میں جب کبھی طاہر القادری صاحب کا نام نامی اسم گرامی اپنے نوکِ قلم پر لاتا ہوں، تھوڑی دیر کے لئے کنفیوژ ہو جاتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان کے نام سے پہلے علامہ لکھوں، شیخ الاسلام لکھوں، پروفیسر لکھوں یا مولانا لکھوں، سوائے مولانا کے قادری صاحب کو سب القابات منظور ہیں کیونکہ وہ مولانا کہلانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ دنیا ان کے بارے میں جو چاہے کہے، وہ میرے پسندیدہ ’’کریکٹر‘‘ ہیں۔ میں نے ایسے بہت سے کریکٹر اپنے ٹی وی ڈراموں میں انٹرو ڈیوس کروائے ہیں جو بہت مقبول ہوئے ہیں۔ مثلاً پروفیسر اللہ دتا اداس، آفٹر آل میں داماد ہوں، جواد جی، کاکا منہا، شیدا ٹلی، انکل کیوں وغیرہ وغیرہ۔ مگر ابھی تک میں قادری صاحب کا کریکٹر کسی ڈرامے میں نہیں لا سکا حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کے لئے مجھے اپنی قوتِ متخیلہ سے کوئی کام نہیں لینا پڑے گا۔ میں علی اعجاز کو اپنے ڈرامے میں کاسٹ کروں اور انہیں مکالمے لکھ کر دینے کی بجائے قادری صاحب کی مختلف مواقع پر کی گئی مولا جٹ ٹائپ تقریروں کے اقتباسات علی اعجاز کی نذر کر دوں، اس کے بعد باقی کام علی اعجاز کا ہے۔ ناظرین کو بہت عرصے بعد ایک سپر ہٹ ڈرامہ دیکھنے کو ملے گا۔
میں نے گزشتہ دنوں قادری صاحب کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں نعوذ باللہ رسولِ اکرم ﷺ انہیں کہتے ہیں کہ قادری تمہاری عمر بہت کم ہے اور تم بہت جلد فوت ہو جائو گے اس وقت ان کی عمر 45برس تھی، قادری صاحب کہتے ہیں حضورؐ میں ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ اتنے میں عزرائیلؑ قادری صاحب کی روح قبض کرنے کے لئے آ جاتے ہیں اور حضورؐ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ حضورؐ اسے کہتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے پاس جائو اور میری طرف سے گزارش کرو کہ قادری کی عمر میں کچھ اضافہ کیا جائے۔ عزرائیل واپس آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قادری صاحب کو ایک سال کی ایکسٹینشن دے دیتا ہے۔ میں اس بے ہودہ من گھڑت واقعہ کو لمبا نہیں کرنا چاہتا، قصہ مختصر حضورؐ عزرائیلؑ کو تین بار اللہ تعالیٰ کے پاس اس شخص کی عمر میں توسیع کے لئے بھیجتے ہیں اور بالآخر 63برس پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے اور بہت سے واقعات جو قادری صاحب نے اپنی زبان سے بیان کئے ہیں اور ہر نئے رویا میں اپنے پہلے رویا کی تردید کرتے ہیں، ان کے خلاصہ سے ایک ایسا کریکٹر تیار کیا جا سکتا ہے جس کا حافظہ بے پناہ ’’سچ‘‘بولنے کی وجہ سے بہت کمزور ہے۔ تاہم ڈرامے میں اس کریکٹر کا تانا بانا مقدس شخصیات سے جوڑنے کی بجائے ان کے کسی مرشد کی ذات سے جوڑا جائے کیونکہ اس طرح کے واقعات سراسر توہین رسالت کی ذیل میں آتے ہیں اور اس بدبختی کا ارتکاب کوئی بدبخت ہی کر سکتا ہے۔
تاہم موصوف کی اس طرح کی خرافات سے قطع نظر ان کے سیاسی ڈرامے بھی الفرڈ ہچکاک کی کسی فلم سے کم سسپنس کے حامل نہیں ہیں۔ وہ ایک دھرنے کے دوران کہتے ہیں جو یہ دھرنا چھوڑے اسے گولی مار دی جائے خواہ یہ دھرنا میں ہی کیوں نہ چھوڑوں مگر وہ دھرنا درمیان ہی میں چھوڑ دیتے ہیں اور واپس اپنے وطن عزیز کینیڈا لوٹ جاتے ہیں۔ پی پی پی کی حکومت میں وہ حکومت کو چند گھنٹوں کے اندر اندر مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دیتے تھے اور پھر واپس کینیڈا چلے جاتے تھے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور آرمی چیف کے علاوہ سب کو استعفیٰ دینے کی ڈیڈ لائن دی جسے ابھی تک کوئی سیریس نہیں لے رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نام نہاد شخصیت کی قیادت عمران، زرداری وغیرہ نے بھی قبول کر لی ہے اور ایک ’’زبردست‘‘ تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ساری صورت حال میں یہ سمجھ نہیں آتی کہ انسان ہنسے یا روئے اور یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ ایک غیرملکی کو ملکی سیاست کو تہ و بالا کرنے کی کوششوں کی اجازت کس قانون کے تحت دی جاتی ہے۔ ایک شخص جس کے پاس اسمبلی میں کوئی سیٹ نہیں، وہ کروڑوں عوام کی منتخب حکومت کو چیلنج کرتا ہے اور وہ سب سیاسی جماعتیں جو کل اس کا مذاق اڑاتی تھیں، آج اس کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔ یہ جماعتیں اس شخص کے پیچھے جتنی چاہے سیاسی نمازیں پڑھیں، ان میں سے ایک نماز بھی قبول نہیں ہونی۔ بقول اقبال؎
تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر.