• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممتاز شاعر اور ادیب ، تاجدار عادل سے ملاقات

گفتگو: اختر سعیدی

عکاّسی:اسرائیل انصاری

تاجدار عادل کا شمار وطنِ عزیز کے اُن لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مسلسل محنت اور جدوجہد سے اپنی جگہ بنائی، انہیں شاعری ورثے میں ملی۔ وہ اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھنے والے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاجدار عادل، برصغیر کے نام ور شاعر، صبا اکبر آبادی کے لائق و فائق فرزند ہیں۔ تاجدار عادل نے اپنی عملی زندگی کا آغاز، افسانہ نگار سے کیا، لیکن شاعری اُن کی شناخت ٹھہری۔ اُن کی رومانی اور فکری شاعری نے ایک جدید اور انوکھا امتزاج پیدا کیا ہے۔ اُن کے بڑے بھائی، سلطان جمیل نسیم نے شاعری سے ادبی سفر کا آغاز کیا، لیکن اُن کا شمار اُردو کے بہترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ تاجدار عادل کا مجموعۂ کلام ’’مات ہونے تک‘‘ 1982ء میں منظر عام پر آیا، جس کے 9 ایڈیشن شائع ہوئے، اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاجدار عادل 1973ء میں پی ٹی وی سے منسلک ہوئے، کئی بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے بعد غالباً 2015 میں ریٹائر ہوگئے۔ انہوں نے پی ٹی وی پر لاتعداد پروگرام کیے، جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ تاجدار عادل نے بی اے آنرز، ایم اے معاشیات اور ایم اے ابلاغِ عامہ کے بعد ٹیلی ویژن پروڈکشن کی اعلیٰ تربیت، جرمنی سے حاصل کی۔ گزشتہ دنوں تاجدار عادل سے ایک تفصیلی ملاقات کی، اس دوران ہونے والی گفتگو نذرِِ قارئین ہے۔

س:۔ ادبی اور خاندانی پس منظر سے آگاہ فرمائیے؟

ج:۔ مجھے ادبی ذوق ورثے میں ملا ہے۔ والد ،صبا اکبر آبادی شاعر، نانا، رعنا اکبر آبادی شاعر، ماموں، سہیل رعنا موسیقار، بڑے بھائی، سلطان جمیل نسیم افسانہ نگار، ان تمام نسبتوں پر مجھے فخر ہے، لیکن میں خود کیا ہوں؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب مجھے اپنی شاعری کے حوالے سے دینا ہوگا۔ صرف وراثت سے بات نہیں بنتی، آدمی کو اپنے زندہ رہنے کا جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔ میں اپنی شاعری کے حوالے سے کسی خوش گمانی یا احساسِ برتری میں مبتلا پہلے تھا اور نہ اب ہوں۔ میں شاعری اپنے ذوق کی تسکین کے لیے کرتا ہوں، جن لوگوں کو میری شاعری پسند ہے، یہ ان کا حسنِ نظر ہے، ہمارے جدِ اعلیٰ کا اسمائے گرامی، حضرت بہاء الدین نقش بند تھا، گویا وہ نقش بندیہ سلسلے کے روحِ رواں تھے، اُن کی اولادوں کے نام کے ساتھ ’’ خواجہ‘‘ ضرور لگتا ہے، میرے والد کا اصل نام، خواجہ محمد امیر ہے اور دادا کانام، خواجہ علی محمد تھا۔ دادا سند یافتہ ڈاکٹر تھے، والد نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ہمارے گھر میں کوئی فرد ایسا نہیں، جس نے ماسٹرز سے کم تعلیم حاصل کی ہو۔ میرے لیے یہ مشکل تھی کہ اپنی شناخت کیسے بنائی جائے۔ مجھے عقیل عباس جعفری نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی ایک کٹنگ دی، جو1947کی تھی، خبر میں تھا کہ ’’صبا اکبر آبادی، پاکستان آگئے‘‘ اس کامطلب یہ ہے کہ وہ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی مشہور تھے۔ آل انڈیا مشاعروں میں بھی انہیں مدعو کیاجاتا تھا۔ اُنہوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے اردو کا مختصر مرثیہ لکھا۔ 1936میں اُن کے مرثیوں کی کتاب شائع ہوئی، اس سے پہلے اُنہوں نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’مشورہ‘‘ کا ’’ آگرہ نمبر‘‘ نکالا، جس میں آگرہ کی سماجی، ثقافتی، ادبی، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے پاکستان آکر ادبی حوالے سے جو کام کیا، وہ بھی ایک تاریخ ہے۔ اُنہوں نے مرزا غالب کی غزلوں کی تضمین کی، خیام کی فارسی رباعیوں کو اُردو میں منتقل کیا، ایک شعر کی تضمین ملاخطہ فرمائیں:

