کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں میزباننے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ اسحاق ڈار کے دور میں ملک کے مالی معاملات میں بہتری آئی ،عالمی مالیاتی اداروں نے بھی پاکستانی معیشت میں بہتری کا اعتراف کیا ہے۔ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ پاکستان کو کل وقتی وزیرخزانہ کی اشد ضرورت ہے، اسحاق ڈار کا فی الحال وزارت خزانہ چھوڑنے کا فیصلہ مثبت اورا چھی خبر ہے۔پروگرام میں وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور ترجمان الیکشن کمیشن آف پاکستان ہارون شنواری نے بھی اظہار خیال کیا ۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئےمزید کہا کہ ساڑھے چار سال تک وزارت خزانہ چلانے والے اسحاق ڈار نے وزارت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے، مشکلات میں گھرے اسحاق ڈار نے وزارت سے کنارہ کشی اختیار کرلی، پاناما کیس فیصلے کے بعد جب اسحاق ڈار کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم آیا اس وقت سے آج تک اسحاق ڈار پر استعفے کیلئے پارٹی کے اندر اور باہر سے دبائو رہا،آج اسحاق ڈار نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط لکھ کر وزارت خزانہ کا قلمدان کسی اور کو دینے کا کہہ دیا، اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے ان کی یہ بات قبول بھی کرلی ہے، ہمارے پاس موجود اسحاق ڈار کے خط کے مواد کے مطابق اسحاق ڈار نے لکھا ہے کہ انہوں نے ستائیس اکتوبر کو تاجکستان میں ایک اجلاس میں شرکت کی، وہاں سے عمرے کی ادائیگی کیلئے گئے جہاں انہیں سینے میں تکلیف ہوئی جس پر اسحاق ڈار مقامی ڈاکٹر کے پاس گئے، مقامی ڈاکٹر نے انہیں امراض قلب کے ڈاکٹر کو دکھانے کیلئے کہا، جس کے بعد وہ 29اکتوبر کو پاکستان آنے کے بجائے لندن چلے گئے جہاں ان کی انجیوگرافی ہوئی، ڈاکٹرز نے چھ نومبر کو ایک بار پھر ان کا چیک اپ کیااور مزید ٹیسٹوں کیلئے کہا، اسحاق ڈار کا اگلا ٹیسٹ 27نومبر کو ہوگا، ڈاکٹرز نے اسحاق ڈار کو سفر نہ کرنے کی ہدایت بھی دی ہے، انہوں نے دس نومبر کو وزیراعظم ہاؤس میں اپنی میڈیکل رپورٹس بھجوادی ہیں، اسحاق ڈار نے اپنے خط میں معیشت کے حوالے سے وزیراعظم کو لکھا ہے کہ آپ جانتے ہیں 2013ء میں پاکستانی معیشت کا کیا حال تھا، پھر گزشتہ چار برسوں میں پاکستانی معیشت میں کس حد تک بہتری آئی اور اس کا اعتراف عالمی اداروں نے بھی کیا، اسحاق ڈا نے لکھا کہ 2013ء میں ملک میں انیس کھرب روپے ٹیکس وصول ہوتا تھا جو 2017ء میں بڑھ کر 33کھرب تک پہنچ گیا، ہر سال ٹیکس وصولی کی شرح میں 18فیصد کا اضافہ ہوا، اس دوران بجٹ خسارہ بھی تیزی سے کم ہوا، اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا، 2013ء میں زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات ارب ڈالر تھے جو 2017ء میں بڑھ کر 21 ارب ڈالر ہوگئے، جی ڈی پی گروتھ گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح پر آئی، 2017ء میں شرح نمو 5.3 فیصد ہوگئی، سی پیک کے کامیابی سے جاری منصوبے سے ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور برآمدات میں کمی کا مسئلہ رہا جس کیلئے سابق وزیراعظم نے خصوصی تعاون کیا، اسحاق ڈار نے خط میں بتایا کہ 27اکتوبر تک وہ اپنے تمام سرکاری معاملات واٹس ایپ، ای میل اور دیگر ذرائع سے چلاتے رہے، ساتھ ہی اسحاق ڈار نے لکھا کہ جولائی 2017ء کے بعد جو صورتحال بنی اس کا معیشت پر منفی اثر پڑا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ اب سے تین دن پہلے تک بھی جتنی بھی فائلیں اور معاملات تھے وہ اسحاق ڈار واٹس ایپ، اسکائپ کال اور ویڈیوکالز کے ذریعے نمٹاتے رہے،اسحاق ڈار لکھتے ہیں کہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ معیشت میں بہتری کیلئے کام کریں، اس لئے موجودہ صورتحال میں ان کی بغیر تنخواہ چھٹی منظور کی جائے اور وزارت چلانے کیلئے باقاعدہ انتظامات کیے جائیں یعنی کسی کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار پر استعفے کیلئے بہت زیادہ دباؤ رہا، ریفرنس دائر ہونے کے بعد کہا گیا کہ اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہوں گے یا وزارت چلائیں گے اس لئے وہ استعفیٰ دیں، جب اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد ہوئی تو ایک بار پھر استعفے کا مطالبہ سامنے آیا، اسحاق ڈار جب تین پیشیوں میں احتساب عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے تو احتساب عدالت نے انہیں مفرور قرار دیدیا، اس کے بعد اعتراض سامنے آیا کہ مفرور شخص کیسے وزارت خزانہ چلاسکتا ہے، نیب نے بھی اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی اور اب وزیرداخلہ کو اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہے،اسحاق ڈار کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی میڈیکل رپورٹس بھیجی ہیں جو عدالت میں جمع ہوئی ہیں اور لندن میں جعلی رپورٹس نہیں بن سکتیں، پاکستان کی ایمبیسی کے ذریعے ان رپورٹس کی تصدیق کروالیں کہ واقعی ان کی طبیعت خراب ہے یا نہیں، جیسے ہی ان کی طبیعت ٹھیک ہوگی وہ واپس آکر کیسز کا سامنا کریں گے، نیب نے حدیبیہ کیس میں اسحاق ڈار کے خلاف دوبارہ تحقیقات کا بھی فیصلہ کرلیا ، ایک بار پھر مطالبہ سامنے آیا کہ وزارت خزانہ ایک فل ٹائم جاب ہے، وزیرخزانہ احتساب عدالت اور نیب کے سامنے پیش ہوں گے، ای سی ایل میں ان کا نام ہوگا تو باہر جاکر میٹنگز کیسے کریں گے، ان سب کے ساتھ وزارت کیسے چلائیں گے، یہ دباؤ سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر سے بھی آیا، اسحاق ڈار صرف پارٹی کے سینئر رہنما نہیں نواز شریف کے رشتہ دار بھی ہیں۔