• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعتراف فضیلت۔ ڈاکٹر محمد ایوب قادری سہ ماہی ”اردو“ کی تقریب تعارف انجمن میں نقارخانے میں…جمیل الدین عالی

پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب قادری
(تاریخ وفات 25نومبر 1983ء)
جامعہ اردو کے ثمرات وقت کے ساتھ جب واضح ہوں گے تو یقینا وہ طبقے اپنے ضمیر میں قومی جرم کا احساس کریں گے جنہوں نے جامعہ اردو کے قیام میں روڑے اٹکائے اور آخری حد تک مخالفت کی اس گفتگو کا سبب منفرد محقیق‘ شفیق استاد‘ سابق صدر نشین شعبہٴ اردو وفاقی گورنمنٹ اردو کالج کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی یاد ہے ۔قادری صاحب زبان اردو کے ایسی مجاہد تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر سانس طلبا و طالبات کے لئے وقف کررکھا تھا۔ تحقیق ان کا پہلا عشق تھا جس میں تادم مرگ مبتلا رہے۔ قادری صاحب سے کئی مواقع پر علمی و ادبی معاملات پرمباحث رہے۔ محمد ایوب قادری 21 جولائی 1926ء کو بریلی شہر (بھارت) میں پیدا ہوئے جب کہ 57 سال کی عمر میں ٹریفک کے ایک المناک حادثے سے 25 نومبر 1983ء کو ہم سے بچھڑ گئے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب قادری کے علمی ورثے میں کم و بیش 22 مطبوعہ دقیق علمی کتب شامل ہیں۔ ایسے موضوعات جن سے علم پروری کے نئے فکری میدان محقق اور زبان اردو کے فروغ اور نفاذ کے لئے پیدا ہوئے۔ قادری صاحب کے قلم کا فنی کما ل ہے۔
مجھے اس اطلاع سے مسرت ہوئی کہ قادری صاحب کے صاحبزادے پروفیسر سعید حسن قادری جو شعبہٴ اردو‘ وفاقی جامعہ اردو عبدالحق کیمپس میں استاد ہیں۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں تصنیف و تالیف‘ مقدمہ نگاری اور تنقیدی موضوعات پر قلم کاری کے ساتھ ہیں(اردو کالج کراچی کے نامور اساتذہ‘ طلبہ کے تحقیقی و تصنیفی کاموں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ) پر پی ایچ ڈی کا اعلیٰ سطحی کام عزیزم پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی کی نگرانی میں کررہے ہیں۔امید ہے کہ اس طرح نئی نسل کو اردو کالج کی تحریک کے بارے میں جس کا نقطہ اوج جامعہ اردو کا قیام ہے جاننے کا نہ صرف موقع ملے گا بلکہ ان گوہر نایاب اساتذہ کے بارے میں آج کا طالب علم آشنا ہوسکے گا جنہوں نے صرف علمی و تحقیقی کاموں کو اپنے مقصد حیات بنایا( اردو کالج کے حوالے سے کوئی مواد علمی اور نادر تصویر جس کسی کے پاس ہو محقیق کو فراہم کرے)۔
ڈاکٹر محمد ایوب قادری جیسے گوہر نایاب اب کہاں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے عظیم لوگوں کو زندہ قوموں کے شایان شان یاد رکھا جائے۔کسی علمی ادارے‘ کسی بڑی شاہراہ یا کسی کتب خانہ کو انکے نام سے موسوم کرنے کے ساتھ ہی آرٹس کونسل اور دیگر فروغ علم کے ادارے ان پر علمی کانفرنس اور پروگراموں کا انعقاد کرکے علم دوستی کا حق ادا کریں۔