دیوانِ میر، سامنےمیرے تھا، اے صبا

اشعار پرنشان لگائے تھے، جابہ جا

وہ آیا، پاس بیٹھا، نظر کی، سمجھ گیا

کُھلتا کسی پہ کیوں، مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

خیام کی ایک ریاعی کا ترجمہ بھی دیکھئے۔

مدہم ہے ہوا، پھول ہیں، نیلے پیلے

بارش سے ہوئے ہیں شجر، گِیلے گِیلے

بُلبل، سرِ شاخِ گُل، صدا دیتی ہے

کہتی ہے کہ ہاں وقت ہے، پی لے پی لے

غالب کی فارسی رباعیات کا ترجمہ’’ہم کلام‘‘ کے نام سے شائع ہوا، پروفیسر مجنوں گورگھیوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ اگر غالب بھی اپنی فارسی رباعیات کا اردو میں ترجمہ کرتے تو ایسا ہی ہوتا، جیسا صبا اکبر آبادی نے کیا ہے۔‘‘ اُنہوں نے72سے زیادہ مرثیے تخلیق کیے۔ حافظ شیرازی اور امیرخسرو کی فارسی رباعیوں کوبھی اردو کا قالب عطا کیا ۔ میں نے اپنے گھر میں جن ممتاز شخصیات کو آتے جاتے دیکھا، اُن میں جوش ملیح آبادی، سید آل رضا، استاد قمر جلالوی اور نسیم امرہوی نمایاں ہیں۔ میرے دادابھی شاعری کرتے تھے، لیکن انہیں سیاسی موضوعات سے زیادہ دلچسپی تھی۔ سیاسی فضا، صبا صاحب کے مزاج کا حصہ بھی بنی۔ اُنہوں نے خلافت کانگریس کے ایک جلسے میں اپنی ایک انقلابی نظم سنائی، جس کی داد، مولانا حسرت موہانی نے بھی دی ، بقول شکیل عادل زادہ’’ صبا اکبر آبادی، پیدا ہی شاعری کرنے کے لیے ہوئے تھے‘‘۔

س:۔ کیا آپ کے بچوں میں بھی ادبی ذوق پایا جاتا ہے؟

ج:۔ ادب سے محبت توانہیں بھی ہے، آگے چل کر پتا چلے گا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار شاعری میں کرتے ہیں یا مصوری میں، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تخلیق، مختلف رنگوں میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے، اس کے لیے فنونِ لطیفہ کا کوئی بھی شعبہ ،منتخب کیا جاسکتا ہے۔

