• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈرڈ کانفرنس اور آرمی چیف کا جرأت مندانہ موٴقف...نشیب و فراز…عباس مہکری

امریکا ایک بار پھر پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا‘ امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن‘ امریکی فوج کے سربراہ جنرل پیٹریاس اور دیگر اعلیٰ حکام مسلسل یہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان کے حقانی گروپ اور دیگر انتہا پسند گروپوں بشمول لشکر طیبہ اور کوئٹہ شوریٰ اور دیگر کے خلاف کارروائی نہ کی تو امریکی فوج پاکستان میں کارروائی کرسکتی ہے۔ امریکا پاکستان پر یہ بھی الزام عائد کررہا ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے اور خصوصاً کابل میں حملہ آئی ایس آئی کی مدد سے ہوا ہے۔ امریکا یہ بھی باور کرا رہا ہے کہ پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد مذکورہ بالا انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی سے مشروط ہے۔
اس مرتبہ امریکی دھمکیوں کے آگے پاکستان نے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں۔ اس سے نہ صرف قومی افتخار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ قوم کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک طرف تو امریکی دھمکیوں اور الزامات کو مسترد کردیا ہے اور دوسری طرف یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر امریکی فوج کی دراندازی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ورنہ آج سے دس سال پہلے امریکی وزیر دفاع کا ایک فون آیا تھا اور اُس وقت کے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی سامراجی جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا تھا۔ فیصلہ پہلے کرلیا گیا تھا اور پاکستانی قوم کو بعد میں بتایا گیا کہ امریکی دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں شامل ہوگیا ہے۔ اُس وقت امریکا نے کیا دھمکیاں دی تھیں؟ یہ ایک راز ہے۔ پاکستانی قوم کو بتایا گیا تھا کہ ”امریکا نے بات نہ ماننے پر پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دینے کی دھمکی دی تھی۔“ بعدازاں امریکی حکام اس کی تردید کرتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک فون پر گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور پوری پاکستانی قوم کو ایک عذاب میں مبتلا کردیا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔
ایک چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف تھے اور دوسرے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں‘ جنہوں نے 16 ستمبر 2011ء کو اسپین کے شہر میڈرڈ میں ”نیٹو ڈیفنس چیف کانفرنس“ میں یہ واضح کردیا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فیصلے قومی مفادات اور عوامی اُمنگوں کے مطابق کرے گا۔ اس کانفرنس میں ایڈمرل مائیک مولن بھی بہ نفس نفیس موجود تھے۔ اُن کے علاوہ نیٹو ممالک کی افواج کے سربراہان بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ سب کے درمیان کھڑے ہوکر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سفارت کاری کی زبان میں یہ باور کرا دیا کہ پاکستان کسی کی ڈکٹیشن نہیں لے گا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات اور عوامی خواہشات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دے۔ پاکستانی فوج دہشت گردی کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھے گی لیکن اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فیصلے قومی وقار اور عوامی اُمنگوں کے مطابق کیے جائیں گے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ 3 ہزار سے زائد فوجی افسروں اور جوانوں اور 25 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں نے اس جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ میڈرڈ کی نیٹو کانفرنس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے پاکستان کا اصولی مٴوقف جرأت مندی سے پیش کرنے پر پوری قوم کا سرفخر سے بلند ہوگیا ہے اور لوگوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ عوامی اُمنگوں اور فوجی قیادت کی سوچ میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو پاکستان اُس عذاب سے نکل سکتا ہے‘ جس میں وہ امریکا کا اتحادی بننے کے بعد مبتلا ہوا تھا۔ امریکا نے پاکستان میں جمہوریت کو نہیں پنپنے دیا‘ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف سازشیں کیں اور پاکستان کو سیاسی‘ اقتصادی اور تہذیبی بحرانوں اور داخلی عدم استحکام سے دوچار کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یہ بات کہنے کی طاقت اس لیے ملی کہ اُنہوں نے بحیثیت آرمی چیف ملک کے جمہوری عمل پر مداخلت نہیں کی اور اُن کی پشت پناہی ایک جمہوری حکومت کررہی ہے۔
