پنجاب کے معروف سرائیکی علاقے کے ایک بائیں بازو کے ترقی پسند گھرانے سے ابھر کر ممتاز صحافی کے مقام تک پہنچنے والے امتیاز عالم کی راہنمائی میں بننے والے سائوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے سلسلے میں مجھےدہلی بھی جانا پڑا بلکہ 12مرتبہ جانا پڑا۔ وہا ں سائوتھ ایشیا کے ایشیائی ملکوں اور ملحقہ آبادی کے اخبار نویسوں کا اجتماع تھا خاص طور پر سارک معاہدے کے اخبار نویسوں کی یونین کے ارکان موجود تھے، مجھے حسب معمول ایک ناگوار حادثے سے گزرنا پڑا، سارک کنٹری کے اخبار نویسوں کےاجتماع میں میٹنگ کے دوران میں بے ہوش ہوگیا، چند لمحوں کے بعد پتہ چلا کہ میں ایک ایمبولینس میں کہیں جارہا ہوں، تھوڑی دیربعد رام منوہر لویا ہسپتال میں داخل ہوا جہاںمجھے اس کمرے میں ٹھہرایا گیا جہاں اندراگاندھی نے اپنے بچوں کو جنم دیا تھا۔ اس ہسپتال کے علاج سے میری طبیعت کچھ ٹھیک ہوئی اور میں کانفرنس میں واپس چلاگیا مگر اس دورران ایک نرس نے جوکہ غالباً سکھ تھی مجھے رات کے وقت ایک گولی دی، میں نے پوچھا کہ یہ گولی میرے رات کو سونے کے لئے ہے؟ اس نے کہا نہیں، صبح جاگنے کے لئے۔یہاںکے ڈاکٹروں نے میری جسمانی حالت کی ایک خوبصورت رپورٹ تیار کی جو کہ بعد میں میرے معالجوں کے استعمال میں آئی۔ اس کانفرنس میں تجویز پیش کی گئی کہ SAFMAکے اس اجتماع کو SAFMAکے سرکاری متعلقہ ادارے کا نظریہ دیا جائے اس سلسلے میں فیصلہ SAFMA کی جنرل باڈی میں ہی ہوسکتا تھا۔ اس اجلاس میں میری سائوتھ ایشیا کے مشہور اخبار نویسوں کے ساتھ ملاقات ہوئی اور مجھے بہت سی معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر ہندوستان کے اخبار نویسوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے تعاون کی فضا پائی گئی۔ اگرچہ کچھ لوگ انتہا پسند بھی تھے مگر میںنے محسوس کیاکہ ہندوستان کے اخبار نویس اپنے فارن آفس کی پالیسی کی پابندی کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے اخبار نویس اس سے اختلاف بھی کرسکتے تھے اور اپنی ایک الگ آزادانہ پالیسی یا خیال بھی رکھ سکتے تھے بلکہ یہ صورتحال آج بھی موجود ہے اور ہمارے اخبار نویس اس کو اپنے عمل سے ثابت کر سکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں دیگر ملکوں کے اخباری نمائندے بھی اپنے ملکوں کی فارن پالیسی کی تائید کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ہسپتال سے ائیرپورٹ آتے ہوئے میں نے کچھ دقت محسوس کی اور میرے ساتھیوں نے میری مدد فرمائی۔ دہلی کے اسی سلسلے کے ایک اور اجلاس میں مجھے معلوم ہواکہ مجھے بہت سے معروف صحافیوں سے اور زنانہ صحافیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، ایک لڑکی مجھے بہت اچھی لگی، میں نے پوچھا تمہارا نام کیاہے؟ اس نے کہا، کوشلیا، میں نے کہا والد صاحب کا کیا نام ہے؟ اس نے کہا ایشور داس، پھر میں نے پوچھا کہ آپ سے کہاں ملاقات ہو چکی ہے؟ اس نے کہا ضلع میاں والی کے معروف اسٹیشن کلور کوٹ میں یہ ملاقات ہوئی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میری خود نویس داستان پڑھ چکی ہے اور جانتی ہے کہ مجھے کوشلیا بہت اچھی لگتی تھی۔ مجھے پتہ ہے وہ اسی حوالے سے بات کررہی تھی اور یوں میں اپنے حلقہ احباب میں اپنی گزشتہ زندگی کے چنداہم واقعات کو دہرانے اورسنانے کا ذمہ دار ہوا۔اسی طرح ہندوستان کے باقی دوروں میں مجھے کچھ نہ کچھ جسمانی نقصان پہنچا، امرتسر کے دورے میں، میں نجم سیٹھی اور انکی بیوی جگنو محسن کے ساتھ چائے پینے گیا، باہر نکلتے ہوئے مجھے سیڑھیاں دکھائی نہیں دیں اورمیںگر پڑا، محسوس ہواکہ میری ٹانگ کی ہڈی کو نقصان پہنچا ہے۔نجم سیٹھی مجھے اٹھا کر سکھوں کے ایک ہسپتال میں لے گئے جہاںمیرے ابتدائی معائنے سے پتہ چلاکہ میری کولہے کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور ڈاکٹروں نے کہا ہے اس عمر میں ہڈی کی مرمت کرنے کی بجائے ہڈی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ لاہور سے شہباز شریف نے کسی ذریعے سے مجھے فون کیااور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا پھسل گیا ہوں، انہوں نے کہا پھسلنا ہو تو اپنا ملک مناسب ہوتا ہے۔ میں نے کہا میں واپس آرہا ہوں، انہوں نے فرمایا شعیب بن عزیز آپ کو واہگہ بارڈر پر وصول کریںگے، میں نے کہانجم سیٹھی بھی میرے ہمراہ لاہور واپس آرہے ہیں۔واہگہ بارڈرپرجہاں میرے کاغذات کی پڑتال ہوئی یاسین خان صدر سندس فائونڈیشن اور شعیب بن عزیز بھی وہاںموجود تھے انہوں نے 1122کی گاڑی میں مجھے لیٹادیا مگر سردی بہت زیادہ تھی پھر بھی میں میو ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹر سعید قاضی کے پاس گیا انہوں نے میرا آپریشن کیا اور میری اصلی ہڈی کی جگہ مصنوعی ہڈی ڈال دی۔ امتیاز کی بات ہے کہ میں نے کچھ زیادہ تکلیف محسوس نہیںکی اور البرٹ وکٹر میں رات گزاری، اگلے روز 1122کے منیجر مجھے میوہسپتال سے میرے گھر ریواز گارڈن چھوڑ گئے اور یوں ہندوستان کےہر دورے میں جو کہ 12کی تعداد میں تھے کچھ نہ کچھ عارضہ اور بیماری کا اثردکھائی دیا۔ رام منوہر لویاکے ہسپتال کی رپورٹ میںشبہ ظاہر کیا تھاکہ میرے جسم میں کلاٹ ہے جو کہ میری صحت کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے، یہ رپورٹ لے کر میں نے کارڈیالوجی کےہسپتال میں اپنا معائنہ کروایا، مگر کسی کلاٹ کا شبہ ثابت نہ ہوسکا۔