س:۔ آپ ایک طویل عرصے پی ٹی وی سے منسلک رہے، یہ تجربہ کیسا رہا؟

ج:۔ پی ٹی وی پر ملازمت کے لیے میرا انٹرویو، اسلم اظہر اور آغا ناصر نے کیا تھا، جنہیں ہمیشہ ٹیلی ویژن براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں مانا جاتا رہے گا۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ انہوں نے مجھے پی ٹی وی کے لیے منتخب کرلیا۔ میں جولائی1973کواس ادارے سے منسلک ہوا۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن کو ایک طرزِ زندگی کہاجاتا تھا۔ اگر آپ نے سوچا کہ آج اتوار ہے یا عید تو پھر کام نہیں ہوسکے گا، اس کے لیے بہت سی خوشیوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کتنی عیدیں، گھر پر گزاریں، پھر پی ٹی وی نے اچانک مجھے ایک چیلنج دے دیا، پی ٹی وی نیشنل‘‘ کا۔ انتہائی کم وسائل میں کوئی کام شروع کرنا بہت مشکل تھا، لیکن اللہ نے مجھے سرخروئی عطا کی۔ پی ٹی وی پروگراموں میں پاکستان کی تمام زبانوں کو نمائندگی دی جاتی تھی۔ لوگ آکے اپنی اپنی ثقافت کے بارے میں اظہار خیال کیا کرتے تھے۔ قومی یکجہتی کے حوالے سے یہ نہایت اہم کام تھا ۔ میں ’’پاکستان ٹائم‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کر رہا تھا، جس میں چاروں زبانوں کے لوگ ایک ساتھ بیٹھے تھے اور چاروں صوبوں کی آوازوں سے متعلق گفتگو ہورہی تھی۔ اسی دوران ایک شخص کافون آیا اور اس نے ایک جملہ کہا کہ ’’ کاش! یہ جذبہ پہلے سے رائج ہوتا تو آج مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ ہوتا‘‘۔ ہم نے اس پروگرام کے ذریعے قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دیا۔ اُس زمانے میں پی ٹی وی، پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا تھا، ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اس سے تمام لوگ رہنمائی اور استفادہ کریں۔ لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہو۔ ہمیں حکم تھا کہ کسی بھی صورت میں کوئی وائیلنس نہیں آئے گا، اس زمانے میں ملکی و غیرملکی جو چینل آئے ہیں، ان میں جس جس طریقے سے وائیلنس دکھایا جاتا ہے، اس پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔ اُس زمانے میں ٹیلی وژن ، لوگوں کے گھروں کا ایک فرد تھا ۔ اب صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اب پی ٹی وی اپنا وہ معیار برقرار نہ رکھ سکا، جو اس کا اختصاص تھا۔ نئے لوگوں کی ٹریننگ کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے، پرائیوٹ چینلز کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ جب تک نئے آنے والے کو آپ روایتوں سے روشناس نہیں کرائیں گے، بات نہیں بنے گی، آپ کو ادب کی حدود بتانی ہوں گی۔ جسے روایت کا تسلسل کہتے ہیں، وہی جدت ہوتی ہے۔ روایت کو زمین بوس نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک درخت ہے، جو تناور ہوتا جارہا ہے، جب تک آپ آنے والے مالی کو نہیں بتائیں گے کہ آب یاری کیسے کرنی ہے، تو اس کا حال کیسے اچھا ہو گا۔

س:۔ آپ نے پی ٹی وی پر جو اہم پروگرام کیے، ان کی تفصیلات بتائیے؟

ج:۔ میں نے پی ٹی وی پر لاتعداد پروگرام کیے، کس کس کا ذکر کروں۔ میں نے کئی برسوں تک ’’نیلام گھر‘‘ کیا، یہ ایک تفریحی کمرشل پروگرام تھا، لیکن میں نے اس میں بھی ادبی شخصیات کو بلایا۔ اس سے معاشرے کو یہ بتانا مقصود تھا کہ ادب، زندگی کا بنیادی جزو ہے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر اسلم فرخی، صفدر محمود اور دیگر اہم لوگ ہمارے اس پروگرام میں بحیثیت مہمان تشریف لائے۔ ’’نیلام گھر‘‘ کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ایک پروگرام ’’ معین اختر شو‘‘ تھا، اس میں بھی ہم نے شاعروں اور ادیبوں کے لیے گنجائش نکالی تھی، اس میں ہم نے سید ضمیر جعفری، پروفیسرعنایت علی خاں اور انور شعور کوبلایا۔ ہمارا مقصد، معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔

