرواعظ عمرفاروق نے 13جولائی کو لوگوں سے یوم یکجہتی منانے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ عوام اس روز درگاہ نقشبند پر جمع ہوں اور وہاں سے اقوام متحدہ کے دفتر تک احتجاجی مارچ کریں۔ اقوام متحدہ کے ذمہ دار حکام کو بھارتی فوج اور دوسری ایجنسیوں کے ہاتھوں کشمیری عوام کے قتل عام کے خلاف یادداشت پیش کی جائے گی۔ خبررساں ایجنسیوں کے مطابق مسلسل کرفیو کے باعث مقبوضہ کشمیر میں روزمرہ استعمال کی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے جس سے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیاہے۔مجاہدین آزادی اور حریت پسند تنظیموں نے ویسے تو کسی بھی دور میں ہتھیار نہیں ڈالے اور قابض بھارتی فوجوں کے خلاف نبردآزما رہے ہیں مگر گیارہ جون سے شروع ہونے والی جدوجہد ان کے عزم تازہ کی نوید ہے۔ یہ ان کے اس عہد کا اعادہ ہے کہ حالات چاہے کتنے بھی ناسازگار ہوں، قربانیاں چاہے کتنی بھی دینا پڑیں، وہ اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھیں گے۔ اس جنگ میں انہیں اقوام متحدہ کی قراردادں کی رو سے پوری دنیا کی اخلاقی حمایت حاصل ہے اور پاکستان ان قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام میں بجاطور پر مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے متعلقہ فورموں پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی مذمت کی ہے اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خودارادیت دے۔ عالم اسلام میں بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پرگہری تشویش پائی جاتی ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوگلو نے مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورتحال پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے اور جدہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں نہتے کشمیری عوام پر بھارتی فوج کی طرف سے طاقت کے مسلسل وحشیانہ استعمال کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کی خواہشات اور حقوق کا احترام کرے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بہتر ہوسکے۔ امریکہ اور یورپی ممالک بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن تعلقات کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ بھارت بیرونی دنیا کو ہمیشہ یہ تاثر دیتا رہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اس کا ”اٹوٹ انگ“ ہے اور وہاں کے حالات اس کے قابو میں ہیں۔ مگر اب خود بھارتی آرمی چیف نے یہ اعتراف کر کے کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال سخت کشیدہ ہے، بھارتی پراپیگنڈہ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی قیادت اپنے آرمی چیف کی شہادت قبول کر کے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اس تنازعہ کو کشمیری عوام کی خواہشات اور بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں طے کرنے پر آمادہ ہوتی ہے یا نہیں کیونکہ برصغیر میں امن و آشتی اس مسئلے کے حل سے وابستہ ہے اور یہی شروع سے پاکستان کا موٴقف رہا ہے۔
سیاسی جماعتو ں کا درست فیصلہ
سندھ کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اپنے ایک اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ یہ جماعتیں شہر میں مختلف مقامات سے اپنے اپنے رہنماؤں کی تصویریں، ہورڈنگ اور بینر وغیرہ اتارلیں گی تا کہ اس بنیاد پر شہر میں کسی قسم کا تنازع پیدا نہ ہو۔ پروگرام کے مطابق مذکورہ اجلاس کی سفارشات صوبائی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بھی بھیجی جائیں گی تاکہ صوبائی حکومت کی طرف سے اس بارے میں باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا جاسکے۔ شہر میں سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے مذکورہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے ۔نیز باعث اطمینان امر یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت میں شا مل تمام اتحادی جماعتوں نے اس خرابی کو از خود محسوس کرکے اسے دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں تک عام شہریوں کا تعلق ہے وہ اس لئے بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ دیو ا ر وں پرلکھے سیاسی نعرے شہر میں مفاہمت کی فضا کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کے درودیوار کو بھی بدز یب اور بد نما کردیتے ہیں۔کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کو صا ف ستھرا اور خوبصورت بنانے کیلئے یہ ضروری ہے اس کے کھمبو ں پر بوسیدہ پرچموں کی دھجیاں نہ لٹکتی رہیں اور شہر کی دیواریں جگہ جگہ لکھے گئے نعروں اور پوسٹروں سے لتھڑی نظر نہ آئیں۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ایسی کسی سرگرمی میں ملوث ہونے سے روکیں جن کی وجہ سے شہر کے درودیوار گندے ہوں اور مخالفانہ نعروں کی وجہ سے کشیدگی بڑھ سکتی ہو۔ دوسری جانب امن و امان کے حوالے سے منعقدہ ایک حالیہ اجتماع میں ایک سیاسی رہنما نے شہر میں موجود خطرناک ہتھیاروں کی تعداد لاکھوں میں بتائی ہے۔ تواتر سے ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ شہر کو ہتھیاروں سے پاک کئے بغیر اسے ماضی کی طرح کا پرامن اور پرسکون شہر بنانا ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ان مسائل کے حل پر پوری سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے۔