• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاکی نے غم دیا تو مجھے یاد آگئے...قصہ مختصر…عظیم سرور

پاکستان نے اولمپک گیمز میں اب تک صرف 3گولڈ میڈیل جیتے ہیں اور یہ تینوں گولڈ میڈل ہاکی ٹیم جیت کر لائی۔ اور یہ تینوں گولڈ میڈل فوجیوں کی حکومت میں آئے۔ ہاکی ٹیم نے پہلا گولڈ میڈل1960ء کے روم اولمپکس میں جیتا تھا‘ یہ ایوب خان کا زمانہ تھا۔ پھر 1968میں میکسیکو اولمپکس کا گولڈ میڈل بھی ایوب دور میں ملا۔ اس کے بعد تیسرا گولڈ میڈل 1984ء میں ضیاالحق کے دور میں جیتا گیا۔ پاکستان نے اولمپکس میں اب تک صرف 3گولڈ میڈل جیتے ہیں۔ اس پاکستان کی ایک ہاکی شخصیت ایسی بھی ہے جس کو3اولمپکس گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ شخصیت منظور حسین عاطف کی ہے۔ عاطف 1960ء کے اولمپکس میں فل بیک تھے۔ پھر1968ء کے اولمپکس میں وہ منیجر تھے ۔ 1984ء کے اولمپکس میں بھی ان کو منیجر کی حیثیت سے گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز ملا۔ عاطف نے روم اولمپکس فوج کے کپٹن کی حیثیت سے کھیلا تھا۔ وہ بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے۔ وہ پاکستان ہاکی میں ایک جینئس کا درجہ رکھتے تھے۔ کھیل کی حکمت عملی وضع کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
پاکستان کی ہاکی کو بام عروج پر پہنچانے والی ایک شخصیت ایئر مارشل نور خان کی تھی۔ ایسا منتظم پاکستان کی تاریخ نے کم دیکھا ہوگا۔ نور خان نے اسکوائش کے سربراہ کی حیثیت سے جہانگیر خان اور جان شیر خان کو روشناس کرایا اور اسکوائش پر پاکستان کی بادشاہت قائم کردی۔ کرکٹ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے اس ٹیم کی داغ بیل ڈالی جس نے آگے چل کر ورلڈ کپ جیتا ۔ عالمی کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کو روشناس کرانا بھی نورخان کا کارنامہ ہے۔ہاکی میں نور خان اپنے سیکریٹری کے طور پر عاطف کا انتخاب کیا اور پاکستان کا دامن کامیابیوں سے بھرنا شروع کردیا۔ دنیا کے ہاکی میں انہوں نے ہی چیمپئنز ٹرافی کا آغاز کیا اور ہاکی ورلڈ کپ بھی روشناس کرایا۔
1978ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد پاکستان نے پہلی اور دوسری چیمپینز ٹرافی جیتی۔ 1978ء کے ورلڈ کپ کے ہیرواصلاح الدین تھے۔ پہلی چیمپئنز ٹرافی ان کی قیادت میں اور دوسری منور الزمان کی قیادت میں جیتی گئی۔
نور خان اور عاطف ہاکی ٹیم میں سخت ڈسپلن کے حامی تھے۔ ایک میچ جیتنے کے بعد ٹیم کو ڈھیلا نہیں پڑنے دیتے تھے۔ وہ ہاکی کے تمام معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ 1981ء اور1982ء کی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی پوزیشن چوتھی رہی تو ان کو تشویش ہوئی۔ چنانچہ ٹیم سے پرانے کھلاری نکال کر نئے کھلاڑی لائے گئے۔ منظور جونیئر کو کپتان بنایا گیا اور 1983ء میں یہ ٹیم دوسرے نمبر پر آگئی۔ اس کے بعد نور خان نے عاطف کو لاس اینجلس اولمپکس کا منیجر مقرر کیا۔ پھر یوں ہوا کہ امریکی شہر میں پاکستان کی ٹیم نے گولڈ میڈل جیتا اور امریکی فضاؤں میں پاکستان کا پرچم لہرایاگیا کہ پاکستان کے قومی ترانے کی آواز گونجی۔ یہاں عاطف نے تیسرا اولمپکس گولڈ میڈل حاصل کیا۔
1948ء کے لندن اولمپکس میں پہلی بارکھیلنے والی پاکستان کی ٹیم جو علی اقتدار شاہ دارا کی قیادت میں گئی چوتھے نمبر پر آئی تھی اور اب 2012ء کے لندن اولمپکس میں پاکستان اس سے بھی نچلے نمبروں پر چلا گیا ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے انتخاب میں ناقص کھلاڑیوں کے انتخاب کی ذمہ داری چیف سلیکٹر حنیف خان نے قبول کرکے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی پر ناقدانہ نظر کی جاتی تو ٹیم میں ایسے کھلاڑی شامل نہ کیے جاتے جن کا کھیل اب قصہٴ پارینہ بن چکا ہے۔
اس مرتبہ ہم نے آسٹریلیا سے 7گول کھائے۔ مجھے دوسری چیمپئنز ٹرافی یاد آتی ہے کہ جب کراچی میں پاکستان نے آسٹریلیا پر 7گول کیے تھے اور اس پر صرف ایک گول ہوا تھا۔ آج پاکستان ہاکی ٹیم کے کوچ اختر رسول ہیں۔جو اپنے زمانے میں دنیا کے بہترین سینٹر ہاف تھے۔ لیکن اب وہ دنیا کے سب سے موٹے کوچ ہیں۔ اس وقت آسٹریلیا کی ٹیم کا کپتان چارلس ورتھ تھا۔ جو اب بھی اس طرح فٹ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کا کپتان سہیل عباس ایک وقت دنیا کا بہترین پنالٹی کارنر ایکسپرٹ تھا لیکن اب اس کا طلسم ختم ہو چکا تھا اور اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں یہ بات واضح ہوگئی تھی۔ اس طرح شکیل عباسی‘ ریحان بٹ اور دوسرے کئی کھلاڑی بھی ٹیم پر بوجھ بن گئے تھے جو گراونڈ میں ہے بے مقصد گشت کرتے نظر آئے تھے۔ ہاکی نے اپنے بہت سے پرستاروں اور محبت کرنے والوں کو غم دیا ہے۔ ایسے میں سنہری دور کے کئی اسٹار یاد آرہے ہیں۔ نصیر بندہ ‘ انوار احمد خان‘کڈی ‘ شہناز شیخ‘ عاطف‘ تنویر ڈار‘ رشید جونیئر‘ حسن سردار‘ سمیع اللہ ‘ خالد محمود‘ اصلاح الدین ‘ منور الزمان‘ حنیف خان ۔ سوچتا ہوں کیا ہاکی کو پھر کوئی نورخان ،کوئی عاطف ملے گا؟ یا ہمیں غم ہی ملتے رہیں گے…؟
تازہ ترین