عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے خطاب نے پاکستانیوں کی زندگیوں میں پوشیدہ ہلچل کو نمایاں کر دیا، عدل کے حصول میں طویل مسافتوں اور دلدلوں کی یادوں نے انہیں سیمابی حد تک اپنی محرومیوں، اپنی بے بسیوں اور اپنی بربادیوں کی داستانیں یاد دلا دیں، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیان کردہ حقائق سے ان کے بے شمار زخم پھر سے رسنے لگے ہیں، پھر سے آزاد پاکستان میں ان کی غلامی ایک سچائی کے طور پر مجسم ہو گئی، مجسم تو پہلے ہی تھی، بس چیف جسٹس کی صدا نے اس مجسمے کو پھر سے برہنہ کر دیا۔ حالات کی گرد میں جس کا پورا ڈھانچہ پوشیدگی اختیار کر چکا تھا، وہ حقائق، وہ صدا، عزت مآب چیف جسٹس کے یہ موقر الفاظ تھے۔ ’’عدلیہ پر دبائو ڈالنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔ آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے،عدلیہ کسی پلان کا حصہ ہے نہ بنے گی، حدیبیہ کیس کے فیصلے کا ان کو علم نہیں تھا، اتفاق سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے فیصلے کی تاریخ ایک ہی دن آ گئی، کسی کا زور چلتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ اس طرح سے نہ آتا، اگر ملک میں جمہوریت نہیں تو خدانخواستہ آئین نہیں، ہر جج قانون اور ضمیر کے مطابق فیصلے کر رہا ہے، فیصلے کی وجہ ٹھیک نہیں ہو سکتی لیکن پلان اور باز کہاں سے آئے؟ کس نے ہمیں کہا اس طرح فیصلہ کرو؟ عدلیہ کا ادارہ قوم کا بابا ہے جس کی عزت کرنا ہر بندے کا فرض ہے، آپ اپنے بابے کی ساکھ پر شک نہ کریں نہ گالیاں دیں، پوری ذمہ داری، امانت، دیانت اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں‘‘ اور مزید یہ کہ ’’مجھے مائی بھاگاں، غلام رسول، دین محمد، رحمت اللہ کا جو اپنی تین مرلہ کی کٹڑی کو حویلی سمجھتے ہیں اور اس مائی کا مقدمہ سننے کی بھی توفیق ملے جو بڑے عرصہ سے اپنی وراثت کے لئے لڑتی رہی ہے کیونکہ اس کا خاوند بہت جائیداد چھوڑ گیا تھا۔ مائی لڑتی رہی، نیچے بھی ہارتی رہی، پھر اوپر بھی ہار گئی اور جب سپریم کورٹ آئی تو وہ مائی نابینا ہو چکی تھی۔ ہم نے انصاف کیا مگر اس وقت تک اس کی جوانی ختم ہو گئی، وہ بھائی کے گھر جا کر رُل گئی تھی اور اس کا بھائی بھی اندھا ہو چکا تھا۔‘‘
اور عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کو پاکستان کی اس ’’مائی بھاگاں‘‘ کی مفصل کہانی سے جزئیات سمیت کس طرح سنائی جائے، یہ تو 70برس کے طویل سایوں تک پھیلی ہوئی ہے، پھر وہ اپنے خیالات کے بیانئے کے دوران میں وکیلوں سے بھی مخاطب رہے، یہ ایک اور باب ہے، جسے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی ’’تحریک بحالی‘‘ نے جنم دیا، افتخار محمد چوہدری کی تحریک بحالی، کو ’’آزاد عدلیہ کی تحریک بحالی قرار دیا گیا، نواز شریف کے باعث دایاں بازو اس کے تمام مذہبی اور غیر مذہبی اجزا مشرف کے مخالف تھے، انہوں نے حسب عادت، حسب تاریخ اور حسب ریکارڈ اپنے شورو غوغا متشدد تحریروں اور رویوں سے آسمان سر پہ اٹھا لیا، دیکھا دیکھی دائیں بازو سے چمٹے ہوئے لوگ بھی افتخار محمد چوہدری کی ’’تحریک بحالی‘‘ کو ’’آزاد عدلیہ کی تحریک بحالی‘‘ ڈیکلیئر کر کے اس میں شامل ہو گئے، اجتماعی امیج ایسا بن گیا، بی بی شہید کو بھی سابق چیف جسٹس کے گھر جا کے اس ’’تحریک بحالی عدلیہ‘‘ کی عظمت اور حمایت کا اعلان کرنا پڑا، جب افتخار محمد چوہدری کی ’’بحالی‘‘ پر چھائی گھٹائیں دور ہوئیں، ان کے سنہرے مستقبل کا سورج طلوع ہو گیا۔ اس کے بعد ’’ایک وکیل‘‘ ابھرا، وہ وکیل تھا جس نے عدالتوں کے اندر، عدالتوں کے احاطوں، ججوں کے کمروں اور بار کونسلوں میں ’’بعد از افتخار چوہدری‘‘ ایک تاریخ مرتب کی، یہ تاریخ پاکستان کے وکلاء کی اس تاریخ کے قطعی برعکس تھی جسے ہم ’’افتخار محمد چوہدری‘‘ کی بحالی سے پہلے کے ’’وکیل‘‘ کا عنوان دے سکتے ہیں، اب عزت مآب چیف جسٹس نے ان وکلاء سے اپیلیں کی ہیں۔