’’ ادب ،پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں‘‘

ادب، روحِ عصر ہی نہیں، ایک طرزِ حیات بھی ہے۔ ادب، تہذیبی زندگی میں تحرک پیدا کرتا ہے، ادب تہذیبی اقدار کے فروغ کا ایک ذریعہ ہے۔ ایک پروگرام میں نے ’’ کیفے ادب‘‘ کے نام سے بھی کیا، جس میں غیر رسمی سے ماحول میں بتانے کی کوشش کی کہ ادب کیا ہے؟ وہ زمانہ بھی مجھے یاد ہے کہ جب ادیب اور شاعر ، چائےخانوں پر، ادبی مباحثوں میں مصروف دکھائی دیتے تھے، اس پروگرام میں اُس دور کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس پروگرام کو مزید جاری رکھا جاتا، اس میں اور بھی موضوعات شامل کرتے، لیکن ہر پروگرام کے بعد لگتا کہ50منٹ بہت کم ہیں۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ جن ادیبوں اور شاعروں کی میڈیا تک رسائی نہ ہوسکی، انہیں پہلے بلایا جائے، جو آدمی تیس چالیس سال ادب میں لگا چکا ہے، اسے ضرور موقع ملنا چاہیے۔ میں نے ایک پروگرام ’’جریدہ‘‘ غازی صلاح الدین کے ساتھ کیا۔ یہ 74 یا 75 کی بات ہے۔ ہم مختلف شاعروں، ادیبوں، مصوروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کے گھر جاتے اور انہیں ریکارڈ کرتے۔ اس پروگرام کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔ ایک پروگرام کتابوں پر تبصرے کے حوالے سے کیا۔ پاکستان کا کوئی کمپیئر ایسا نہیں، جس کے ساتھ میں نے پروگرام نہ کیا ہو۔ ایک پروگرام ’’سوال یہ ہے کہ‘‘ مجھے بہت پسند تھا جس کی میزبانی راحت کاظمی کے سپرد تھی۔ اس میں ہم بات کرتے کہ حسن کیا ہے؟ترقی کیا ہے؟ اس پروگرام میں اشفاق احمد، انتظار حسین، اسلم اظہر اور مظفر علی سید کے علاوہ ہر اُس آدمی کو بلایا جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ ایک سنجیدہ پروگرام تھا۔ ایک پروگرام ’’ادب، سال بہ سال‘‘ کے نام سے شروع کیا تھا، جس میں ہم پاکستان کی ادبی تاریخ پر گفتگو کےلیے دانشوروں کو مدعو کرتے تھے۔ اگر یہ جاری رہتا تو ادب کی ایک تاریخ مرتب ہو جاتی، اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ کراچی کا ادبی منظرنامہ تاریخ ساز ہے، اسے کتابی صورت میں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

س۔ جب آپ نے شاعری شروع کی تو آپ کے ہمسفر کون تھے؟

ج۔ ابتدا میں تو مجھے اندازہ نہ تھا کہ میرے ہمسفر کون ہیں، لیکن بعد میں حسن اکبر کمال، ثروت حسین، پروین شاکر، شاہدہ حسن اور صابر ظفرکو ادبی منظرنامے میں متحرک دیکھا۔ ان میں کچھ سینئرز ہیں اور کچھ مجھ سے جونیئرز۔ حسن اکبر کمال اور ثروت حسین سے زیادہ قربت رہی، دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے۔

س۔ آپ عرصۂ دراز سے شاعری کررہے ہیں، لیکن صرف ایک مجموعۂ کلام منظرعام پر آیا، اُس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

ج۔ میرا شعری مجموعہ ’’مات ہونے تک‘‘ 1982 میں پہلی بار منظرعام پر آیا، جسے میں نے خود شائع کیا۔ جب میں اُسے پریس سے لےکر آیا اور دروازے تک پہنچا تو وہاں ایک صاحب میرا انتظار کررہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ تاجدار عادل ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کی کتاب آنے والی تھی؟ میں نے کہا آگئی۔ کہنے لگے کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ گاڑی میں۔ کہنے لگے کتنی کاپیاں ہیں؟ میں نے کہا ایک ہزار، اُنہوں نے کہا کہ کیا قیمت ہے؟ میں نے کہا 21 روپے۔ اُنہوں نے جیب سے پرس نکالا اور 21 ہزار روپے میری طرف بڑھادیئے۔ میں نے کہا کہ کم از کم ایک کاپی تو مجھے دے دیں۔ اُنہوں نے برجستہ کہا کہ کتاب کی قیمت 21 روپے ہے۔ نتیجہ یہ کہ گھر جانے سے پہلے دوبارہ پریس جانا پڑا۔ میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ 15 دن کی تاریخ ڈالنے کے بعد، دوسرا ایڈیشن لکھوں۔ میں نے لکھا کہ پہلا ایڈیشن 22 سو، پھر اس مجموعے کے مزید 9 ایڈیشن شائع ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری کتاب میں ایسی کیا خوبی تھی، جس نے لوگوں کو کتاب کی طرف راغب کیا۔30 اکتوبر 1991 کو والد صاحب انتقال کر گئے، اس کے بعد میں بجھ کر رہ گیا اور دوسرا مجموعہ لانے کی خواہش بھی دم توڑ گئی، پھر میں نے اپنے دن رات ٹی وی کےلیے وقف کردیئے۔

