چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کہا ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، یہ تاثر بالکل غلط ہے، جمہوریت کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں۔ پاک فوج جمہوریت کی حمایت جاری رکھے گی۔ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے ۔اس قسم کی افواہیں اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کرم ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے دورے کے دوران وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے قومی اسمبلی میں بیان کے تناظر میں کیا اور کہا کہ ہمیں قوم کو درپیش مسائل سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئیں، ملک میں افواہیں پھیلانے والوں کو مایوسی ہوئی ہے، جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، ہم حلف کے مطابق ملکی دفاع کا فرض پورا کرتے رہیں گے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے بیان میں جو دو ٹوک، پراعتماد اور انتہائی عام فہم لب و لہجہ اختیار کیا اس نے فوج کے حوالے سے پھیلائے گئے تمام شکوک و شبہات کو نقش بر آب بنا کر رکھ دیاہے کیونکہ انہوں نے کوئی مبہم اور غیر واضح بات نہیں کی جو انتہائی حوصلہ افزا اور امید پرور صورتحال کے تاثر کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ اس سے ایک روز قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں جو ہمیں ہرگز قابل قبول نہیں۔ یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ جمہوریت چاہتے ہیں یا آمریت۔ ہم نے ہر مشکل وقت میں فوج کا ساتھ دیا ہے، یہاں بار بار جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی رہی۔ وزیراعظم نے کہا کہ فوج سمیت تمام ادارے حکومت کے ماتحت اور پارلیمینٹ کو جوابدہ ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ حکومت کے ماتحت نہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں کہ اگر ملک کا وزیراعظم یہ کہے کہ حکومت کوہٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں تویہ بلاشبہ بے حد تشویشناک بات ہوگی اس پرعوامی اور سیاسی حلقوں میں پریشانی اور تشویش کی کیفیت کا پیدا ہونا ناگزیر امر ہے۔ وزیراعظم نے اپنا موقف کھل کر اور دو ٹوک انداز میں پیش کیا تھا اب پاک آرمی کے سربراہ کی طرف سے اس حوالے سے جو بات کی وہ بلاشبہ بے حد اطمینان بخش اور تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کرتاہے یہ بلاشبہ ایک حوصلہ افزاء اور خوشگوار امر ہے۔ ملک کے تمام سیاسی حلقوں اور ق لیگ کے چودھری شجاعت نے بھی آرمی چیف کے موقف کو سراہا ہے۔ ہم ہمیشہ یہ موقف واضح کرتے چلے آ ئے ہیں کہ ملک کے اندر کوئی بھی ایسی قوت نہیں نہ ایسے عناصر اور عوامل کا وجود ہے اور نہ ہی پاک فوج کی طرف سے ایسا کوئی تاثر سامنے آیا ہے کہ کسی بھی ماورائے آئین اقدام کی تائید و حمایت کی جائے گی اور ملک کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی نہایت وضاحت اور دوٹوک انداز میں بار بار یہی بات دہرائی جارہی ہے اور اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ ہر ادارے کو اپنے اختیارات اور آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور کسی دوسرے ادارے کے معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ فوج اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی اور ہم جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے بالکل درست لیکن انہوں نے اس کے ساتھ اپنے بیان میں ایک اور بات بھی کہی ہے جو خصوصی طور پر توجہ طلب ہے وہ یہ کہ اس قسم کی افواہوں کا مقصد اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
یہ بیان ایسا ہے کہ اسے معروضی حالات، زمینی حقائق، قوم کو درپیش چیلنجز اور عوام کی مشکلات اور مسائل سے حکمرانوں کی عدم توجہی اور انہیں نظر انداز کر دینے کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ وسیع تر قومی اور ملکی مفادات کے حوالے سے قوم جن مسائل کافوری اور مستقل حل چاہتی ہے ان میں این آر او پر مکمل عمل درآمد، میمو گیٹ سکینڈل کی صاف و شفاف تحقیقات کے بعد اصل حقیقت تک رسائی پاکستان سٹیل ملز، ریلوے، اور پی آئی اے میں اربوں روپے کی کرپشن اورقومی وسائل کی لوٹ مار ملکی اور قومی مفادات کے برعکس امریکہ سے تعلقات اور دوستی کے رشتوں کا دعویٰ، پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو فوج کے حملے اور قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا تسلسل ان تمام مسائل پر حکومت کا عمومی ردعمل ملک و قوم کے ردعمل سے مختلف اور عوام کے جذبات کے مطابق نظر نہیں آتا ۔گویا حکومت ان مسائل کے پائیدار اور قومی و ملکی مفادات سے ہم آہنگ حل کے لئے کوئی موثر کردار ادا کرنا نہیں چاہتی۔
