• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الطاف حسین کے رویہ سے ساتھی پریشان، ندیم نصرت ، واسع جلیل کنارہ کش

لندن (مرتضیٰ علی شاہ)ا یم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریروں سے پارٹی میں اختلافات ابھر کر سامنے آنا شروع ہوگئے، ان کی روز روز کی زہر افشانی سے ان کے قریبی ساتھی بھی پریشان اور متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے دو قریبی ساتھیوں ندیم نصرت اور واسع جلیل نے جو اب تک ہر موقع پر الطاف حسین کا دفاع کرتے رہے تھے اگرچہ ابھی تک باقاعدہ طور پر پارٹی سے علیحدگی یا اختلافات کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن انھوں نے غیر اعلانیہ طور پر پارٹی کے معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے، ان دونوں نے ابھی تک کسی اور پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے بھی کوئی اشارہ نہیں دیا ہے، پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دونوں کی ناراضگی کا بنیادی سبب الطاف حسین کی بدگوئی ہے جس کی وجہ سے پارٹی میں اختلافات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق الطاف حسین اپنے ساتھیوں سے بات چیت میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اب ان کے ساتھی برداشت کرنے کو تیار نظر نہیں آتے اور صف اول کے تصور کئے جانے والے بہت سے رہنما اب انٹرنیشنل سیکریٹریٹ میں ان کے ساتھ کام کرنے پر رضامند نہیں ہیں، ایم کیو ایم کے سینئر رہنمائوں کا خیال ہے کہ الطاف حسین مکمل طور پر آپے سے باہر ہوچکے ہیں اور اب ان کے سامنے مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، الطاف حسین کے قریبی ساتھی ندیم نصرت نے جو کینسر کے علاج کے بعد صحتیاب ہوگئے تھے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرکے کہ وہ اپنے علاج کیلئے جا رہے ہیں امریکہ روانہ ہوگئے ،اگرچہ یہ درست ہے کہ ندیم نصرت ان دنوں امریکہ میں زیر علاج ہیں لیکن پارٹی ذرائع کے مطابق ستمبر میں الطاف حسین کے ساتھ پارٹی کے بعض معاملات پر الطاف حسین نے ان پر شدید تنقید کی تھی، پارٹی ذرائع کے مطابق اس موقع پر بات اتنی بڑھ گئی تھی کہ الطاف حسین نے ندیم نصرت اور ان کے اہل خانہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، ندیم نصرت نے شائستگی کے ساتھ اس پر احتجاج کیا لیکن اس پر الطاف حسین مزید برہم ہوگئے اور انھوں نے اس سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کی اور ندیم نصرت کو حکم دیا کہ وہ گھر میں بیٹھیں اور پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت نہ کریں، یہ باتیں ایم کیو ایم کی سخت پالیسی کی وجہ سے پارٹی کے اندرونی حلقوں تک ہی محدود تھی لیکن بات اس وقت کھل کر سامنے آئی جب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی سے متعلق اجلاس کے موقع پر ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن ستمبر کے وسط میں پاکستان میں حقوق انسانی کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کیلئے جنیوا پہنچے لیکن انھیں حقوق انسانی کمیشن کے دفتر تک رسائی نہیں مل سکی کیونکہ ندیم نصرت این جی اوز سے اپنے تعلقات کی وجہ سے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کی عمارت تک کارکنوں کی رسائی کا انتظام کرتے تھے۔ ذرائع کے مطابق الطاف حسین نے ندیم نصرت کو جینوا جانے کی ممانعت کر دی تھی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے کارکن جنیوا میں ادھر ادھر گھومتے رہے اور مایوس ہو کر یا تو لندن واپس آگئے یا اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلے گئے، اس موقع پر صرف عادل غفار ایڈووکیٹ کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے اندر تقریر کرتے ہوئے دیکھا گیا اس دوران ندیم نصرت بالکل خاموش رہے اور امریکہ روانگی سے قبل ایک پریس کانفرنس میں الطاف حسین پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے علاج کیلئے امریکہ جانے کا اعلان کر دیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ندیم نصرت اپنی بے عزتی پر اتنے دل گرفتہ ہوگئے کہ انھوں نے خاموشی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ہوسکتا ہے کہ علاج کے بعد اب وہ واپس برطانیہ نہ آئیں، واسع جلیل کے ساتھ اطلاعات کے مطابق یہ ہوا کہ جب وہ امریکہ جانے کے بعد 3ماہ تک واپس نہیں آئے تو الطاف حسین ناراض ہوگئے اور انھوں نے واسع جلیل کو بھی بہت برا کہا جبکہ اطلاعات کے مطابق امریکہ میں ان کے طویل قیام کا سبب امریکہ میں ان کے امیگریشن کے مسائل تھے انھیں برطانوی اور امریکی حکام کو برطانیہ میں زیادہ وقت گزارنے اور امریکہ واپس نہ آنے کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس کے علاوہ واسع جلیل کے ساتھ ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ انھوں نے امریکہ میں قیام کے دوران اپنے طور پر بعض امریکی حکام اور پارٹی کے بعض لوگوں سے ملاقاتیں کیں جن کی وجہ سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ اپنی راہیں الگ کر رہے ہیں کیونکہ پارٹی کے قائد کی اجازت کے بغیر کسی بھی رکن کے کسی بھی قدم کو پارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق الطاف حسین ان دنوں ایم کیو ایم کے دو دیرینہ رہنمائوں محمد انور اور طارق میر کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں اور انھیں دوبارہ عملی سیاست میں آنے کا مشورہ دے رہے ہیں، محمد انور کئی ماہ سے اپنی کمر کے درد کا علاج کرا رہے ہیں جبکہ طارق میر نے الطاف حسین کو بتایا ہے کہ وہ اپنے گھر سے ہفتہ میں ایک یا دو دن پارٹی کیلئے کام کرسکتے ہیں لیکن عملی سیاست میں واپس نہیں آئیں گے۔ ماضی میں پارٹی کے رہنما الطاف حسین کی بدزبانی کو برداشت کرلیتے تھے جبکہ بہت سے اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ الطاف حسین حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
تازہ ترین