س۔ آپ پہلے کی ادبی فضا اور آج کی ادبی فضا میں کیا فرق محسوس کرتےہیں؟

ج۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ پچھلے زمانے میں ادب کی اتنی قدآور شخصیات موجود تھیں کہ ان کے سامنے لب کشائی کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ وہ صاحبانِ کمال، اپنے فن پر توجہ دیتے، ہر وقت اپنی تخلیقات کو سنوارنے اور بنانے میں مصروف دکھائی دیتے۔ اب ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ والی بات ہے، ہر شخص چاہتا ہے کہ میں آگے نکل جائوں، اگر وہ اس کے بجائے اپنے فن پر توجہ دیں تو ان کو خود بخود راستہ مل جائے گا۔ پہلے کے لوگ اپنے کام سے مطمئن تھے، انہیں خود پر یقین تھا، اس لیے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ آج کا ادبی منظر نامہ پچھلے دور سے بہت مختلف ہے۔ گروہ بندیوں  نے ہر دور میں ادب کو نقصان پہنچایا۔ گھاس اور برگد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس دور میں بھی بعض نوجوان اچھی شاعری کررہے ہیں۔ اُس زمانے کے لوگوں سے میں نے بہت سیکھا۔ زیڈ اے بخاری بڑے عالم آدمی تھے۔ موسیقی پر بھی ان کی دسترس تھی۔ زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ اہلِ زبان نہیں تھے، لیکن اہلِ زبان سے زیادہ زبان کی باریکیاں جانتے تھے۔ بخاری صاحب مرثیہ، تحت اللفظ پڑھنے سے پہلے اس بات پر غور کرتے تھے کہ فلاں لفظ کا درست تلفظ کیا ہے۔ وہ بار بار چیک کرتے، تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کی غلطی بھی ہمارے لیے سند تھی۔ اُس دور سے اس زمانے کا موازنہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ کسی نوجوان کو پہلی مرتبہ کسی مشاعرے میں سنا، کچھ دن بعد پتا چلا کہ اس کا مجموعۂ کلام شائع ہوگیا ہے۔ بعض نوجوان شعرا تو پانچ پانچ شعری مجموعوں کے خالق بن گئے ہیں۔ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘۔ فیس بک پر بتایا جاتا ہے کہ اس مہینے کی ساتویں غزل، اس ماہ کی اٹھارویں غزل، شاید ان کے پاس اور کوئی کام نہیں۔ ایک ماہ میں اتنی غزلوں کا خالق، قافیہ پیمائی ہی کرسکتا ہے۔ اچھی شاعری کےلیے ریاضت ضروری ہے۔ خواب دیکھنے والے صورت گری کا ہُنر جانتے ہیں۔

س۔ شادی اپنی مرضی سے کی یا والدین کی مرضی سے؟

ج۔ والد کی وفات کے بعد ہمارا کُل اثاثہ والدہ تھیں۔ ایک دن اُنہوں نے حکم دیا کہ میرے ساتھ چلو، ہم چلے گئے۔ دورانِ گفتگو پتا چلا کہ یہ تو ہمارا رشتہ طے کیا جارہا ہے۔ سسرال والے، والد صاحب کے جاننے والے تھے، اس لیے انہوں نے فوراً ہاں کردی۔ والدہ نے کہا کہ شادی میں زیادہ تاخیر نہیں کریں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بار بار چکر لگانے اور رسمِ منگنی کے بغیر فوری طور پر شادی کردی گئی۔ شادی کے دن میری ایک ریکارڈنگ تھی، پہلے ریکارڈنگ کی پھر بھاگتا دوڑتا گھر آیا، پھر شادی کی تیاری کی، یہ ہے روداد ہماری شادی کی۔

