کوئٹہ(امین اللہ فطرت ) بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمدنور مسکانزئی ٗ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ پر مشتمل لارجر بنچ نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق ڈومیسائل سرٹیفکیٹ مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ ’’پی آر سی ‘‘ کا متبادل نہیں ہو سکتا عدالت نے اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت کو ضروری قانون سازی کیلئے مارچ 2018ءتک مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ڈومیسائل کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے یا ملازمت کے حصول کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا ۔عدالت نے یہ حکم ڈومیسائل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے دیا۔عدالت نے کہا کہ لوکل اور ڈومیسائل کے مسائل پر متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر فریقین کے وکلاء کے دلائل تفصیل سے سنے گئے۔
واضح رہے کہ بلوچستان ایک کثیرا للسانی و نسلی صوبہ ہے جس میں بلوچ ٗ پشتون ٗ ہزارہ اور سیٹلرز آباد ہیں ۔ یہاں لوکل سرٹیفکیٹس ان افراد کو جاری کیا جاتا ہے جوکہ یہاں کے قدیم قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے قبائل کو محکمہ داخلہ ،حکومت بلوچستان نے باقاعدہ نوٹیفائی کیا ہے جبکہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ان لوگوں کو جاری کیا جاتا ہے جن کا تعلق ان قدیم قبائل سے نہیں ہے تاہم وہ بلوچستان میں مستقل قیام پذیرہیں جن کو عرف عام میں سیٹلرز کہا جاتا ہے۔ لوکل اور سیٹلرز کے درمیان کسی بھی مخصوص نشست یا پوسٹ کیلئے کوئی تمیز نہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ وہ متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کیا جانے والالوکل و ڈومیسائل پیش کرے ۔
عدالت نے کہا کہ پسماندگی کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں تعلیم اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں پیچھے رہے اور ایک معمول بن گیا کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس صوبے میں آتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں داخلہ لیکر صوبے اور وفاقی محکموں میں ملازمتیں حاصل کرتے ہیں اس صورتحال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو شخص کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا چاہتا ہو یا ملازمت حاصل کرنا چاہتا ہو وہ کسی بھی ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے وہاں کے مستقل رہائشی ہونے کا سرٹیفکیٹ پیش کرے لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ اس مقصد کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو کہ یہاں کے مسائلکی بنیادی جڑ ہے جس کا بلوچستان کے لوگ سامنا کر رہے ہیں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت بلوچستان نے لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا ایک طریقہ بنایا اور ان سرٹیفکیٹس کی اجرا کیلئے اضلاع کی سطح پر کمیٹی بنا دی گئیں ۔ تاہم ان سرٹیفکیٹس کی اجرا کیلئے کوئی قانون ٗ رولز اور ریگولیشن نہیں بنایا گیا اس لئے ان کو ڈپٹی کمشنر کے ایڈمنسٹریٹو اتھارٹی کے تحت جاری کیا جاتا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ 1951ء کے ا یکٹ سیکشن17کے تحت جاری کیا جاتا ہے جوکہ پورے ملک کیلئے ہوتا ہے اور اس کا کسی ضلع یا ملک کے مخصوص مستقل رہائشی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔عدالت نے توقع کا اظہا کیا مستقبل میں قواعد و ضوابط کے مطابق مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ ’’پی آر سی ‘‘کا اجرا کیا جائے گا معزز بنچ نے کہا کہ طویل بحث و مباحثے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے ڈومیسائل اور پی آر سی دو مختلف چیزیں ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال نہ کیا جائے عدالت نے کہا کہ 1951ءکا ایکٹ اور 1952ء کے رولز صرف ایک ڈومیسائل کے بارے میں ہے جو کہ پاکستان کے ڈومیسائل کے زمرے میں آتا ہے جوکہ اس کا کسی مخصوص صوبے ٗ ضلع یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
عدالت نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ اس مقصد کیلئے 31مارچ 2018ء تک یا اس سے پہلے وہ تمام اقدامات بشمول’’ضروری قانون سازی ‘‘ اٹھائے اس کے بعد تمام صوبائی اور وفاقی محکموں کے سربراہان ٗ تعلیمی اداروں ٗ کارپوریشنوں ٗ خودمختار و نیم مخودمختار اداروں کے سربراہان کسی بھی طالب علم یا امیدوار سے تعلیمی اداروں میں داخلے یا ملازمت کیلئے ڈومیسائل کو بطور ا ہلیت طلب نہیں کریں گے وہ صرف ’’پی آر سی ‘‘کا مطالبہ کریں گے ۔عدالت نے فیصلے کی کاپیاں چیف سیکرٹری بلوچستان ٗ ڈپٹی کمشنرز ٗ صوبائی سیکرٹریوں ٗ میڈیکل کالجوں کے پرنسپل ٗ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن حکومت پاکستان اسلام آباد کو بھجوانےکا حکم دیتے ہوئے درخواستوں کو نمٹا دیا ۔