• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2017میں رونما ہونے والے واقعات سے تقریباً سبھی واقف ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زندگی کے بہت سے سال رُخصت ہوتے وقت ایسی داستانیں رقم کر گئے جن کے حروف زمانوں کی دُھول میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں، کہتے ہیں کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، عرصہ پرانی بات کل کی بات لگتی ہے، میں اِس فلسفے کے برعکس سوچتا ہوں، میرا کہنا ہے کہ وقت اپنی پرانی رفتار سے ہی آگے بڑھ رہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ موجودہ دور کی ایجادات کی جدت نے ہمیں ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ ’’وقت بہت تیز رفتاری سے گزر رہا ہے‘‘، ہمیں ایسا اِس لئے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے جب ہم خط لکھتے تو وہ خط دو ہفتوں تک مطلوبہ جگہ پر پہنچتا تھا، پھر کچھ دن وہ خط پڑھا جاتا اُس کے بعد جواب تحریر کیا جاتا اور پھر کئی دنوں بعد وہ جواب ہم تک پہنچتا، تب تک ہم جوابی خط کا انتظار کرتے، مگراب یہ وقت ہے کہ ہم وٹس ایپ، میسنجر، اسکائپ یا موبائل فون پر اپنا پیغام لکھ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہماری وہ تحریر پڑھی جا رہی ہوتی ہے اب تحریر کا اتنی تیزی سے ٹارگٹ تک پہنچنا اور چند سیکنڈز میں جواب آجانا اِس سسٹم کو ہم وقت کی تیزی کہنے پر مجبور ہیں کیونکہ اِس عمل میں انتظار کی لذت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ آج کا دور جدیدیت کی انتہا کا دور ہے، پہلے اخبار میں بیان دینے والا ’’مُکر‘‘ جایا کرتا تھا کہ یہ بیان میں نے نہیں دیا، لیکن اب ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں بیان سے ’’مکرنے‘‘ والے سیاستدانوں کو اُسی وقت اُن کے چند دن پہلے دیئے گئے بیان کی ریکارڈنگ دکھا دی جاتی ہے، ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان تو اپنے چہروں کو بالکل سپاٹ اور شرمندگی کے تاثرات سے عاری رکھتے ہیں لیکن نئے اور ناتجربہ کار وں کے اُترے ’’چہروں‘‘ پر اُبھرنے والے تاثرات دیکھ کر ٹیکنالوجی کو بھر پورداد دینی پڑتی ہے۔ دو دن پہلے رُخصت ہونے والے سال کے کچھ واقعات اور ’’ڈائیلاگ‘‘ اتنے مشہور ہوئے کہ انہیں پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ تارکین وطن پاکستانیوں کی بھی پذیرائی حاصل رہی۔ گو نواز گو، رو عمران رو، مجھے کیوں نکالا، میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا جیسے ڈائیلاگ تو پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر تھے اِن واقعات اور ڈائیلاگ پر اگر فلم بنائی جائے تو وہ باکس آفس پر ’’سپر ڈوپر‘‘ ہٹ ہوگی۔ ہمارے سینئر سیاستدان شیخ رشید اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا ’’ ٹاکرا ‘‘ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، شیخ رشید کہتے ہیں کہ تحریک انصاف ایک تانگے کی چند سواریوں پر مشتمل جماعت ہے، دوسری طرف سے عمران خان وار کرتے ہیں کہ یا اللہ مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان نہ بنانا، اب2017کی کرامت دیکھیں کہ دونوں سیاستدان آج یک جان ہیں، یہ بھی ہمیں ٹیکنالوجی نے ہی دکھایا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب 2013کے انتخابی جلسوں میں اِس وجہ سے ’’مولا جٹ‘‘ مشہور ہوئے کہ انہوں نے ’’بڑھک‘‘ ماری تھی کہ آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا، ایک ایک پائی وصول کروں گا اُس کا گریبان ہوگا اور میرا ہاتھ، ایسا تو نہ ہو سکا لیکن 2017میں ہم نے پھر کرامت دیکھی جب آصف زرداری کہہ رہے تھے کہ میں شریف برادران سے ایک ایک پائی کا حساب لوں گا، شریف برادران نے حساب کتاب لینے کے نعرے سے اپنی حکومت پوری کر لی، شاید اب زرداری یہ نعرہ اِس لئے لگا رہے ہیں کہ وہ ایک بار پھر سے اقتدار میں آکر حکومت کرسکیں وہ بھی پانچ سال، انہیں کسی نے سمجھا دیا ہے کہ عوام گریبان پکڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے جیسے نعروں اور ڈائیلاگ پر ووٹ دیتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں ہی کہا تھا کہ لندن تو کیا ہمارے پاس پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں، اُن کے بھائی نے کہا کہ الحمدللہ ہمارے پاس بھرپور جائیداد ہے، اب اِن دو متضاد بیانات سے ہمیں روشناس کرایا ٹیکنالوجی نے اور یہ کرامت بھی ہمیں رُخصت ہونے والے سال نے دکھائی۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے بیان دیا کہ بے نظیر بھٹو کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے قتل کرایا، جس کے جواب میں پرویز مشرف نے لمبی چوڑی تقریر جھاڑ کر اپنی بے گناہی اور آصف زرداری کے گنہگار ہونے کا عندیہ دیا، یہ سب کچھ بھی ہم تک2017اور ٹیکنالوجی کی وساطت سے ہی پہنچا۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ختم نبوت بل میں ترمیم کرنے پر اسلام آباد میں دھرنا دیا، تمام ذمہ داروں کے استعفوں کا مطالبہ کیا، جذبات میں مولانا خادم رضوی نے دورانِ خطاب بہت سے نازیبا الفاظ کہے، تمام گناہگاروں کو چھوڑ کر ایک وفاقی وزیر کا استعفیٰ لینے پر اکتفا کیا، دھرنے میں شامل لوگوں کو ’’زاد سفر‘‘ کے لئے کچھ پیسے دلوائے اور دھرنا ختم کر دیا، یہ سب کچھ بھی2017میں ہوا، پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو پانامہ لیکس اسکینڈل میں سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا، انہیں وزارت عظمی کا عہدہ چھوڑنا پڑا، اِس سزا میں وہ مسلم لیگ ن کی صدارت سے بھی فارغ ہوئے، پھر ایک قرارداد پیش ہوئی، اور لیگی ایم این ایز نے مل کر انہیں دوبارہ مسلم لیگ کی صدارت کا عہدہ واپس دلوا دیا، جس عوام کا پیسہ لوٹ کر دوسرے ممالک میں آف شور کمپنیاں بنانے کے الزام میں نااہل ہوئے تھے عدالت کے اِس فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف اپنا کیس لے کر اُسی عوام میں آگئے، شاید اِس لئے کہ جس عوام کا پیسہ ہے اب میرا کیس بھی وہی لڑے، یہ سب کچھ ہمیں 2017اور ٹیکنالوجی نے ہی دکھایا، محترم سراج الحق، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، فاروق ستار، رانا ثنا اللہ، سمیع الحق، پیر خواجہ حمید الدین سیالوی اور چوہدری شجاعت حسین کے بیانات اُن پر کب تک قائم رہنا، اور کب مکر جانا، سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کو ’’جوائن‘‘ کرنا یہ کہہ کر کہ عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ کر رہا ہوں جب یہ سب کچھ ہوا تو اُس وقت سیاستدانوں کے چہروں کے اُتار چڑھاؤ ہمیں 2017اور ٹیکنالوجی نے مل کر دکھائے، جس کے لئے ہم سال گزشتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے بے حد مشکور ہیں۔ قارئین آئیں سب میرے ساتھ مل کر یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نئے سال میں ایسے حکمران ’’تحفتاً‘‘ عنایت کر دے جو بات یا وعدہ کریں تو اُس پر ’’اڑ‘‘ جائیں، دُنیا کی کوئی طاقت یا لالچ انہیں بیان یا سیاسی پارٹی بدلنے پر مجبور نہ کر سکے، قارئین آئیں ہم سب 2018کو ویلکم کہیں، کیونکہ اِسی سال سینیٹ کے ساتھ ساتھ قومی انتخابات بھی ممکن ہیں، اور یہی موقع ہے اللہ سے جرات مند، بہادر، سچا، کھرا، نڈر، عوام کا خیرخواہ اور خوف ِ خدا رکھنے والا حکمران مانگ لیا جائے، دعا کریں کہ اللہ ہمیں اِس قابل بنا دے کہ ہم برادری، تعلقات، محلے داری اور ذاتی پسند نا پسند کو چھوڑ کر اچھا حکمران منتخب کرنے کیلئے ایمانداری کا مظاہرہ کریں، آئیں اِن دعاؤں کیساتھ 2018کو ویلکم کہیں۔
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے نیا سال سب کو راس آئے.

تازہ ترین