• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے بچپن میں پاکستان کے سیاسی حالات کو کئی بار بدلتے دیکھا، مختلف جماعتوں کو اقتدار سنبھالتے اور بہت سے سیاستدانوں کو اپنی پارٹیاں یہ کہہ کر بدلتے دیکھا کہ ’’میں اپنی وفائیں عوام کے مفاد کی خاطر تبدیل کر رہا ہوں‘‘ گلی اور ایک ہی محلے میں دو سیاسی پارٹیوں کے اُمیدواروں اور اُن کے حامیوں کو جیت کے لئے دِن رات کوششوں میں مصروف دیکھا ،سیاسی حامیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تو صرف یہ کہ ہم اپنی سیاسی پارٹی کا جھنڈا مدِ مقابل سے کہیں بڑا بنائیں گے اور اُسے بہت اُونچا لگائیں گے، انتخابی نشانوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا اُسے سائز میں بڑا بنایا جاتا تاکہ وہ نمایاں نظر آئے، تمیز کے دائرے میں رہ کر نعرے بازی کی جاتی، شام کو مختلف اُمیدواروں کے حامی گلی کے ’’تھڑوں‘‘ پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو اپنی پارٹی اور اُمیدوار کی خوبیاں آمنے سامنے بیٹھ کر بیان کرتے سامنے والے کو قائل کرتے کہ وہ ہمارے اُمیدوار کو ووٹ دے، کسی اُمیدوار کا نشان سائیکل ہوتا تو بڑی سی سائیکل کو سجایا جاتا، شیر نشان ہوتا تو سرکس سے اصلی شیر کو متعلقہ حلقوں میں گھمایا جاتا اور اعلان ہوتا کہ آج فلاں گاؤں میں شیر لایا جائے گا جسے لوگ دُور دُور سے دیکھنے آتے، تیر کے نشان کو پارٹی کے رنگوں سے تیار کر کے لوگ گھروں کی دیواروں پر آویزاں کرتے، گھروں، فیکٹریوں اور کارخانوں کی بیرونی دیواروں پر ایک شخص سفید رنگ کرتا اور دوسرا اُس جگہ پر اُمیدوار کا نام اور اُس کی تعریفیں لکھتا تاکہ پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اُمیدوار کا نام محفوظ ہو جائے، کبھی کبھار نوجوان جذبات میں گرما گرمی بھی کرتے تھے اور بات ہاتھا پائی سے شروع ہو کر جھگڑوں تک چلی جاتی تھی۔ وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا گیا، ہم بڑے ہو گئے اور پاکستان کی سیاسی بساط پر بھی تبدیلیاں رُونما ہونا شروع ہوگئیں، سیاسی پارٹیوں نے پیسے والوں کو اپنا اُمیدوار بنانا شروع کر دیا، کل تک جو لوگ آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ اپنے اُمیدواروں کے ساتھ آتشیں اسلحہ لے کر چلنے لگے، کہیں دھاندلی، دھونس اور پیسہ پیش کیا جانے لگا تو کہیں اسلحہ کے زور پر دھمکانا، بچے اُٹھا لینا، تھانوں میں جھوٹے مقدمات کی دھمکی اور کہیں نچلے طبقے کی مجبوریوں کی آڑ میں انتخابات میں کامیابی کی جنگ ’’چھڑ‘‘ گئی۔ یہ معاملہ یہیں تک رہتا تو خیر تھی لیکن آہستہ آہستہ ’’انتخابی سنگینی‘‘ کی بیلیں ہمارے معاشرے کے سرسبز ذہنوں پر چڑھتی گئیں جنہوں نے عوامی ذہن ’’زرد‘‘ کر دیئے۔ اُمیدواروں کے جو حامی آمنے سامنے بیٹھ کر دُوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ اب ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے کی سیاسی پارٹی اور قائدین پر کیچڑ اُچھالنا شروع ہوگئے، قائدین کی عادات، کرپشن، سینہ زوری، ناانصافیاں، عوام کو تحفظ نہ دیا جانا، قبضہ مافیا، پاکستان کی دولت لُوٹ کر سوئٹرزلینڈ کے بینکوں میں پہنچانا، عوام کا پیسہ اپنے اکائونٹس میں ٹرانسفر کروا لینا جیسے الزامات اور حقائق سامنے لانا ثواب کا کام سمجھنا جانے لگا۔ حامی تو حامی سیاسی پارٹیوں کے قائدین بھی اپنی تقاریر میں ایک دوسرے کو گناہ گار ترین اور خود کو پارسائی کا دعویدارثابت کرنے پر تُل گئے، تقاریر میں ایسے الفاظ استعمال ہونا شروع ہوگئے کہ خدا کی پناہ، یہی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اچھے بھلے پڑھے لکھے اور سمجھ دار سیاستدان ایک دوسرے کو مختلف جانوروں سے تشبیہ دینے کو فرض سمجھنا شروع ہو گئے، پنجابی فلموں کے ولن کی طرح بڑھکیں مارنا اور ایک دوسرے کو پھینٹی لگانا، سڑکوں پر گھسیٹنا، گریبان پکڑنا، گلے میں رسہ ڈالنا، انتڑیاں نکالنا جیسے الفاظ اور ڈائیلاگ عام ہو گئے، ایسے الفاظ جو کسی بھی مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔ یہی طریقہ تکلم اور عادات لے کر اُمیدوار اسمبلیوں کے اندر چلے گئے اور وہاں بھی یہی طوفان بدتمیزی بپا کرنا اپنے معاشرے کا ایک حصہ تصور کر لیا گیا ،جو قائدین پہلے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے تھے وہ سیاست کی اس گندگی کو ایک دوسرے کی بیوی، بیٹی، بہن اور اہلِ خانہ پر پھینکنا شروع ہو گئے۔ عمران خان نے تیسری شادی کر لی تو قائدین کے حامیوں نے بشریٰ مانیکا المعروف پنکی پر الزامات کے وہ وار کئے کہ جس کی مثال دینا بھی کسی طرح کی گندگی سے کم نہیں، کبھی کہا گیا کہ یہ شادی اس لئے کی گئی ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے، یہ شادی کیوں چھپائی گئی؟ جو خاتون تیس سال بعد اپنے شوہر کو چھوڑ گئی وہ عمران خان کے پاس بھی نہیں رہے گی، بشریٰ مانیکا پردہ دار تھی تو اُس کی عمران کے ساتھ تصاویر کیوں ہیں؟ ریحام خان کو کیوں طلاق دی؟ جمائما کہاں ہے؟ سیتا وائٹ سے عمران خان کی جو بیٹی ہے اُس کو باپ کا حق کون دے گا؟
اب آپ یہ بتائیں کہ پاکستان کے مرد سیاستدانوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی دُکان چمکانے کے لئے عورتوں پر اپنے جملوں اور الفاظ کے وار کریں، شیخوپورہ کے ایم این اے جاوید لطیف نے پارلیمنٹ کے سامنے ایم این اے مراد سعید کی فیملی پر بہت بیہودہ الزامات لگائے، یہ آج کل سیاسی جنگ کا نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے، ہمارے جرات مند مرد سیاستدان ایک دوسرے کی عورتوں پر وار کرکے سیاسی جنگ جیتنے کا جنون روز بروز اپنے اندر بڑھا رہے ہیں، عمران خان کے حامی محترمہ مریم صفدر کے بارے میں سوشل میڈیا پر اتنی فحش باتیں لکھتے ہیں کہ جو پڑھی نہیں جا سکتیں، سوال یہ ہے کہ دونوں اطراف کے حامی ایسی گھٹیا حرکات کیوں کرتے ہیں؟ تو اُس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ بڑے سیاستدان اب ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے اُچھالتے شاید تھک گئے ہیں اِسی لئے وہ روزانہ اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں اور اہل خانہ پر گندگی ڈالنے کا ایک دوسرے کو موقع فراہم کرتے ہیں، میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست میں انسان اتنی پستی میں کیوں چلا جاتا ہے، میاں محمد نواز شریف کو معلوم ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر اُن کے اہل خانہ کے بارے میں کیا کچھ لکھتے ہیں اِس کے باوجود وہ اپنی بیٹی کو الزامات کی بھینٹ چڑھا نے کے لئے سیاست میں کیوں لائے؟ اگر وہ بیٹی کو سیاست میں لے آئے ہیں تو اپنے وزراء کو منع کریں کہ وہ انہیں خوش کرنے کے لئے مدِمقابل کی خواتین کا تمسخر نہ اُڑائیں تاکہ ان کی صاحبزادی بھی الزامات کی زد میں نہ آئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی جانتے ہیں کہ اُن کی ایک ایک شادی کو موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے تو پھر وہ روز روز شادیوں کا اسکینڈل کیوں سامنے لاتے ہیں، وہ اپنی بہنوں اور بیویوں کے بارے میں لکھا جانے والا سارا مواد شاید اسی لئے برداشت کرتے ہیں کہ اُن کا سوشل میڈیا گروپ دوسرے دھڑے کی خواتین پر اِس کے جواب میں خُوب کیچڑ اُچھالے گا اور میرے خیال میں یہی بات میاں برادران کے ذہنوں میں بھی گھر کر چکی ہے۔ بہرحال پاکستان کے مرد سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ مردانگی کے ساتھ سیاست کریں ایک دوسرے کی خواتین کو زیر بحث لا کر اُن کی کردار کشی کرکے اقتدار حاصل کرنے سے شکست کھا جانا بہتر ہے۔ کیونکہ ہر مذہب عورت کے احترام کا درس دیتا ہے اور ویسے بھی پنجابی کہاوت ہے کہ ’’دھی دُشمن دی ہووے تے او دھی ہوندی اے‘‘ یعنی ہمیں دُشمن کی بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھنا چاہئے اور ہماری تمام تر خواتین قابل احترام ہیں۔

تازہ ترین