• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدیبیہ پیپر ملز، نیب کی اسحاق ڈار کےخلاف 44ماہ بعد تحقیقات

اسلام آباد ( وسیم عباسی) قومی احتساب بیورو کو حدیبیہ پیپر ملز کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی وضاحت او روزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ازسرنو تحقیقات میں تین سال اور آٹھ ماہ لگ گئے، بدھ کو نیب کی جاری کردہ مختصر پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چوں کہ نیب کا اصل ریفرنس جس میں اسحاق ڈار سلطانی گواہ ہیں ، اسے لاہور ہائیکورٹ نے خارج کر دیا ہے، اسحاق ڈار کئے خلاف ملزم کے طور دوبارہ تحقیقات شروع کی گئی ہیں ،تا ہم بیورو نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ لاہور ہائیکورٹ نے جب 11مارچ 2014کو فیصلہ سنایا تو اس وقت کیوں ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کیا گیا، نیب کے تازہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈار کے خلاف مقدہ دوبارہ کھولنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا ، اب تک سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کیس خارج کرنے کے خلاف نیب کی کسی اپیل کو سنا ہی نہیں ۔جہاں تک سپریم کورٹ کے 28جولائی کے پانامہ آرڈر کا تعلق ہےسپریم کورٹ نے یہ نیب پر چھوڑ دیا تھا کہ کہ وہ اپیل دائر کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے ۔’اگر اور کب‘‘ کے الفاظ واضح طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں جب دی نیوز نے نیب کے ترجمان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیوں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی وضاحت میں 44ماہ لگا دیے گئے اور کیوں سپریم کورٹ کےحتمی آرڈر کے چار ماہ بعد تحقیقات شروع کی گئیں، انہوں نے کوئی رائے دینے سے انکار کر دیا، اس سے پہلے 20ستمبر کو نیب نے سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کی اپیل کی تھی، تین رکنی بینچ نے 13نومبر کو اس مقدمے کی سماعت کرنا تھی، لیکن یہ بینچ اس وقت ٹوٹ گیا جب اس کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اس سے الگ ہو گئے۔نیب کی پٹیشن سے الگ ہوتے وقت انہوں نے پانامہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا۔ 20اپریل کے فیصلے میں جسٹس کھوسہ نے 192صفحات کے نوٹ میں نیب کو حدیبیہ ریفرنس کیس میں ڈار کے خلاف کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی تھی،مقدمے کے فیصلے کے خلاصے میں انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار اس مقدمے کا ملزم تھا جو بعد میں سلطانی گواہ بن گیا،تا ہم اگر اس مقدمے کا پہلا فیصلہ کالعدم ہو جائے تو اس صورت میں ڈار کی سلطانی گواہ کی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی۔ تا ہم جسٹس کھوسہ کا 20اپریل کا نوٹ سپریم کورٹ کا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا.نیب نے دلیل دی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ریفری جج کے پاس اس کا اختیار نہیں تھا کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو مسترد کرے جس میں نیب کو دوبارہ تحقیقات شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
تازہ ترین