ڈھاکہ کے معروف صحافی کھنڈکر غلام مصطفیٰ کے بعد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر کے لئے اسرار احمد کے صدر بننے کے لئے انتخاب کے سلسلے میں مجھے ڈھاکہ میں( مشرقی پاکستان) جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بہت بڑا حلقہ انتخاب میرا انتظار کر رہا تھا۔ ڈھاکہ روانہ ہونے سے پہلے اسرار احمد صاحب پانچ سیر انگور لینے گئے، میں نے انہیں کہا کہ چھوٹے کی بجائے بڑے انگور لانے تھے، انہوں نے کہا اس طرح ان کے بھاری ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ اسرار صاحب بہت سی باتیں بھول جانے کے عادی تھے، ایک مرتبہ معروف صحافی ایئر فورس کی وردی اور تھیلے کے ساتھ اسرار احمد صاحب کے پاس آئے تو پوچھا، منو بھائی کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ پاک ٹی ہائوس گئے ہیں۔ دوسری مرتبہ اسی حلیے میں وہ اسرار احمد کے پاس آئے تو پوچھا منو بھائی کہاں ہیں؟ اسرار صاحب نے کہا کہ بتایا تو ہے کہ وہ پاک ٹی ہائوس گئے ہوں گے۔جہاز میں سفر کے دوران میں نے دیکھا اور اسرار صاحب کو بتایا کہ باہر بہت گھنے بادل ہیں، انہوں نے کہا کہ ادھر کھڑکی میں میری سیٹ پر آ جائو، اور خود بیٹھ گئے۔ ہندوستان کے اوپر سے گزرتے ہوئے میں نے کہا کہ ہم اپنے دشمن ملک کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ ڈھاکہ پہنچنے کے بعد ہمارے استقبال کے لئے آئے ہوئے لوگوں میں دنیا کے معروف تیراک بروجن داس بھی موجود تھے، ہم ڈھاکہ ایئر پورٹ سے پریس کلب جانے کے لئے ایک گاڑی میں سوار ہوئے تو میں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میری گاڑی بروجن داس چلا رہے ہیں۔ ڈھاکہ پہنچ کر پہلے سے بھی زیادہ اخبار نویسوں کی تعداد دیکھنے میں آئی جو کہ صدارت کے انتخاب کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اسرار احمد نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مجھے بتایا کہ سلیم عاصمی کے بارے میں مجھے شبہ ہے کہ وہ میری بجائے آئی اے رحمان کو ووٹ دیں گے۔ میں نے کہا اسرار صاحب یہ سلیم عاصمی میرے ساتھ آپ کے پاس آئے ہیں۔ انہوں نے سلیم عاصمی سے معذرت طلب کی اور اپنی مہم میں مصروف ہو گئے۔عجیب بات ہے کہ انتخاب کی مہم میں اسرار احمد صاحب کے خلاف آئی اے رحمان کے دوست اخبار نویسوں نے بھی مہم شروع کر رکھی تھی لیکن اسرار احمد کامیاب رہے۔ سلیم عاصمی نے بھی انہیں ووٹ دیا اور یوں اسرار احمد کا بطور صدر پی ایف یو جے انتخاب ہو گیا۔ڈھاکہ میں اس قیام کے دوران میں نے بلبل اکیڈمی ڈھاکہ کی اسٹیج پر اداکارہ شبنم کو دیکھا جس کا نام اس وقت ’’جھرنا‘‘ تھا، یہ صحبت مجھے بہت پسند آئی اور میں نے رقاصہ بلبل سے بھی ملاقات کی اور ان کے فن کی تعریف کی، ڈھاکہ کے اس قیام کے دوران مجھے بہت سے مصووں اور فنکاروں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا۔ اس سفر کے تمام اخراجات میرے اخباری ادارے نے جو کہ ’’پی پی ایل‘‘ تھا برداشت کئے کیوںکہ اس وقت اخبار نویسوں پر اپنی برادری کے لوگوں کی خدمت کرنا ان کے فرائض میں شامل تھا اور یوں میں نے ڈھاکہ کا سفر کیا۔ اس کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مجسٹریٹ جعفری نے سرکاری راز افشا کرنے کے مقدمے میں مجھے بری کرنے کے حق میں استعمال کیا تھا۔ڈھاکہ کے اس سفر میں میری ملاقات صلاح الدین سے بھی ہوئی اور ان کی بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق بھی ہوا۔ یوں پہلی مرتبہ ہم فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی صدارت پر قابض ہوئے جو کہ اخبار نویسوں کی ایک نمائندہ تنظیم تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ اب اس قسم کی تنظیموں کا وجود باقی نہیں ہے اور یہ اخبار نویسوں کی بدقسمتی ہے۔ میرا یہ ڈھاکہ کا پہلا سفر تھا جو میں نے اسرار احمد کے ساتھ طے کیا۔ اسرار احمد کے دوست سید سلامت علی شاہ بھی اس سفر میں میرے ہمراہ تھے، جو کہ ہر قسم کی ناجائز حرکتوں میں شریک ہوتے تھے مگر بعد میں پاک باز ہو گئے۔