کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں میزبان سےگفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ درآمد ات بڑھنے کی بڑی وجہ سی پیک منصوبوں سے متعلق مشینری اور صنعتی بڑھوتری کیلئے مشینری کی درآمد ہے، ایک اور وجہ پیٹرولیم مصنوعات میں سال کے دوران چالیس فیصد اضافہ ہونا ہے، برآمدات بڑھانے کیلئے پچھلے سال برآمدی پیکیج دیا تھا جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، زرمبادلہ کیلئے آئندہ چند روزمیں نئی حکمت عملی لارہے ہیں، لگژری اشیاء کی درآمد کی حوصلہ شکنی کیلئے ان پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے چار سال میں بانڈ جاری کیے ہیں تو پرانے بانڈز واپس بھی کیے ہیں، پرویز مشرف کے زمانے کے بانڈز بھی واپس کیے ہیں، آئی ایم ایف کا نیا پروگرام 6.3بلین ڈالر کا تھا لیکن اس میں سے 4.4بلین ڈالر سے 2013ء سے پہلے کے قرضوں کی ادائیگی کی گئی ، اس طرح ہمیں دراصل 1.9بلین ڈالر قرض ہی ملا، پاکستان سرپلس ملک نہیں ہمارا بجٹ خسارہ ہے، پچھلے چار سال میں ہمارا مجموعی قرضہ ایک اعشاریہ چار فیصد بڑھا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اپنے خلاف مقدمات کی وجہ سے میرے آفس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہورہا ہے، میری کوشش ہے کہ ذاتی وجوہات کی وجہ سے وزارت کا کام متاثر نہ ہو، میرا عہدہ وزیراعظم، پارٹی اور قوم کی امانت ہے، اس حوالے سے جو فیصلہ ہوگا اس پر عمل کروں گا، میرے لئے پاکستان سب سے پہلے ہے۔
وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پاناما کیس فیصلے پر ہمارے ساتھ قانونی ماہرین نے بھی سوالات اٹھائے ہیں، ہمارے سوالات کا جواب نظام عدل سے نہیں آیا تو تاریخ سے ضرور آئے گا، کسی کو بھی سزا دینے سے پہلے قانون کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں، کسی عبوری ریفرنس پر فردِ جرم عائد نہیں ہوسکتی ہے، فردِ جرم لگانے سے پہلے ہمیں ریکارڈ کیوں نہیں دیا جارہاہے، فردِ جرم لگانے سے پہلے سب کو سات دن دیئے جاتے ہیں لیکن شریف خاندان کے معاملہ میں عجیب عجلت ہے، ہماری کہانی غلط بیانی پر مبنی ہوتی تو نواز شریف کو سزا اقامہ پر نہیں پاناما میں ہوتی، نیب قانون میں 1985ء سے پیچھے نہیں جایا جاسکتا ہے، شریف خاندان کے معاملہ میں 1965ء کے سوال بھی کیے جارہے ہیں۔
طلال چوہدری نے کہا کہ ن لیگ میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن ہم جدا نہیں ہیں، نہ بہن سے بھائی جدا ہے نہ بھائی سے بھائی جدا ہے، سوچیں دو ہوسکتی ہیں لیکن رہنما اور منزل ایک ہے اور پارٹی کا فیصلہ بھی ایک ہوگا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے صاف بتادیا ہے کہ شریف خاندان کچھ بھی کرے، کچھ بھی کہے ،اسلام آباد کی احتساب عدالت وقت پر فیصلہ سنائے گی کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہے، شریف خاندان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ صرف ناانصافی کا شور مچائے گا یا عدالت میں اپنا موقف درست ثابت کرے گا، شریف خاندان کے پاس ایک اور موقع ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو غلط ثابت کرے اور عدالت میں ثابت کرے کہ لندن فلیٹس جائز آمدنی سے خریدے گئے، العزیزیہ اسٹیل مل بھی جائز آمدنی سے خریدی گئی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور اس کی تمام سولہ کمپنیوں سے متعلق اپنا موقف بھی درست ثابت کرے۔
شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ شریف خاندان عدالت کے سامنے پیش تو ہورہاہے لیکن تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کررہا ہے مگر بٹ کر کررہا ہے، شریف خاندان کا ایک حصہ تحفظات کا اظہار اس طرح کررہاہے کہ عدالت پر بھرپور تنقید کررہا ہے تو دوسرا حصہ پہلے حصے کو سمجھا رہا ہے کہ ایسا نہ کریں بلکہ 2018ء کے الیکشن کی طرف بڑھیں، یہاں پہلا حصہ نواز شریف اور مریم نواز جبکہ دوسرا حصہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ہیں ، نواز شریف اور مریم نواز دوسرے حصے یعنی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بات مانتے نظر نہیں آرہے ہیں جو آج بھی واضح ہوا، نواز شریف نے فردِ جرم عائد ہونے کے بعد لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے احتساب عدالت پر کڑی تنقید کی، اس کے ساتھ مریم نوازنے بھی عدالت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے، فردِ جرم عائد ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ایک دفعہ فیصلہ سنادیں انصاف کا تماشا نہ بنایا جائے۔
شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ شریف خاندان کا یہ حصہ جونواز شریف اور مریم نواز پر مشتمل ہے وہ عدالتوں کا سامنا تو کر رہا ہے ساتھ ہی تنقید بھی باقاعدہ کررہاہے، مگر عدالت اپنی کارروائی تیزی سے آگے بڑھارہی ہے، جمعرات کودو کیسوں میں نواز شریف پر فردِ جرم عائد ہوگئی جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر بھی ایون فیلڈ فلیٹس پر فردِ جرم عائد کردی گئی جبکہ دیگر کیسوں میں فردِ جرم کل عائد ہوگی، شریف خاندان نے جو بہت سی اپیلیں کر رکھی تھیں وہ سب بھی مسترد ہوگئیں، نواز شریف کی طرف سے عدالت سے اپیل کی گئی کہ سپریم کورٹ میں تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست کی ہے، جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا سماعت روکی جائے اور فردِ جرم عائد نہ کی جائے، عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی طرف سے درخواست کی گئی کہ نیب کے عبوری ریفرنس میں شامل تمام دستاویزات فراہم نہیں کی، شامل تفتیش تین افراد کے بیانات کی کاپی نہیں دی گئی، والیم ٹین کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی، جب تک تمام دستاویزات نہیں دی جاتی سماعت روکی جائے، عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی رائے سننے کے بعد یہ درخواست بھی مسترد کردی، نواز شریف کی طرف سے احتساب عدالت سے تینوں ریفرنسز ایک ساتھ سننے کی اپیل کی گئی مگر یہ درخواست بھی مسترد کردی گئی۔
شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فردِ جرم پڑھتے ہوئے کہا کہ ملزمان لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، ملزمان نے لندن میں غیرقانونی اثاثے بنائے، سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کرائی گئیں، جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ شریف خاندان سپریم کورٹ کے سامنے لندن فلیٹس کی منی ٹریل پیش کرچکا ہے، ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے شریف خاندان کا موقف ہے کہ وہ اصل ہے اور اس پر بطور گواہ دستخط کرنے والے کو جے آئی ٹی نے نہیں سنا، سوال یہ ہے کہ شریف خاندان اس معاملہ پر خود کو کس طرح درست ثابت کرے گا کیونکہ عدالت نے شریف خاندان کے منی ٹریل کو قبول نہیں کیا اور نیب کو ریفرنسز دائر کرنے کا کہہ دیا۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ نواز شریف کے نمائندے ظافر خان نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے نواز شریف کا بیان پڑھ کر سنایا، اس بیان میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ شفاف ٹرائل میرا حق ہے، سپریم کورٹ نے چھ ماہ میں کیس نمٹانے اور نگران جج مقررکرنے جیسے فیصلے کیے جس کی نظیرنہیں ملتی، مانیٹرنگ جج خاص طور پر اس کیس میں تعینات کیا گیا، آئین ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے، مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے بھی صحت جرم سے انکار کردیا، فردِ جرم عائد ہونے کے بعد عدالت میں بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ الزام بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہیں، ایک متنازع اور نامکمل رپورٹ کی بنیاد پر فرد ِ جرم میں جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی تاریخ میں حیثیت ایک مذاق کی ہوگی، ہمیں شفاف ٹرائل کے بنیادی آئینی حق سے محروم کیا جارہا ہے اور ہمارے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے،لندن فلیٹس اور عزیزیہ کیس کی اب باقاعدہ کارروائی ہوگی، اب شریف خاندان کے خلاف باقاعدہ طور پر کیس شروع ہوگیا ہے جبکہ آج ایک اور کیس میں نواز شریف پر فردِ جرم عائد ہوجائے گی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے سوال اٹھ رہے ہیں لیکن جو شخصیت معیشت کا دفاع کرتی تھی وہ غائب نظر آتی ہے، سوال اٹھ رہا ہے کہ اسحاق ڈار پر اپنے خلاف دائر کیسوں کا اتنا دبائو ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے، دس سال بعد پاکستان نے پانچ فیصد کی جی ڈی پی گروتھ حاصل کی لیکن سوال اٹھ رہا ہے کہ ایکسٹرنل سیکٹر میں سترہ ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہوتا ہے تو پاکستان کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے، حکومت نے درآمدی اشیاء پر ڈیوٹیاں لگائی ہیں لیکن اگر اس سے ایک دو ارب ڈالر کا فرق پڑ بھی جائے تو باقی پندرہ سولہ ارب ڈالر کا خسارہ معیشت کیسے پورا کرے گی۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جہانگیر ترین نااہلی کیس میں سپریم کورٹ نے گزشتہ روز انسائیڈر ٹریڈنگ سے متعلق دلائل سنے تھے، جمعرات کو چیف جسٹس کی جانب سے آرٹیکل 62/1F سے متعلق اہم ریمارکس سامنے آئے، وہ آرٹیکل جس کو بنیاد بنا کر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، چیف جسٹس نے آرٹیکل 62/1F کی وضاحت اور تعریف کیلئے فریقین کے وکلاء سے معاونت طلب کی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دیکھناہوگا کہ ارکان پارلیمان کی نااہلی کیلئے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی، چیف جسٹس نے عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کو بھی پیغام دیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں پیغامات آرہے ہیں ایکشن لینے کا کہا جارہاہے لیکن وہ جذباتی نہیں بلکہ انہیں ملکی مفاد میں فیصلہ کرنا ہے،جمعرات کی سماعت میں چیف جسٹس اور جہانگیر ترین کے وکیل میں طویل مکالمہ ہوا جس میں شیئرز کی خریداری، ایمانداری کی تعریف اور آرٹیکل 62/1Fکا معاملہ زیربحث آیا، چیف جسٹس نے سکندر بشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین پر ملازمین کے ذریعے شیئرز خریدنے کا الزام ہے، یہ بھی الزام ہے کہ ملازمین جہانگیر ترین کے بے نامی دار تھے ان کے پاس شیئرز خریدنے کیلئے رقم نہیں تھے، اس معاملہ میں عدالت کو ایمانداری کا جائزہ لینا ہے، چیف جسٹس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ والد بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ باہر والے کو بتائو کہ پاپا گھر پر نہیں ہیں، یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا گھر پر نہ ہونے کا کہنا بھی صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے، دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمانی کی نااہلی کیلئے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی، بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، آرٹیکل 62/1Fکے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہوگا، اس کیلئے فریقین کے وکلاء آرٹیکل 62/1F پر معاونت کریں، ہم آرٹیکل 62کے تحت ایمانداری کے معیار اورا سکوپ کو سمجھنا چاہتے ہیں،یہ عدالتی کارروائی ٹرائل سے بڑھ کر ہے روز نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔
شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اٹھائیس جولائی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کا بنچ نواز شریف کو آرٹیکل 62/1Fکے تحت قابل وصول اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر ڈکشنری کی تعریف کے تحت نااہل قرار دے چکا ہے، اس وقت عدالت میں نہ نیت پر بات ہوئی، نہ ارادے پر بات ہوئی، عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ قابل وصول تنخواہ تھی جو ظاہر کرنی چاہئے تھی مگر نہیں کی اس لئے نواز شریف آئین کے آرٹیکل 62/1Fکے تحت صادق اورا مین نہیں رہے اس لئے انہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے، اب کیا عدالت اپنے اٹھائیس جولائی کے فیصلے کے بعد اس آرٹیکل کا جائزہ لے گی،یہ بہت اہم سوال ہے۔ نمائندہ جیونیوز اویس یوسف زئی نے کہا کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کیخلاف ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے، ایون فیلڈز پراپرٹی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے، العزیزیہ اسٹیل مل سے متعلق ریفرنس میں نواز شریف پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے، مریم نواز نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے عدالت کے سامنے اعتراضات اٹھائے ۔
ماہر قانون کامر ان مرتضیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 62کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ ہی اسٹینڈرڈ ہے، اگر جہانگیر ترین کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ کی رائے ہے کہ اس اسٹینڈرڈ کا اطلاق نہیں کرناچا ہئے تو اس کیلئے اس سے بڑا بنچ بننا چاہئے، ارادے کے بنیاد بنا کر نہ سزا ہوسکتی ہے نہ سزا سے جان چھوٹ سکتی ہے۔