مولوی عبدالحق کی شخصیت سراپا خلوص ولگن تھی‘ انُہوں نے اردو زبان کو وہ عزت اور عظمت عطا کی کہ یہ آج چند بڑی ترقی یافتہ زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔مولوی صاحب نے تمام عمر اردو کی فلاح اور ترقی کے لئے صرف کردی بلکہ اپنی زندگی کی تمام پونجی اس پر قربان کردی۔ انُہوں نے اردو کی خدمت کو مقصد حیات اور نصب العین بنایا‘ شب و روز اردو کی ترقی کے لئے کوشاں رہے اور مرتے دم تک پاکستان میں اردو کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اردو کا دامن اب اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ یہ جدید سے جدید تر علم وفنون کی تدریس و تفہیم کی ضروریات پر پورا اترتی ہے۔ بلاشبہ مولوی عبدالحق کے علمی و ادبی‘ تحقیقی و تنقیدی اور لسانی حوالوں کا سورج اردو زبان و ادب کے آسمان پر پوری آب وتاب سے روشن ہے۔
گزشتہ دونوں دفتر انجمن میں سہ ماہی ”اردو“ کی تقریب تعارف منعقد ہوئی جس میں ملک کے نامور اہل علم و دانش نے اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا‘ افسوس کہ ناچیز اس سعادت سے محروم رہا کہ علالت نے اجازت نہ دی‘ بہرحال اس تقریب کا احوال پیش خدمت ہے۔
صدر انجمن ترقی اردو آفتاب احمد خان نے اپنے صدارتی خطاب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان اردو ہے۔ یہ ایک عالمی اور رابطے کی بہترین زبان ہے جو دنیا کے ہر گوشے میں بولی‘ پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لئے انجمن ترقی اردو پاکستان کا بڑا بامعنی اور بہترین کردار رہا ہے‘ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔انُہوں نے کہا کہ انجمن نے بابائے اردو کے سہ ماہی ”اردو“ کا نایاب انتخاب شائع کرکے ادب کے نوجوان تحقیق کاروں کے لئے ایک وسیع مواد فراہم کردیا ہے۔انُہوں نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ ادب اب مقبول نہیں بلکہ آج بھی ادبی جرائد مقبول ہیں، تحقیق اور تنقید کا عمل اب بھی جاری ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انجمن کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ انجمن کا سہ ماہی ”اردو“ کا انتخاب جو 1921ء سے 1925ء پر مشتمل ہے۔ تحقیق و تنقید کا اعلیٰ نمونہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انتخاب کرنا بہت قیمتی کام ہے تو اس کا سمجھ لینا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انُہوں نے کہا کہ لوگ ادب کے بارے میں آج بھی سنجیدہ ہیں اس سے استفادہ کرتے ہیں اور محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے بڑے ادق مضامین میں ہر بات سنتے ہیں اور کرتے ہیں۔ محمد احمد سبزواری نے کہا کہ سہ ماہی ”اردو“ مولوی عبدالحق نے 1921ء میں شائع کرنا شروع کیا تھا‘ یہ مولوی صاحب کی ہمت تھی کہ انُہوں نے اسے شائع کیا اور آج اس کا انتخاب ہمارے سامنے ہے۔ میں آج کل اردو الفاظ پر کام کررہا ہوں‘ مجھے ان مضامین سے بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے انجمن کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ آج ”قومی اردو“ سہ ماہی ”اردو“ اور پے درپے کتابوں کی اشاعت ‘ ان کی رونمائی‘ مذاکرے اور سیمینار منعقد ہورہے ہیں‘ میں اس کو انجمن کا زریں دور کہتا ہوں۔ انُہوں نے اس کے لئے آفتاب احمد خان‘ اظفر رضوی اور ناچیز کو مبارکباد پیش کی کہ آج سے 85 برس قبل کی یہ نایاب تحریریں ان بزرگوں کی ہیں جنہوں نے ادبی دنیا میں اپنے انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔
پروفیسر رئیس فاطمہ
