پولیس انسپکٹر عابد باکسر کے بارے میں خبریں ہیں کہ اسے یو اے ای سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا ہے، عابد باکسر پنجاب پولیس کو انتہائی مطلوب رہا ہے 2008ء کے اوائل میں عابد باکسر پاکستان سے فرار ہوکر دبئی پہنچ گیاتھا۔ بحیثیت صحافی دیگر ساتھیوں کی طرح میری بھی عابد باکسر سے ملاقاتیں رہی ہیں پہلی ملاقات 1999ء میں نرگس کی بھانجی کی سالگرہ پر ہوئی۔ میں اور میرا دوست نور حسن رانا جیسے ہی تقریب میں شرکت کیلئے ہال کے اندر داخل ہوئے تو سب سے پہلے نرگس ہی کی نظر ہم پر پڑی اور بے حد گرم جوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کو کسی سے ملوانا ہے ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ ایک شخص ہمارے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ نرگس نے کہا کہ یہ انسپکٹر عابد ہیں اور انہیں عابد باکسر کے نام سے زیادہ پکارا جاتا ہے یہ کہہ کر نرگس نے اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے نوٹ اس پر نچھاور کرنا شروع کردیئے۔ مجھ سمیت تمام صحافی برادری اس بات سے بخوبی آگاہ تھی کہ نرگس اور عابد باکسر کے درمیان دوستی سے بڑھ کر تعلقات تھے ۔
2003ء کے آغاز میں ایک روز نرگس کے والدادریس بھٹی کا میرے موبائل پر فون آیا ، وہ انتہائی غمزدہ لہجے میں بولے ’’آپ جلد از جلد میو اسپتال آجائیں نرگس کی بہت بری حالت ہے ۔‘‘ میں فوری طور پہنچا تو دیکھا کہ نرگس کے جسم پر زخموں کے بے تحاشہ نشانات ہیں وہ بہت ڈری اور سہمی ہوئی تھی اس کا میڈیکل چیک اپ کیا جارہا تھا اتنے میں ادریس بھٹی میرے پاس آئے اور بولے کہ ’’میں بہت کمزور آدمی ہوں ، عابد باکسر جیسے خودسر پولیس افسر سے جھگڑا مول نہیں لے سکتا مگر نرگس کی خواہش ہے کہ اس کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرنا ہے، آپ بتائیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ اپنے والد کی تاویلیں سن کر نرگس نے کہا ’’کامران صاحب! آپ ابو کو لے کر تھانے جائیں اور عابد باکسر کے خلاف مجھ پر جان لیوا تشدد کرنے کی رپورٹ درج کرادیں، میں اسے نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ اسپتال سے فراغت کے بعد میں نرگس کو لے کر ٹائون شپ تھانہ پہنچا اور عابد باکسر کے خلاف رپورٹ درج کرادی۔ ابھی میں نرگس کو اس کے جوہر ٹائون میں واقع نئے گھر میں چھوڑ کر اپنے دفتر کی طرف جاہی رہا تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ نور حسن رانا کافون تھا اس نے اپنا موبائل فون عابد باکسر کو تھما دیا ۔ میری آواز سنتے ہی عابد باکسر نے کہا کہ ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نرگس کو ساتھ لے کر تھانے گئے تھے اور میرے خلاف رپورٹ بھی درج کروائی ہے اب میں اپنا موقف دینا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھ سے ابھی مل سکتے ہیں؟‘‘ میں نے حامی بھر لی اور ملاقات کیلئے طے شدہ مقام جیل روڈ پر واقع گاڑیوں کے ایک شو روم پر پہنچ گیا جہاں پر عابد باکسر نے کہا کہ ’’نرگس نے میرا اور میرے عہدےکا بے دریغ استعمال کیا ہے میں نے اس کے ایما پرفلم پروڈیوسرز اور تھیٹرز کے سرکردہ لوگوں کو ڈرایا دوسری اداکارائوں کو نکلوا کر اسے فلمیں دلوائیںمگر اس نے مجھ سے بے وفائی کی ۔ ‘‘ عابد باکسر کی یہ باتیں سن کر میں نے سوال کیا کہ نرگس آپ کے نکاح میں ہے؟ تو اس کا جواب تھا ’’نہیں صرف گرل فرینڈ‘‘۔ پھر اس نےدھمکی آمیز لہجہ میں کہا کہ آپ نرگس کا ساتھ نہ دیں ، میں اس کی بات سنی ان سنی کرکے اپنے دفتر کیلئے نکل پڑا۔ اسی شام کو نرگس نے مجھے اپنے گھر بلایا اور بتایا کہ مجھ پر بہت زیادہ پریشر آرہا ہے کہ میں عابد باکسر کے خلاف قانونی کارروائی کو آگے نہ بڑھائوں ، میں پیچھے نہیں ہٹوں گی مگر اس کیلئے مجھے آپ کا اور آپ کے ادارے کا تعاون درکار ہے۔ میں نے نرگس کی خواہش پر اپنے چیف ایڈیٹر سے اس کی بات کرادی انہوں نے اسےہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ابھی اس معاملے پر قانونی کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ جگنو بٹ نام کا ایک کردار سامنے آگیا۔ جگنو بٹ اداکارہ و گلوکارہ شاہدہ منی کے شوہر جاوید اقبال کا قریبی رشتہ دار تھااس نے مصالحت کیلئے کوششیں شروع کردیں اوربہت سی کوششوں کے بعدوہ نرگس اور عابد باکسر کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوگیا جس کے بعد نرگس کینیڈا چلی گئی۔2004ء کے اواخر میں نرگس پاکستان واپس آگئی اوراپنی فنکارانہ سرگرمیوں کا آغاز بھی کردیا۔ کینیڈا سے واپسی تک وہ زبیر شاہ سے شادی کرچکی تھی۔
وطن واپسی کے بعد نرگس کو تھیٹر انڈسٹری میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں تھیٹر کے بے تاج بادشاہ سخی سرور نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نرگس کی پذیرائی سے عابد باکسر ایک بار پھر طیش میں آگیااوراس نے سخی سرور کو دھمکی دی کہ وہ نرگس کو اپنے اسٹیج ڈراموں میں کام دینا بند کرے مگر سرور نے تھیٹر کی ملکہ کے ساتھ پیشہ ورانہ امور جاری رکھے یہاں پر منہ کی کھانے کے بعد عابد باکسر نے ایک نئی راہ اختیار کی اور بالواسطہ طور پر تھیٹر انڈسٹری سے وابستہ ہوگیا اس نے اپنے کارندوں کے ذریعے اسٹیج ڈراموں میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ ایک موقع پر اس نے بھاری معاوضے پر نرگس کو صرف اپنے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کی پیش کش بھی کی جسے ٹھکرا دیا گیاتھا۔ فلموں کے ساتھ ساتھ نرگس اسٹیج ڈراموں کی وجہ سے شہرت کے نقطہ عروج پر تھی اور میڈیا کیلئے ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔ نرگس کی خبریں شائع کرنے پر بھی عابد باکسر نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور نوکری سے نکلوانے کا شوشہ بھی چھوڑا۔
2008ء کے الیکشن کے بعد پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت آئی تو سردار دوست محمد کھوسہ کو صوبےکا عبوری وزیراعلیٰ بنادیا گیا اسی دوران ایک دن سخی سرور نے مجھے فون کرکے کہا کہ عابد باکسر مشکل میں ہے اور ملنا چاہتا ہے میں دفتر میں تھا میری آمادگی سننے کے فوراً بعدسخی سرور نے عابد باکسر کو میرے پاس بھیجا ۔اس نے بتایا کہ میرا جائیداد کے معاملے پر ماموں سے جھگڑا ہے اور ماموں کا اس وقت کے وزیراعلیٰ سے دوستانہ تعلق ہے جس کی وجہ سے میری جان کو خطرہ ہے لہٰذا ایک اشتہار شائع کرانا ہے۔ جب میں نے اشتہار کی عبارت پڑھی تو اس میں وزیراعلیٰ کا ذکر تھا اشتہار کا شائع ہونا تقریباً ناممکن تھا مگر میں نے اپنے ایڈیٹر کو اشتہار دکھایا انہوں نے اشتہار کی عبارت پڑھتے ہی اسے شائع کرنے سے انکار کردیا مگر میرے اصرار پر عبارت میں معمولی تبدیلی کرنے کے بعد انہوں نے اسے شائع کرنے کی اجازت دے دی۔ اشتہار کی اشاعت کے بعد عابد باکسر دبئی فرار ہوگیا اور پھر اس سے کبھی رابطہ نہیں ہوا۔
عابد باکسر پنجاب پولیس کو انتہائی مطلوب تھا اور اسے قتل کے متعدد کیسز میں اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ عابد باکسر کو پنجاب کا رائوانوار بھی کہا جاسکتا ہے اور رائوانوار کو سندھ کا عابدباکسر قرار دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