پاکستان میں بیوروکریسی اور پولیس کا نام سنتے ہی عوام کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں خاص طور پر جب خود حکومت پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہی نہیں ثبوت بھی سامنے آچکے ہوں ، چیف جسٹس اور ان کے ججز اتنے کیس سن چکے ہیں اور کئی کیسز میں تو وزراء بھی جیل جا چکے ہیں اور اربوں روپے کی وصولیابی بھی کرائی گئی ہو تو پھر نچلے درجے کے ایماندار افسران تو اب شاید شاذو نادر ہی ملیں گے مگر ایسا نہیں ہے ۔ مجھے اکثر کراچی میں اور پاکستان کے دیگر شہروں میں نہایت ایماندار، پڑھے لکھے، مہذب پولیس افسران اور سول بیوروکریسی سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ایماندار افسران اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے جارہے ہیں مگر پھر بھی ان کا دم غنیمت ہے اور ایسے حکمران انتہائی نڈر اور بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں انہیں کسی کا کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا ۔ ایسے ہی ایک پڑھے لکھے سرکاری افسرسے ملاقات ہوئی ان کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ گزشتہ ایک سال سے وہاں ڈی سی او لگے ہوئے ہیں ان کا نام نسیم صادق ہے ۔ انہوں نے اس ایک سال میں فیصل آباد کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجھے اتفاق سے ڈیڑھ سال قبل کام کے سلسلے میں فیصل آباد جانا پڑ گیا ایک رات ٹھہرنے کا بھی پروگرام تھا مگر وہاں پہنچ کر افسوس ہوا کہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر ، ٹریفک بری طرح پھنسی ہوئی اور جگہ جگہ بے ہنگم ٹھیلے، اسکوٹر اور گاڑیوں کی راستوں میں پارکنگ انکروچمنٹ کی وجہ سے عوام سڑکوں پر پیدل چل رہے تھے، دھول اور مٹی سے اٹے ہوئے بازار دیکھ کر رات رکنے کے بجائے رات کی فلائٹ سے واپسی کو غنیمت جانا اور رات رکے بغیر دوست سے معذرت کر کے کراچی لوٹ آیا ۔ مگر اس مرتبہ جب فیصل آباد میں داخل ہوئے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی شہر ہے جسے صرف ڈیڑھ سال قبل دیکھ کر واپس جانے کو دل چاہ رہا تھا مگر اب سڑکیں صاف ستھری جہاں پہلے ہم گھنٹہ بھر میں پہنچے تھے اس مرتبہ وہاں صرف 10منٹ میں بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے ۔ ہر طرف صفائی ستھرائی صاف فرق بتا رہی تھی۔ میرے دوست جن سے میں پچھلی مرتبہ ملنے گیا تھا نے بتایا جب سے ڈی سی او صاحب نے چارج سنبھالا دن رات لگا کر کچھ حکومت کے بجٹ سے اور کچھ شہر کے مخیر تاجر اور صنعت کاروں کی طرف سے مل ملا کر اس شہر کا نقشہ بدل ڈالا۔ میرے ادارے نے بھی دیگر اداروں کی طرح کچھ باغات، راوٴنڈ اباوٴٹ گود لے کر اس شہر کی صفائی ستھرائی میں اپنا حصہ اور کردار ادا کیا اور ایک بہت بڑا پارک جو بنجر پڑا تھا گود لے کر دوبارہ پبلک کے استعمال کے قابل بنایا اور ڈی سی او صاحب کی دعوت پر اس باغ کا افتتاح وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے کرایا اور مکمل ہونے پر مجھ سے تختی کشائی کرائی ۔ یہ پارک خود ڈی سی او صاحب نے چند ہی ماہ میں ہمارے تعاون سے دن رات کھڑے ہو کر جہاں دیگر پارک اور سڑکیں، پل وغیرہ بنوارہے تھے اس کو بھی تکمیل کر کے شہر کے عوام ، بچوں اور عورتوں کی تفریح کا بندوبست کر کے عوام کے دل جیت لئے ۔ موصوف کے متعلق معلوم ہوا وہ صبح سے لیکر پچھلی رات 3 بجے تک سرکاری کاموں میں مصروف رہتے ہیں تمام عملہ کو بھی رات گئے تک کام کرنا پڑتا ہے اس کی وجہ جب افسر عوام کی خدمت میں مصروف ہو تو اس کے ماتحت یقینا ہڈ حرام نہیں ہوسکتے ، نہایت ایماندار افسروں میں ان کا شمار ہوتا ہے جس کا اعتراف وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کئی موقعوں پر اظہارِ خیال کر چکے ہیں۔ میں نے بھی ان کے ساتھ چند گھنٹے ساتھ رہ کر محسوس کیا کہ اتنے پارک ، سڑکیں اور پل صرف ایک سال کی مدت میں تکمیل نہیں کئے جاسکتے جب تک ان کے سر پر کوئی بڑا نہ کھڑا ہو اور ساتھ ساتھ مضبوط،خوبصورت بھی ہو یہی ان کا کمال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دفاتر ہر وقت اور ہر ضرورت مند کے لئے کھلے ہوئے ہیں کسی کو روک ٹوک نہیں ہے وہ خود عوامی کچہری لگاتے ہیں، ان کے مسائل حل کرتے ہیں اس وجہ سے فیصل آباد کے عوام ان سے گھل مل کر اپنے اپنے مسائل حل کراتے ہیں۔ اس وجہ سے آئے دن کی ہڑتالیں، جلوس، نعرہ بازی سب ختم ہوچکی ہیں، ظاہر ہے کہ جب علاقے کے ذمہ دار افسران عوام کی باتیں خود سنیں گے اور حل کریں گے تو یقینا عوام خود ان کی عزت کریں گے اور یہ افسران نیک نامی بھی کمائیں گے ۔
مجھے نسیم صادق سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور میری دعا ہے کہ کاش ہمارے حکمران بھی اسی جذبہ اور ایمانداری سے عوام کے مسائل حل کریں تو پاکستان پر کوئی بری نظریں نہیں ڈال سکتا اور عوام بھی امن و امان سے زندگی چین سے گزاریں گے۔
اسی دور ے میں مجھے وہاں کے سی پی ایل سی کے چیف جنید احمد سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا یہ نوجوان بھی ہمارے کراچی کے سی پی ایل سی کے چیف احمد چنائے کی طرح دن رات ایک کر کے عوام کو مختلف جرائم پیشہ لوگوں سے نجات دلوا چکے ہیں اور تقریباً صد فیصد اغوا برائے تاوان کیس حل کرا چکے ہیں ۔ ان کا دفتر فیصل آباد کے بیچ آبادی والے علاقے میں بہت نمایاں ہے 2ڈھائی سو کیس روزانہ ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی کوشش اور عملہ سے جن میں پولیس کی مدد شامل ہوتی ہے حل کراتے ہیں ۔ پولیس تھانوں میں جا کر ان کی ایف آئی آر اگر نہ کٹی ہو تو کٹوا کر ریکوری کراتے ہیں ان کی عوامی ٹیم بھی مقامی تاجروں اور صنعت کاروں پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنا وقت، پیسے اور مشورہ جو ضرورت ہو دن رات خدمتِ خلق میں لگ کر فیصل آباد کے عوام کی دعائیں سمیٹ رہے ہیں۔کوئی سرکاری پیسے نہیں ملتے یہ سب خود مل کر اخراجات اٹھاتے ہیں اب تک 10سال میں ہزاروں کیس ریکوری، اغوا برائے تاوان، عوامی جھگڑے بھی حل کراچکے ہیں۔ یہاں بھی عوام کی رسائی ڈائریکٹ چیف کے ساتھ رہتی ہے جس کی وجہ سے پولیس بھی تعاون کرتی ہے اور جرائم میں کافی کمی ہو رہی ہے اگر پاکستان کے دیگر شہروں کے افسران فیصل آباد کی مثال سامنے رکھیں تو ہمارا ملک بھی ایک مثالی ملک بن سکتا ہے۔