پروفیسر رئیس فاطمہ نے کہا کہ سہ ماہی”اردو“ کے انتخاب میں جو کچھ ہے اس کی تاریخی حیثیت ہے‘ اس میں انگریزی ‘ فرانسیسی‘ہندی‘ فارسی اور اردو کا بہترین انتخاب پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں روسی ادیبوں کو فراموش کردیا گیا ہے۔انُہوں نے تجویز پیش کی کہ کتاب چھاپنا اچھا عمل ہے لیکن اسے فروخت بھی ہونا چاہئے۔ کراچی میں80 کالجز ہیں ان کی پرنسپل کو کالج کی لائبریری کے لئے دو کتابیں رعایتی نرخ پر فروخت کریں تو اس سے طالب علموں کو فائدہ ہوگا اور اس کارخیر میں اپنے عملی تعاون کا بھی یقین دلایا۔
ڈاکٹر شاداب احسانی
ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ سہ ماہی ”اردو“ کے انتخاب میں مرتبین کے نام دیکھ کر ہی مسرت ہوئی۔ انجمن کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس میں تخلیق‘ تحقیق اور تنقید کی ہر سطح پر معیارات کی بات کی ہے۔ اس انتخاب سے بہت سے ادبی گوشے نمایاں ہوتے ہیں۔ ایسے قیمتی ماضی کے سرمائے کو شائع کرنے کا اہتمام ہوتے رہنا چاہئے اور ایسے انتخاب کی بڑی گنجائش ہے۔انہوں نے بتایا کہ ”محاسن کلام غالب“ سب سے پہلے سہ ماہی ”اردو“میں شائع ہوا تھا۔
اظفر رضوی
انجمن کے نائب معتمد اعزازی اظفر رضوی نے کہا کہ اس صدی کی ابتداء میں جب بدیسی راج کے خلاف سیاسی شعور بیدار ہوا تو چند ایسے رسائل منظر عام پر آئے جو ادب اور سیاست کا امتزاج پیش کرتے تھے۔ وہ ادب کی کلاسیکی روایات کے عکاس بھی تھے اور سیاست کے جدید رجحانات کے علم بردار بھی۔ ان میں حسرت موہانی کا ”اردوئے معلی“، شیخ عبدالقادر کا ”مخزن“، دیانرائن نگم کا ”زمانہ“، ظفر الملک علوی کا ”الناظر“، سید سلیمان ندوی کا ”معارف“، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ”جامعہ“ وغیرہ شامل تھے۔ مولوی عبدالحق کا سہ ماہی ”اردو“ اس دور کے دیگر مذکورہ رسائل سے ان معنوں میں مختلف تھا کہ اس کا دامن سیاسیات سے خالی تھا‘ یہ خالص ادبی اور تحقیقی پرچہ تھا۔
لیکن مولوی عبدالحق”اردو“ کو ان عام رسائل کی روش سے ہٹ کر نکالنا چاہتے تھے جو اپنی پیشانی پر ”ادبی‘ اخلاقی‘ تاریخی‘ معاشی‘ سیاسی رسالہ کا لیبل چسپاں کرکے اس میں ہر قسم کا رطب ویابس‘ انمل اور بے جوڑ مضامین بھردیتے ہیں۔ انجمن ترقی اردو کے جس اجلاس میں ”اردو“ کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا اس کی روداد کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سہ ماہی ”اردو“ کو اکتوبر 1920ء سے جاری کرنا طے پایا تھا اور رسالہ اشاعت کے لئے تیار بھی کرلیا گیا تھا لیکن سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے اس کا اجراء التوا میں پڑ گیا اور یوں یہ رسالہ جنوری 1921ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ 17*23 سینٹی میٹر سائز کے 166 صفحات پر مشتمل تھا۔ سالانہ چندہ چھ روپیہ کلدار محصول ڈاک ملا کر آٹھ روپیہ کلدار (سکہ عثمانیہ میں ساتھ روپیہ اور مع محصول ڈاک نوروپیہ سکہ عثمانیہ) تھا۔ پہلے شمارے کے خریداروں کی تعداد 130 تک پہنچ گئی تھی۔ محمد مقتدیٰ خاں شیروانی کے زیر اہتمام انسٹی ٹیوٹ پریس علی گڑھ میں چھپتا تھا‘ کیوں کہ اورنگ آباد میں کوئی چھاپہ خانہ نہیں تھا۔ اس کی اشاعت کے لئے جنوری‘ اپریل‘ جولائی اور اکتوبر کے مہینوں کا پہلا ہفتہ مقرر کیا گیا تھا۔ سرورق پر لوح کے نیچے مقبرہ رابعہ دورانی کی تصویر اور اس کے نیچے ”انجمن ترقی اردو“ کا سہ ماہی رسالہ درج تھا۔ یہ رسالہ 1921ء سے مسلسل اب جاری وساری ہے اور اب سہ ماہی ”اردو“ کے 5 سالہ انتخاب شائع کئے جارہے ہیں جس کا پہلا انتخاب 1921ء سے 1925ء تک آپ کے سامنے ہے‘ جب کہ 1926ء سے 1930ء تک کا انتخاب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
