موجودہ سیاسی خلفشار بالکل اسی طرح کا ہے کہ ایک ’’بہت بڑی وہیل مچھلی مضبوط جال میں پھنس جائے تو جال کو کھینچنے اور مچھلی کو کنارے پر لانے والے ملاحوں کو دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔وہیل مچھلی کو جال توڑنے اور شکنجے سے نکلنے کیلئے بے تاب تڑپ اور جدوجہد سمندر کے اس حصے میں طوفان کی سی حالت پیدا کر دیتی ہے۔اس طوفان میں چھوٹی کشتیاں ڈوبنے اور بڑے بڑے سمندری جہاز ہچکولے کھانے لگتے ہیں‘‘۔ بس ایسی ہی صورت حال پاکستان کی سیاسی سطح پر دیکھنے میں آرہی ہے۔ پہلی دفعہ کوئی سیاسی وہیل قانون کے شکنجے اور انصاف کے جال میں پھنس گئی ہے اب وہیل کی بے تابی اور نجات کی جدوجہد نے پوری سطح کو زیر و زبر کر رکھا ہے لیکن اس وہیل کو جونہی ساحل پر پٹخ دیا جائیگا تو جوار باٹا ختم ہوکر تہہ پر سکون ہوجائے گی وقتی اتھل پتھل سے مضطرب ہونے کی بجائے ملاحوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ جنہوں نے اتنی بڑی وہیل پر جال پھینکا ہے وہ اسے کنارے تک کھینچ لانے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔
عرض کیا تھا کہ جی ٹی روڈ پر راولپنڈی سے لاہور تک جانے والا جلوس آخری رعایت ہے جو پنجاب اور مرکزی حکومت کی طرف سے سابق وزیر اعظم کو دی گئی ۔وفاداری اور ذمہ داری میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے چنانچہ وفاداری پر ذمہ داری غالب نظر آتی ہے ۔صاحب اقتدار وفادار نہیں ہوتا بلکہ وہ وفاداری طلب کر تا ہے ۔نئے مقتدر کو یہ دائمی حقیقت سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔نیا منتظم اور مقتدر اگر جانے والے سے بہتر عقل اور انتظام و انصرام کا مالک بھی ہو تو اس کیلئے اپنی الگ شناخت بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ نواز شریف کے رخصت ہونے کے بعد پنجاب حکومت کا رنگ روپ اگرچہ کچھ اجڑا اجڑا اور دھیما پڑتا دکھائی دیتا ہے لیکن مرکزی حکومت میں شاہد خاقان عباسی کی کارکردگی سابق تجربہ کار وزیر اعظم سے کہیں بہتر ہے۔ پارلیمنٹ کا احترام، کابینہ کے اجلاس میں باقاعدگی، اجتماعی ذمہ داری کا احساس، اداروں میں ہم آہنگی کے علاوہ ملکی خارجہ حکمت عملی اور کارکردگی میں بھی نمایاں بہتری نظر آنے لگی ہے۔ دفاعی کمیٹی کے مسلسل اجلاس منعقد ہونے سے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد کے دوران متعلقہ محکموں کے سربراہوں کا ایک چھت کے نیچے جمع ہو کر مذاکرات کرنا اور امریکہ کے جارحانہ رویہ پر فدویانہ جواب دینے کی بجائے سرد مہری اختیار کرنا ایک شاندار حکمت عملی ہے۔ امریکہ کیساتھ آئندہ پاکستان کی منہ دکھائے کی سلام دعا کے علاوہ اور کوئی رشتہ نظر نہیں آتا۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ کے منفی نتائج عنقریب بھارت اور امریکہ کو خود بھی نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان کی امریکہ سے دوری کی وجہ سے علاقائی قوتوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہورہی ہے۔ امریکہ بہادر مشرق وسطیٰ کو اپنی پرانی محبوبہ ’’اسرائیل‘‘ کو خوش کرنے کیلئے زیر و زبر کر چکا ہے اور اب نئی محبوبہ ’’انڈیا‘‘ کو منہ دکھائی میں جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستوں کو غیر مستحکم کر کے نئی نویلی دلہن کو خطے کا نظام سونپنے کا خواب دیکھنے لگا ہے مگر روس، چین، پاکستان، ایران، ترکی کے درمیان قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ یہ قربت نہ صرف علاقے کو مستحکم کریگی بلکہ خطے کے معاشی مستقبل کو بھی تابناک بنادیگی۔ پاکستان کا خارجہ محاذ کسی حد تک بہتری کی طرف گامزن نظر آتا ہے۔ عین انہی دنوں ملک کا اندرونی امن و سکون سیاسی خلفشار کی زد میں ہے۔