پاکستان کے خلاف امریکا کا یہ پروپیگنڈہ غیر منطقی ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز بھی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دیگر انتہا پسند گروپوں کو افغانستان یا دیگر ممالک میں دہشت گردی کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ اس لیے اُن کے خلاف کارروائی سے احتراز کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف ایک ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ حقانی نیٹ ورک‘ کوئٹہ شوریٰ‘ لشکر طیبہ اور دیگر انتہا پسند گروپوں کی پاکستان میں موجودگی اور اندرونی اور بیرونی رابطوں کے بارے میں کئی سوالات اور مفروضے پائے جاتے ہیں۔ امریکا پاکستان کے زمینی حقائق کو نظر انداز کررہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستانی افواج کو اپنے لوگوں کے ساتھ لڑا دیا جائے اور ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرکے پاکستان کی ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف عالمی سازشوں کو علمی جامہ پہنایا جائے۔ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی دی ہیں لیکن پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی اندھی ڈکٹیشن نہ لے اور اپنے داخلی استحکام اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف پیدا کیے جانے والے حالات کا مقابلہ کرے۔ یہی بات ایک امریکی دانشور نے بھی کی ہے۔ ”کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس“ نامی ایک ادارہ امریکی تھنک ٹینک کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے وائس پریذیڈنٹ جارج پرکووچ نے حال ہی میں ایک مقالہ تحریر کیا ہے‘ جس میں اُنہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکا پاکستان پر ایسی جنگ لڑنے کے لیے دباؤ نہ ڈالے‘ جو پاکستان نہیں لڑنا چاہتا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں (امریکیوں کو) یہ کوشش ترک کردینی چاہئے کہ پاکستان افغانستان یا شمالی وزیرستان میں جنگ لڑے۔ اس کے لیے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ افغانستان میں بھارت کی موجودگی سے پریشان ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر پاکستان نے فاٹا اور وزیرستان میں فوجی کارروائیاں کیں تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ امریکی امداد کے لیے فوج یہ کارروائیاں کررہی ہے۔ اس سے امریکا کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کے خلاف بھی نفرت پیدا ہوگی۔ جارج پرکووچ نے اپنے ایک انٹرویو میں اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ امریکا اور بھارت آزاد بلوچستان کے لیے مدد کررہے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے جارج پرکووچ امریکا اور بھارت کی صفائی کیوں پیش کررہے ہیں‘ اس کے اسباب کا پتہ چلانا مشکل نہیں لیکن اُن کا یہ تجزیہ درست ہے کہ پاکستانی افواج شمالی وزیرستان اور فاٹا میں مزید پیش قدمی کرتی ہیں تو نہ صرف امریکا کے خلاف نفرت پیدا ہوگی بلکہ پاکستان میں بھی فوج مخالف جذبات پیدا ہوسکتے ہیں اور پاکستان کی دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ ایسا ہو۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان میں امریکا کے خلاف بہت نفرت ہے۔ لہذا آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کا یہ مٴوقف حق بجانب ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کے مطابق پالیسی تشکیل دینے کا حق رکھتا ہے۔
کابل کے حملوں میں آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کا پروپیگنڈہ بھی ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ یہ پروپیگنڈہ اُس وقت کیا جارہا ہے۔ جب ممبئی حملوں میں بھارتی باشندوں کے ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں اور بھارتی وزیر داخلہ چدمبرم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ اب بھارت پاکستان پر الزام عائد نہیں کرسکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور کئی واقعات کی تحقیقات کے بعد یہ حقیقت سامنے آنے لگی ہے کہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے کبھی بھارت کے خفیہ ادارے بھارت اور افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اور کبھی امریکی اور اسرائیلی خفیہ ادارے ان کارروائیوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے رونما ہونے والے بے شمار واقعات ایسے ہیں‘ جن میں امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ثابت ہوا ہے اور طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے کیونکہ طالبان کا کام ذمہ داری قبول کرنا ہے اور ان واقعات میں لوکل ایکٹر کے طور پر کام کرنا ہے۔ پاکستان اب اُس دہشت گردی کے خلاف لڑتا ہے‘ جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ اس دہشت گردی نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے‘ وہ بھی پاکستان کو ایک بحران میں پھنسانے کے لیے ہے۔ امریکا پاکستان کا ناقابل اعتبار دوست ثابت ہوا ہے۔ اُس سے یہ بھی بعید نہیں ہے کہ وہ سرجیکل آپریشن کے نام پر پاکستان میں دست اندازی کرے۔ پاکستان کو ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ میڈرڈ میں آرمی چیف نے جو مٴوقف اختیار کیا ہے‘ پاکستانی قوم اس پر اُن کے ساتھ ہے۔
تازہ ترین