شہاب قدوائی
اس موقع پر انجمن کے مہتمم ادبی اور شریک مرتب شہاب قدوائی نے کہا کہ بابائے اردو نے جب سہ ماہی ”اردو“ جاری کرنے کا ارادہ کیا تب ان کے سامنے متعدد رسائل وجرائد کی مثالیں تھیں۔ سب سے پہلے ”تہذیب الاخلاق“ جو سرسید نے جاری کیا مگر اس کے خریداروں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ ”معارف“ اور ”حسن“ کے بھی خریدار محدود تھے۔ ”دکن ریویو“ بھی بڑی آن بان سے جاری ہوا مگر یہ سارے رسائل و جرائد مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکے۔مولوی عبدالحق کے بقول انجمن ترقی اردو کے مقاصد میں ایک ”ادبی رسالہ“ کا شائع کرنا اول دن سے شامل رہا ہے۔ بابائے اردو نے سن 1921ء میں سہ ماہی ”اردو“ کے نام سے رسالہ جاری کیا۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خان
ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے شریک مرتب کی حیثیت سے سہ ماہی ”اردو“ کے انتخاب کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور کہا اتنا بتادینا ضروری ہے کہ جوحضرات ریسرچ کررہے ہیں وہ 1921ء سے لے کر 2009ء تک کے شماروں سے ہمارے کتب خانے سے پہلے ہی استفادہ کررہے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”انتخاب“ کے سہ ماہی شمارے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 1921ء یا 2009ء نوے سال کا اثاثہ ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اہم ترین مضامین کو اس طرح یکجا کردیا جائے کہ آج کے ریسرچ اسکالرز کے لئے یہ سود مند ثابت ہوجائیں۔ اس کے لئے ہم نے شاعری‘ ڈرامہ‘ فکشن‘ عمومی تنقید و تحقیق کے شعبوں سے متعلق مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ اگلی اشاعتوں میں ہم دیگر اصناف ادب سے انتخاب کریں گے۔ اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر بالخصوص1921ء سے لے کر آج تک ادب میں جوہری تبدیلیاں ہوچکی ہیں‘ ہر صنف ادب توانا ہے‘ ہیئت‘ اسلوب اور تکنیک میں تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں‘ فنی اصناف بھی وجود میں آچکی ہیں تو ہم نے چاہا کہ 1921ء سے لے کر 2010ء تک کے درمیان کی کڑیوں کو مربوط کریں تاکہ آج کی نسل کے اسکالرز جو شعبہٴ اردو سے منسلک ہیں یا جو تعلیمی اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں‘تمام تر درمیانی کڑیوں یا تخلیقی‘ تنقیدی وتحقیقی جہات سے روشناس ہوجائیں۔
ڈاکٹر صدف فاطمہ
ڈاکٹر صدف فاطمہ نے کہا کہ اردو ادب کا ایک اہم ذخیرہ اور وسیع سرمایہ سہ ماہی ”اردو“ کے انتخاب میں موجزن ہے۔انُہوں نے کہا کہ رسائل کے انتخاب پر مبنی کتب شائع کرنے کا رواج اور واضح رجحان کسی قدیم روایت کا حامل تو نہیں لیکن اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ انتخاب طلبہ‘ محققین ‘ اساتذہ و طلبہ سب کے لئے یکساں افادیت کا باعث ہے۔
تازہ ترین