27اکتوبر کا دن ،مقبوضہ کشمیر کے مسلما نوں کے لیے ’’یومِ سیا ہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے یہی وہ دن ہے جس سے ان کی غلا می ،بے کسی اورلا چا رگی کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اس دن کو ’’یومِ سیا ہ‘‘ کے طور پر منا تے ہیںتاکہ بھارت کا سیا ہ ،بدنما اور خون خوار چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہو سکے۔مسلما ن ،کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کیلئے پاکستان اور بیرونِ پاکستان اس دن کو اسی حوالے سے ’’بلیک ڈے‘‘ کے طور پر مناتے ہیںتاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلما نوں کو معلوم ہو کہ آزادی کی اس جدوجہد میں وہ ہر گز تنہا نہیں ہیں14اور 15اگست 1947کو تقسیمِ ہند کے فارمولے کو عملی شکل دی گئی۔اس کے نتیجے میں ’’پاکستان اور بھا رت‘‘ کے نام سے دو مملکتیں معرضِ وجود میںآ ئیں۔تقسیم کی بنیا د یہ اصول تھا کہ ’’جن علا قوں میں مسلما نوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان اور جن علا قوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ بھا رت میں شامل کیے جا ئیں گے‘‘۔اسی اصول کے تحت ان تما م ریاستوں کا معاملہ طے کیا گیا جن کی حیثیت خود مختار یا نیم خود مختار تھی۔تقسیم کے اس اصول کے تحت حیدرآباد اور جوناگڑھ کی ریاستوں کو بھا رت میں شامل کیا گیا حالا نکہ ان کے سربرا ہ مسلما ن تھے لیکن آبادی کی اکثریت ہندو ہو نے کی وجہ سے ان کا الحا ق بھا رت سے کر دیا گیا۔اس واضح اصول کے تحت ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ ریا ست جموں و کشمیر کا الحا ق پاکستان کے ساتھ کیا جا تا اس لیے کہ وہا ں کی پچا سی فی صد آ با دی مسلمانوں پر مشتمل تھی لیکن اس حوالے سے شروع میں تو ٹال مٹول سے کا م لیا گیا اور بعد میں ریا ست کے راجہ سے مل کر الحا ق کا ڈرامہ رچا یا گیا جسے بنیا د بنا کر 27اکتوبر 1947ء کی صبح نو بجے بھا رت نے سرینگر کے ائرپورٹ پر اپنی فوجیں اتا رنا شروع کیں جس کے نتیجے میں کشمیر کے مسلما نوں کو ایک دفعہ پھر غلا می کی طویل اور اندھیری شب کے سپرد کر دیا گیا ۔حقیقت یہ ہے کہ بھا رت کی پوری تا ریخ دغابا زیوں،وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں سے بھری ہو ئی ہے۔تقسیم ہند سے قبل ہندوؤں کی پوری قیا دت نے ایڑی چو ٹی کا زور لگایا کہ مسلما نوں کو انگریزوں کی غلا می سے نکال کر ہندوؤں کی غلا می میں دے دیا جا ئے لیکن مسلما نوں کی بیدار مغز قیا دت اور جذبہ حریت سے سرشار عوام نے ان کی ساری امیدوں کو خا ک میں ملا دیا اور آزادی کے حصول کیلئے ایسی لازوال قربا نیاں دیں جن کے نتیجے میں پا کستا ن معرضِ وجود میں آیا ہندوؤں کی چالبا ز قیا دت نے اپنے اس منصوبے کی نا کا می کے بعد مقبوضہ کشمیر کو اپنی عیا ری کا نشانہ بنا یا ۔شروع شروع میں تو ا نہوں نے مہا راجہ ہری سنگھ کو ریا ست جموں و کشمیر کی خود مختاری کی طرف ما ئل کیا لیکن جب انہیں یقین ہو گیا کہ ریاست کی غا لب مسلم اکثریت الحاقِ پاکستان چا ہتی ہے تو انہوں نے اپنی سازشوں کا کا نیا جا ل بچھا یا اور اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔بھارت کو اپنی فوجیں کشمیر میں اتارنے کیلئے کسی ظاہری سہا رے کی اشد ضرورت تھی چنا نچہ اس کیلئے ’’کشمیر سے بھا رت کے الحا ق ‘‘کا ڈرامہ رچایا گیا جس کی تفصیلات یہ ہیں:’’26 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے گورنر جنرل کو ایک خط لکھا جس کے اہم حصے یہ ہیں۔