عاصمہ جہانگیر اور اعتزاز احسن جیسے آئینی اور قانونی اثاثوں نے ان کی تقریر پر ’’عدالتوں پر اعتماد وضاحتوں سے نہیں فیصلوں سے قائم ہوتا ہے‘‘ اور ’’عزت ہوتی ہے کروائی نہیں جا سکتی‘‘ جیسے ردعمل سے پاکستانیوں کو آشنا کر دیا معلوم نہیں اس ردعمل میں کس نے کس کا احترام ملحوظ رکھا، عزت مآب چیف جسٹس کو سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدل کے ایوانوں کی حالت زار پر ان کے احساس کرب و بلا کا سن کر یہ تجویز دے دی ’’چیف جسٹس 14,12ججز کو بٹھائیں اور اپنے تمام غلط فیصلوں سے رجوع کریں‘‘، کوئٹہ سے ہمیشہ ہی اپنے ضمیر کے قیدی علی احمد کرد، اپنی روایت کے علم تھامے ان سب سے الگ اور ان سب سے آگے نظر آئے، عزت مآب چیف جسٹس کے حوالے سے ان کا کہنا حقیقت کو گردن سے پکڑ کر کھڑا کر دینے کے مترادف تھا، وہ بولےبہت افسوسناک بات ہے، مجھے دکھ ہے اور لوگوں کو بھی دکھ ہو گا، چیف جسٹس آف پاکستان اگر صفائی دینے پر آ جائے تو اس کا مطلب معاملہ بہت بگڑ چکا ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی عدالتی سسٹم نہیں ہے، عدالتوں کی خوبصورت عمارتیں بنانے سے لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، پاکستان میں کہیں پر کوئی انصاف نہیں، چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ کہنا درست نہیں کہ عدلیہ پر آج تک کوئی اثر انداز نہیں ہوا، میں نے سپریم کورٹ کے تمام متنازع فیصلے جلائے تھے جنہیں کبھی کسی وکیل نے ریفر نہیں کیا، ’’کرد کے اس مکالمے نے ذہن میں ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ تازہ کر دیا جس کی بے گورو کفن میت آج تک تاریخی دھبے کے دھوئے جانے کی منتظر ہے، جس کے مقدمے کی نظیر، قانوناً کسی عدالت عدالتی فورم پر پیش کرنے کی ممانعت ہے۔
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے فرمودات کو ماضی کے عدالتی حصار سے باہر نکل کر دیکھنا چاہئے، دوسری صورت میں ان کے فرمودات کا وزن نہیں اٹھایا جا سکے گا، کسی بھی پاکستانی کی سماعت سے جب ان کا یہ قول ’’عدلیہ پر دبائو ڈالنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا‘‘ ٹکرائے گا وہ اس ذہنی تشنج کا شکار ہوتا رہے گا جس کے سامنے عدل کا چہرہ مسخ ہوا، جس نے اسے بالآخر افتخار محمد چوہدری کی ’’بحالی‘‘ کے بعد اس گروہ کے سامنے کر دیا جس کے ہاتھ وقت کے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تک لمبے ہیں ۔
’’مایوسی کفر‘‘ اور ’’جدوجہد برحق‘‘ لیکن ان قوموں کیلئے جنہیں قدرت کے قوانین کا پاس ہو، جو کسی ایسے علاقے کے مکین نہ ہوں جو موت سے نہیں ڈرتے مگر زندگی کا احترام بھی نہیں کرتے، اپنے وطن کے آئینی سفر میں ووٹ کے ذریعہ آئینی انتقال اقتدار کی منزل کھوٹی کرنے کیلئے اسمبلیوں سے ’’متوقع استعفوں‘‘ جیسے نفس پرستانہ اشتعال کی کثافت کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے، وطن کا آئینی ارتقا اور اس کے دوش پر مصائب سے نجات ان کا ذاتی زوال اور ان کے لئے مصائب کی بنیاد ہو، عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان برحق ہیں، افسوس وقت کا گجر اس ’’حق پرستی‘‘ کے لئے اپنا دامن وا کرنے کو تیار نہیں، دوبارہ اظہار الحق ہی ؎
حصار چاٹتے رہنا ہے کار بے مصرف!