وزیراعظم نے حکومت کے خلاف سازش اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی بات تو کی ہے اور حکمران جماعت کی کور کمیٹی نے پارلیمینٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے اور ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے علاوہ آرمی چیف کے بیان کا بھی خیر مقدم کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ میمو پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمینٹ میں لے جایا جائے گا لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی پاکستان کی آزادی، سلامتی، خودمختاری، پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بات کرے تو حکومت اس کے خلاف اقدام میں ٹال مٹول کا مظاہرہ نہ کرے۔ اگر کسی سازش کا تذکرہ سامنے آتا ہے تو پھر اس کی مکمل تحقیقات بھی حکومت کی ذمہ داری ہے محض پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا اوراس میں پارٹی عہدیداروں دوسرے ارکان اور وزراء کی طرف سے حکومت کے حق میں آواز بلند کرنا اور صدر اور وزیراعظم کو یہ مشورہ دینا کہ آپ ڈٹ جائیں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ہی کافی نہیں۔ نہ ہی درپیش مسائل کے حل کے لئے حکومت کا کوئی عزم و ارادہ سامنے آتا ہے اگر واقعی حکومت کی بساط لپیٹنے کی کوئی سازش کی گئی ہے تو اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے، بالخصوص میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کو اولین ترجیح کے طورپر اختیار کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ معاملہ قومی سلامتی سے براہ راست متعلق ہے اوراس کے اثرات بہت دورتک جاسکتے ہیں۔ پوری دنیا اور ہر جمہوری معاشرے میں سیاست اور اقتدار کی تبدیلی کاراستہ آئین کا پابند ہوتا ہے سیاست اور حکومت ہمیشہ آئینی فریم ورک کے اندر رہ کر ہی اپنا تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے اور صرف اسی طرح ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور جمہوریت پرعوام کے اعتماد کو متزلزل ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
150 کھرب کی کرپشن ۔ بے رحمانہ تحقیقات کی ضرورت
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیٹو کنٹینرز سکینڈل میں ملزمان کی عدم گرفتاری پر دیئے جانے والے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ تفتیش صرف کاغذوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اس لئے ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ مقدمے کے سلسلے میں وفاقی ٹیکس محتسب سے رابطہ کر کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے مکمل ازالے کو یقینی بنایا جائے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کی تحقیقات کا یہ معاملہ اب صرف نیٹو کنٹینرز کو غائب کرنے تک ہی محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس کا دائرہ پاکستان ریلوے، پی آئی اے، این آئی سی ایل کے ای ایس سی واپڈا اور ایف آئی اے سمیت متعدد دوسرے وفاقی اور صوبائی اداروں تک پھیلایا جائے گا جہاں مبینہ طور پر 150 کھرب روپے کی بدعنوانی کی گئی ہے۔ پاکستان میں مختلف حکومتی اداروں میں کرپشن اور بدعنوانی کا زہر اس قدر پھیل گیا ہے کہ اس سے جسد قومی کا کوئی بھی عضو سلامت دکھائی نہیں دیتا اور یہی وجہ ہے کہ کوئی غیر ملکی سرمایہ کار تو درکنار کوئی مقامی سرمایہ کار بھی یہاں کسی قسم کی سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں اور جس تاجر اور صنعتکار کا بس چلتا ہے وہ اپنی دولت سمیٹ کر دوسرے ممالک کو سدھار جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے اسی صورتحال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب بیرونی ممالک کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد پر بھی یہ قدغن عائد کی جا رہی ہے کہ یہ امداد براہ راست پاکستان کو نہیں دی جائے گی اور اسے بھی ان ممالک کی قائم کردہ این جی اوز کے ذریعے ہی صرف کیا جائے گا۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام اداروں میں پائی جانے والی کرپشن کی بے رحمانہ تحقیقات کی جائے اور جو لوگ بھی اس میں ملوث پائے جائیں ان کو نہ صرف قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ ان کے اثاثے اور جائیدادیں فروخت کر کے یہ رقم واپس لی جائے کیونکہ 150 کھرب کی واپسی سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