بھارت میں عورتوں کے حقوق کی ایک تنظیم نے ایک مظاہرے میں پلے کارڈ پر ایک نعرہ کچھ یوں درج کیا تھا۔ ہم صنف نازک محفوظ نہیں پیدائش سے پہلے یا پیدائش کے بعدـ بھارت کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک کم ہے۔ پوری دنیا کے ترقی پذیر ممالک، بشمول مسلم دنیا، میں بھی کل آبادی میں عورتوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ سب سے پہلے واضح کرلیں کہ قدرت کے نظام کے تحت پیدائشی طور پر ایک لڑکی کی عمر لڑکے کے مقابلے میں تین سے چار سال زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے اگر بیٹی اور بیٹے سے مساوی سلوک کیا جائے تو کسی بھی ملک میں عورتوں کی شرح کم ازکم 51 فیصد ہونی چاہئے۔ بدقسمتی سے دنیا کے پسماندہ ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا میں بیٹی کو ایک بوجھ اور ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے Gender Issuesکی ریسرچ بتاتی ہے کہ بیٹی کی پیدائش کے فوری بعد وہ جنسی امتیاز کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش کے بعد زچہ یعنی ماں کو بھی اسی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پرورش کے دیگر مراحل میں بھی بیٹی کو اسی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں جہیز کی لعنت وہ ظالمانہ رسم ہے جس کی وجہ سے بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ جہیز مکمل ہندوئوں کی رسم ہے۔ واضح رہے کہ ہندومت کے مطابق بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اس لئے جہیز لازما دیا جاتا ہے۔ جب کہ اسلام بیٹی کو جائیداد میں لازماً حصہ دیتا ہے نہ کہ جہیز۔ مزید واضح رہے کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت بھی اسی لئے ہے کہ نظام قدرت نے عورتوں کی شرح مردوں سے زیادہ رکھی ہے یعنی اگر آپ بیٹی اور بیٹے کو یکساں تسلیم کریں تو 100 مردوں کے مقابلے میں کم از کم104 عورتیں ہوں گی۔ اسی طرح ایک اور انڈیکیٹر کا اندازہ شرح خواندگی سے لگایا جا سکتا ہے تیسری دنیا کے تمام ممالک میں عورتوں کی خواندگی کی شرح واضح طور پر کم ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی عورتوں کی شرح خواندگی مردوں کے مقابلے میں کم از کم20 فی صد کم ہے۔ مزید یہ کہ ا ن ممالک میں ملکوں کی کل جائیدادوں کا دس فی صد سے بھی کم عورتوں کے نام ہوتا ہے۔ الیکشن لڑنے اور پارلیمان میں منتخب عورتوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ معاشی تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں عورتوں کو کم معاوضہ ملتا ہے۔ آپ نے حال ہی میں شاید خبر سنی ہوگی کہ آئس لینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں عورتوں کو مردوں کے برابر معاوضہ دینے کا قانون لاگو ہوا ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی ضمنی الیکشنز میں بعض علاقوں میں عورتوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی گئی جو یقیناً قابل تشویش بات ہے۔ قارئین! انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں سوائے، دو چھوٹے ممالک، بوسنیا اور البانیہ کے جو کہ یورپ کا حصہ ہیں ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں عورتوں کی شرح مردوں سے زیادہ ہو۔ صرف ملائشیا، ترکی، انڈونیشیا اور ایران وہ بڑے اسلامی ممالک ہیں جہاں عورتوں اور مردوں کی شرح برابر ہے۔ گویا ان ممالک میں بھی تاحال ایک فی صد خواتین جبراً کم ہیں۔ مسلم ممالک، انڈیا اور دیگر پسماندہ ممالک میں عورتوں کی شرح کم ہونے کی وجہ سے جب پوری دنیا کی آبادی کا مجموعی موزانہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی کل آبادی میں عورتوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جبری اقلیت ہے۔ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951کے مطابق ملک کی کل آبادی میں عورتوں کی شرح، مردوں کی55 فی صد، کے مقابلے میں صرف45فی صد تھی۔ ملک کی1961کی دوسری مردم شماری کے مطابق یہ شرح بڑھ کر بمشکل 46 فی صد ہو سکی۔ ملک کی اگلی مردم شماری 1972کے مطابق یہ شرح معمولی سی بہتر ہوئی۔ اس طرح1998 کی مردم شماری میں عورتوں کی شرح 48فی صد ہو سکی جو تاحال 2017کی مردم شماری کے مطابق 49 (48.77)فی صد ہو سکی ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق مردوں کی تعداد عورتوں سے50لاکھ زیادہ ہے۔ اس کا مطلب بڑا واضح ہے کیونکہ کسی بھی ملک میں صنف نازک کی شرح کم از کم 51فی صد ہونی چاہئے۔ مگر یہ تا حال49 فیصدہے۔ لہٰذا مجموعی طور پر 21کروڑ کی آبادی والے ملک میں ایک کروڑ بیٹیاں (مرحوم) گم شدہ ہیں۔ اب آپ خود سوچئے کہ کم ا زکم ایک کروڑ بیٹیاں کیوں اور کیسے مار دی گئیں۔ کیا زینب جیسی ان بیٹیوں کا ذکر بھی سنا ہے آپ نے؟ ذکر تو دور کی بات ہمیں زینب جیسی ان لاکھوں جبراً مرحومہ بیٹیوں کا ادراک بھی ہے؟ اور یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کو کب مارا گیا پیدائش سے پہلے یا بعد میں؟