س۔ کیا کبھی عشق کے تجربے سے بھی گزرے؟

ج۔ کون ہے، جو عشق کے تجربے سے نہ گزرا ہو، عشق کے بغیر، انسان ادھورا ہے۔

عشق میں بُو ہے، کبریائی کی

عشق، جس نے کیا، خدائی کی

عشق انسان کو زندگی کے حسن سے ہمکنار کرتا ہے، ایک پتھر کی زندگی کیا ہے، اس کے مقابلے میں ایک پھول کی زندگی، دونوں میں بڑا فرق ہے۔ عشق کی زندگی، پھول والی زندگی ہے۔

س: زندگی میں بہت سی شخصیات آئی ہوں گی، زیادہ کس سے متاثر ہوئے؟

ج : ایک نہیں، لاتعداد شخصیات ہیں، کس کس کا نام لوں، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر اسلم فرخی، مشفق خواجہ، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، جمیل اختر خان، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر احسان رشید، نسیم درانی، ان تمام لوگوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوں، جس زمانے میں جامعہ کراچی کے ’’اخبار جامعہ‘‘ کا مدیر تھا، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا ایک انٹرویو کیا، اُنہوں نے دورانِ گفتگو ایک جملہ کہا کہ ’’تمہیں دیکھ کر، میری آنکھوں میں ایک خاص چمک آتی ہے، کیا تم محسوس کرتے ہو‘‘۔ پھر کہا کہ ’’جب ہم پڑھتے تھے تو ہمارے استاد کی آنکھوں میں بھی ایک قسم کی چمک آتی تھی، ہم اسے محسوس کرتے تھے۔‘‘ ہم نے ان سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے، اُنہوں نے کہا کہ کچھ عرصے کے بعد پتا چل جائے گا۔ اب ہمیں پتا چلا کہ اُس کا کیا مطلب تھا، مشفق خواجہ کے فقروں میں لطف اور تحریر میں جادو تھا۔

اب وہ آئینہ صفت لوگ، کہاں سے لائیں

سلسلے ختم ہوئے، انجمن آرائی کے

س:۔ کیا کبھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچا؟

ج:۔ روز سوچتا ہوں، پاکستان ہماری امیدوں اور آرزئوں کا مرکز ہے، اس کا ذرّہ ذرّہ مجھے عزیز ہے۔ میں ہمیشہ اس کی بقاء اور استحکام کے لیے دعا گو رہتا ہوں۔ ادیبوں اور شاعروں کو سیاسی طور پر بھی باشعور ہونا چاہیے، جب تک یہ شعور نہیں آئے گا، آپ کی تحریروں میں زندگی نہیں آئے گی، پاکستان کا مستقبل، یقینی طور پر بہت روشن ہے۔ ہماری بعد آنے والی نسلوں کو بھی پاکستان سے محبت ہے۔ جب آپ ساری دنیا میں گھوم کر آتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس ملک کی قدر و قیمت کیا ہے۔ پاکستان، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے، جس کے لیے قربانیاں دی گئیں، لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا قلق، تمام زندگی رہے گا۔ 1945ء میں، میرے والد کی ایک کتاب ’’زمزمۂ پاکستان‘‘ (حصہ اول) شایع ہوئی تھی، اس کا دوسرا حصہ 1946ء میں منظر عام پر آیا، جسے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا گیا۔ کتاب 60 ہزار کی تعداد میں چھپی تھی، اس کی تمام آمدنی، مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کرا دی گئی۔ تحریک پاکستان تو ہمارے خون میں شامل ہے، انشاء اللہ پاکستان تا قیامت دائم و قائم رہے گا۔

س :۔ سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟

ج :۔ ہمارے سیاست داں، شفاف نظر نہیں آتے، ان کو ٹھیک کرنے لیے وہ نسخۂ کیمیا چاہیے، جو علامہ اقبال کے پاس تھا۔ سیاست داں اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ہیں، انہیں عوام الناس کی تکالیف اور پاکستان کی بقاء کا کوئی احساس نہیں۔ امید پہ دنیا قائم ہے، امکان ہے کہ بہتری آئے گی، آہستہ آہستہ، پاکستان میں ترقی ہورہی ہے۔ اُردو کی نام ور افسانہ نگار، قرۃ العین حیدر، جب پاکستان سے گئیں تو ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے پاکستان کیوں چھوڑا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’پاکستان میں بھونکنے کی آزادی نہیں، ہندوستان میں کم از کم اتنی آزادی تو ہے‘‘ لیکن اب پاکستان میں اتنی بولنے کی آزادی ہے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز مشکل ہوگئی ہے اور مختلف معاملات تک آدمی کی رسائی ممکن ہے۔ صرف ایک کام کی شدید ضرورت ہے کہ پاکستان کی قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے، اگر یہ ممکن ہوجائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میں نے ایک سرکاری افسر سے پوچھا کہ آپ کو اس سلسلے میں پریشانی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو پیر آپ کے سامنے رکھا ہے، کیا وہ خفیہ ہے، میں نے کہا جی ہاں؟ انہوں نے کہا کہ کیا آپ کا چپراسی اسے پڑھ سکتا ہے، میں نے کہا نہیں، وہ کہنے لگے بس یہی رکاوٹ ہے، اگر کوئی لیٹر اردو میں ہوگا تو اسے چپراسی بھی پڑھ لے گا۔ جب تمام کارروائی اردو میں ہونے لگے گی تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہے گی۔ دوسری بات یہ کہ ابھی تک اردو کو ذریعۂ تعلیم نہیں بنایا گیا، انگلش میڈیم اسکولوں کی مارکیٹ زوروں پر ہے، اس صورت میں اردو، کیسے آگے بڑھے گی۔

س : آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟

ج :۔ میں ادب برائے زندگی کا قائل ہوں، تمام نظریے ادب کے اندر موجود ہیں۔ ہر آدمی اپنے مقصد کی چیز لے کر اسے نظریہ بنالیتا ہے۔ حقیقی ادیب کو کسی نظریے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ میں لکھتا ہوں تو میرے پیش نظر، مقصدیت ہوتی ہے، کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ میں کسی ادبی نظریے یا تحریک کا مخالف نہیں، مجھے جو چیز اچھی لگتی ہے، اسے تخلیقی اظہار دے دیتا ہوں۔

س : اپنی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟

ج : پی ٹی وی پر محرم الحرام کی مناسبت سے محفلِ مسالمہ کا اہتمام کیا گیا، جس میں پاکستان کے مختلف شہروں سے شعراء کو مدعو کیا گیا تھا، ایک شاعر، مقامی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، جب میں انہیں لینے پہنچا تو وہ اپنے کمرے میں شغل فرمارہے تھے، گلاس آدھا باقی تھا، وہ کہنے لگے کہ اس کو مکمل کرلوں تو چلتا ہوں۔ مجھے ان کے اس عمل سے شدید دکھ پہنچا، میں نے ان سے کہا کہ آپ گلاس آرام سے ختم کریں، میں دوسرے شعراء کو لے کر آتا ہوں، کہنے لگے بہت اچھا! میں نے شعراء کو گاڑی میں بٹھایا اور ٹی وی اسٹیشن پہنچ گیا اور مسالمہ ریکارڈ کرلیا۔ دوسرے دن وہ جنرل منیجر، برہان الدین حسن کے پاس میری شکایت کے لیے آئے، مجھے طلب کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کل آپ ان کو ہوٹل میں کیوں چھوڑ آئے تھے، ان کو مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے کہا کہ محفل مسالمہ تھی، جس میں محمدؐ و آلِ محمد کا ذکر ہونا تھا، مجھے مناسب نہیں لگا کہ وہ اس حالات میں اُن عظیم ہستیوں کا ذکر کرتے، جن کی مدح کے لیے طہارت ضروری ہے، اس لیے میں ان کو چھوڑ آیا تھا، بجائے اس کے کہ وہ مجھ سے ناراض ہوتے، مجھ سے کہا کہ جایئے، اپنا کام کریں۔ جیسے ہی میں مڑا، برہان صاحب نے ان سے کہا یار! سنو، کم از کم تھوڑا دیر انتظار ہی کر لیتے۔ اُس وقت میری عمر 24 یا 25 سال ہوگی۔ یہ خاندانی تربیت تھی، جس نے مجھے اتنی جرأت عطا کی۔

تازہ ترین
تازہ ترین