ہز ہا ئی نس مہاراجہ آف جموں و کشمیر کا خط ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل ہندوستان (مورخہ26اکتوبر 1947) ما ئی ڈئیر ما ؤنٹ بیٹن میں جنا بِ والا کو اطلا ع دینا چا ہتا ہوں کہ میری ریاست میں شدید ہنگا می کیفیت پیدا ہو گئی ہے جس کی بنا پر میں آپ سے فوری مدد کی درخواست کرتا ہوں۔چنا نچہ میری ریا ست میں پیدا ہو نے والی موجودہ صورتِ حال اور شدید ہنگا می حالا ت کے پیشِ نظر میرے لیے اس کے علا وہ اور کو ئی چا رہ کا ر ہی نہیں ہے کہ میں مملکتِ ہندوستان سے مدد طلب کروں ۔قدرتی طور پر مجھے یہ مدد اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک میری ریا ست ہندوستان سے الحا ق نہیں کر لیتی چنا نچہ میں نے الحا ق کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس خط کے ہمراہ الحا ق کے کا غذات آپ کی حکومت کی منظوری کے لیے ارسال کر رہا ہوں‘‘۔ چنا نچہ مہا را جہ کے خط کے جواب میں اسی رو ز ما ؤنٹ بیٹن نے لکھا :’’ ہز ایکسی لینسی فورنر جنرل ہندوستان کا خط بنا م ہز ہا ئی نس مہا را جہ آف جموں و کشمیر ( مورخہ27اکتوبر 1947 )ما ئی ڈئیر مہا را جہ صاحب!مسٹر وی پی مینن نے آپ کا خط مورخہ26اکتوبر مجھے دیا ،ان خصوصی حالات میں جو آپ نے بیا ن کیے ہیں میری حکومت نے آپ کی ریا ست کا االحاق ہندوستان سے منظور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ہما ری اس پا لیسی کے پیشِ نظرکہ جس ریا ست کا الحاق متنا زع ہو اس کے الحا ق کا فیصلہ وہا ں کی عوام کی خواہشات کے مطا بق ہونا چا ہیے ،میری حکومت یہ چا ہتی ہے کہ ریا ست جموں و کشمیر میں نظم و نسق کی بحا لی اور ریا ست کو حملہ آوروں سے پا ک کرنے کے بعد الحا ق کا مسئلہ عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا جا ئے۔اس اثنا میں آپ کی اس اپیل پر کہ آپ کو فو جی امدا دی جا ئے ،ہندوستا نی فوج کے دستے آپ کی فوج کی مدد کرنے کے لیے روانہ کیے جا رہے ہیںتا کہ آپ کے علا قے میں آپ کے عوام کی جا ن ،ما ل اور عزت کی حفاظت کر سکیں‘‘۔پروفیسر السٹر لیمب جنہیں مغربی دنیا میں ’’تاریخ اور آثارِ قدیمہ ‘‘ کے حوالے سے اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے اپنی اعلیٰ سطح کی تحقیق کے حوالے سے ثابت کر چکے ہیں کہ ’’ الحا ق کا پورا ڈرامہ فراڈ تھا ‘‘۔پروفیسر السٹر لیمب نے طویل عرصہ عرق ریزی کے بعد فرانس میں ’’کشمیر کی متنا زع آ ئینی حیثیت ‘‘ نا می کتا ب لکھی ہے اس کتا ب میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ ایسی کو ئی دستا ویز موجود نہیں ہے جس کے حوالہ سے یہ کہا جا سکے کشمیر کا بھا رت سے کو ئی با قاعدہ قانونی الحاق ہوا۔پروفیسر السٹر لیمب لکھتے ہیں:’’حا لیہ تحقیق نے اس با ت کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا ہے کہ ان دستا ویز ات میں دی ہو ئی تا ریخ جھوٹ پر مبنی ہے ۔یہ سچی آرکا ئیوز سے بھی نکھر کر سامنے آ جا تی ہے اور یہ حقیقت اس وقت کے وزیرِ اعظم جموں و کشمیر مہر چند مہا جن کی یا داشتوں اور وزیر اعظم نہرو کے خطوط سے بھی واضح ہو جا تی ہے لیکن اس کے برعکس ریا ستی وزیر وی پی مینن نے 1956میں لندن سے شائع ہو نے والی اپنی کتا ب ’’ریا ستوں کا الحاق‘‘ میں 26 اکتوبر 1947کا واقعاتی حوالہ دیا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے ۔مہا را جہ کے دستخطو ں کے وقت میں خود مو وجو د تھا ، ایک سفید جھوٹ ہے ۔ اس حقیقت میں شک کی کو ئی گنجا ئش نہیں کہ دونوں دستا ویزات ،،الحاقِ بھا رت کی دستا ویز اور لا رڈ ماؤنٹ بیٹن کے نا م خط پر مہاراجہ کسی طور پر 26اکتوبر 1947کو دستخط نہیں کر سکتا تھا اس کا قریب ترین دن27اکتوبر 1947کی شا م ہو سکتا تھا اس لیے کہ 26اکتوبر کو مہاراجہ سری نگر سے جموں کے درمیا ن سڑک کے راستے سفر کر رہا تھا ۔