اسلام آباد میں عمران خان کی طرف سے بلائے گئے تحریک انصاف کے کنونشن میں بعض سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدانوں سے ملاقات رہی۔ اس کے چند دن بعد لاہور میں فخر امام اور عابدہ حسین نے تجربہ کار پارلیمنٹیرین کو کھانے پر مدعو کر رکھا تھا دونوں محفلوں میں مستقبل قریب کی سیاست زیر بحث رہی۔ دوستوں کی اکثریت چند سال کیلئے ماہرین (ٹیکنوکریٹ) کی حکومت اور 2018ء کے انتخابات کے التواء کے نظریے یا شوشے سے متاثر نظر آئے۔ ویسے بھی آج کل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس موضوع پر زور دار مباحثہ جاری ہے لیکن بنگلہ دیش ماڈل یا مختلف شعبوں کے ماہرین کی دو تین سالہ حکومت کا خیال محض ’’ایں خیال است محال است وجنوں‘‘ قومی یا ماہرین کی حکومت کون بنائے گا اور کیوں؟ اگر آپ عدلیہ کی جانب دیکھتے ہیں تو آئین میں اس کی گنجائش ہے نہ عدلیہ کے پاس ایسا کوئی اختیار،آج کی اعلیٰ عدالتیں اپنے ماتھے پر کالک ملنے کو کبھی تیار نہیں ہونگی۔ اگر وہ کسی وجہ سے تیار ہو بھی جائیں تو ایسی حکومت کو سیاسی طاقت اور اختیار کون دیگا۔ عبوری حکومتیں ہمارے ہاں کبھی موثر اور طاقتور نہیں رہیں نہ عوام ان کا حکم مانتے نہ سول سروس انہیں گھاس ڈالتی ہے ایسی کمزور اور بے ماں باپ کے مردے کو فوج اپنا کندھا کیوں پیش کرے۔ فوج کو جس طرح کے حالات اور ذمہ داریوں کا سامنا ہے ان حالات میں اسے ایک طاقتور اور موثر جمہوری حکومت کی ضرورت ہے جو اپنے حصے کا کام سنبھالے تاکہ فوج یکسوئی کے ساتھ بیرونی خطرات سے نمٹ سکے ۔
تمام تر مشکلات اور خدشات کے باوجود قوم انتخاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگلے چند دنوں میں سیاست ’’سینیٹ انتخابات‘‘ پر مرتکز ہوجائیگی۔ نواز شریف بڑی حد تک غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ حکومت اگرچہ انہی کی پارٹی پر مشتمل ہے لیکن اس حکومت کے سارے سیاستدان ان کے ساتھ گھڑے میں گرنا پسند نہیں کریں گے۔ خصوصاً وہ گھڑا جو نواز شریف نے اپنے ہاتھوں کھودا ہے۔ اس میں ان کی جماعت کا کچھ لینا دینا نہیں۔ باقی لوگوں کو اپنی پارٹی اور سیاسی مستقبل کو بچانا ہے ان میں زمیندار اور دیہاتی پس منظر کے قائدین کی دیرینہ آرزو پوری ہورہی ہے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ نے نالائق اور بد عنوان شہری بابوئوں کو ان کے کندھوں پر سوار کر دیا‘‘۔ اب انہیں کندھے جھٹک کر ناروا بوجھ سے نجات کا موقع ملا ہے تو وہ اس بوجھ سے نجات کیلئے بے چین ہورہے ہیں۔ آئینی مدت سے زیادہ عبوری یا ٹیکنوکریٹ حکومت ہرگز کوئی آپشن ہی نہیں۔ وہ حالات کو سنبھال سکتی ہے نہ فوج کے لئے معاون اور سیاسی جماعتوں کو قبول ہوگی۔ بہترین آپشن نئے انتخابات ہیں وہ چند ماہ پہلے ہوں یا سینیٹ انتخاب کے بعد، سینیٹ انتخاب تک موجودہ حکومت کو مہلت دینا عمران خان کیلئے مشکل نظر آتا ہے جس کے پاس عوامی طاقت ہے اور مقبولیت بھی تو وہ سینیٹ میں مسلم لیگ کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی مہلت دیکر پانچ برس کیلئے خود کو مشکلات میں کیوں ڈالے۔ بہترین بلکہ واحد ترجیح انتخاب ہی ہوسکتے ہیں لیکن نواز شریف اور زرداری مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی بات نہیں ہے بلکہ دونوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کو ایسے انتخابات قبول کرنا مشکل ہے جس کا نتیجہ عمران خان کی کامیابی کی صورت میں نکلے۔ذاتی اقتدار کے علاوہ انکی ترجیح مارشل لاء ہو سکتی ہے تاکہ ان کے بیرون ملک ٹکے رہنے کیلئے قانونی جواز اور جمہوری ملکوں کی ہمدردیاں حاصل رہیںاور ان کے بیرون ملک اثاثے محفوظ ہوںکہ جمہوری اور قانونی حکومت کے ہوتے ہوئے عدالتی فیصلوں کے بعد وہ بیرون ملک اپنے اثاثے بھی بچا نہیں سکیں گے۔موجودہ حالات میں ان دونوں لیڈروں کی ترجیح مارشل لاء ہو سکتی ہے لیکن مارشل لاء خود پاکستانی عوام، تحریک انصاف اور فوج کی ترجیح میں کہیں نظر نہیں آتا۔ مارشل لاء کا فائدہ عوام کو ہے نہ کسی آئینی ادارے کو ہاں مگر اس سے تین افراد مستفید ہوسکتے ہیں۔ دونوں راندہ درگاہ سابق حکمران یا پھر وہ ایک شخص جس کو اس وجہ سے ترقی مل جائے گی۔