سینئر وزیر ریا ستی امور وی پی مینن بھی 26اکتوبر کو نئی دہلی میں موجود تھا جہاں انہوں نے رات گذاری ۔کئی لوگوں نے انہیں وہا ں دیکھا تھا 26اکتوبر 1947کو سفر کرتے ہو ئے مہا را جہ کے ساتھ نئی دلی کے را بطے کو ئی ذریعہ نہیں تھا۔وی پی مینن اور اور مہر چند مہا جن 27اکتوبر کے دن کے دس بجے ہو ائی جہا ز سے نئی دہلی سے جموں روانہ ہو ئے ۔مہا را جہ ہری سنگھ نے 27اکتوبر دوپہر کے بعد اپنے وزیر مہا جن کے ذریعے دہلی کے مذاکرات کے با رے میں معلومات حا صل کیں ۔مرکزی نکتہ جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان دستا ویزات پر دستخط ریا ست جموں و کشمیر میں فوجی مداخلت کے بعد ہی ممکن تھے۔بھارتی افواج سری نگر ائیر پورٹ پر اتریں تو اس وقت جموں و کشمیر ایک خود مختار ریا ست تھی ۔اس کے بعد بھارت کا ریا ست کے ساتھ کسی طرح کا معا ہدہ یقینی طور پر فوجی دبا ؤ کی وجہ سے ہوا ۔اس لیے یہ با ت قطعی طور پر طے ہے کہ اس الزام سے بچنے کے لیے بھا رتی حکا م نے مہا را جہ کے خط اور الحا ق کی دستا ویز میں 26اکتوبر کا اندراج اپنی مرضی سے کیا ۔ان دستاویزات میں سب سے زیادہ اہم عنصر تاریخ کا اندراج ہے ۔اس کے غلط اندراج سے ان دستا ویزات کی آ ئینی حیثیت کی ساکھ بری طرح شکوک و شبہا ت کا شکا ر ہو جا تی ہے‘‘ ۔( بحوالہ الحا ق کا پورا ڈرامہ فراڈ تھا :پروفیر السٹر لیمب صفحہ 6تا 7)۔دوسری طرف ایک لمحے کیے کشمیر سے بھا رت کے الحا ق کو ما ن بھی لیا جا ئے تو الحا ق کی دستا ویز سمیت بھا رت کے تما م لیڈروں کے بیا نا ت اس الحا ق کو عارضی تسلیم کرتے ہیں اور تو اور اس وقت کے گورنر جنرل لا رڈ ما ؤمٹ بیٹن نے بھی اسے عارضی قرار دیا ہے ۔چنا نچہ انہوں نے ہری سنگھ کے نا م اپنے خط میں لکھا ہے:’’اپنی اس پا لیسی کے مطابق ہر ریا ست کے با رے میں جس کے الحاق کا فیصلہ متنا زع ہے ،اس کے الحا ق کا فیصلہ اس ریا ست کے عوام کی مرضی کے مطا بق ہونا چا ہیے ۔میری حکومت چا ہتی ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و اما ن بحا ل ہو ،ریا ست کے الحا ق کا فیصلہ عوام کی طرف رجوع کے ذریعے کیا جا ئے‘‘۔وزیرِ اعظم بھا رت پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیرِ اعظم پاکستان لیا قت علی خان کے نام اپنے31دسمبر 1947کے ٹیلی گرام میں لکھا ’’ ہماری یقین دہا نی کہ جیسے ہی امن و اما ن قائم ہو گا ہم کشمیر سے اپنی فو جیں واپس بلا لیں گے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام پر چھوڑیں گے صرف آپ کے ساتھ عہد نہیں ہے بلکہ کشمیر کے عوام اور پوری دنیاکے ساتھ ایک وعدہ ہے‘‘۔سلا متی کونسل میں جنوری 1948میں بھارت کے نما ئندے نے تقریر کرتے ہو ئے بھارت کی اس یقین دہا نی کا اعادہ کیا :’’ ہم اپنے ہمسائیوں اور پھر پوری دنیا کے ساتھ کشمیر کے تعلق کا مسئلہ اور پھر یہ سوال کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرے ،ہم نے اس با ت کا اقرار کیا ہے کہ ان امور کا انحصار کشمیری عوام کے آزادانہ فیصلے پر ہے جو امن و امان بحال ہو تے ہی کرلیں گے‘‘۔ (بحوالہ کشمیر ،تعارف و حقائق:ص 82.81)حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے غیرتمند عوام نے بھارت کے اس جھوٹے الحاق کو ایک لمحے کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان بھا رتی سامراج کے خلاف جدوجہد پہلے روز سے لے کر اب تک جا ری ہے ۔کشمیری ہر سال اس دن کو ’’یومِ سیا ہ ‘‘ کے طور پر اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ ان کی جدوجہد آزادی کے حصول تک جا ری و ساری رہے گی۔