غزالہ خالد
چوتھی اور آخری قسط
حج مکمل ہوچکا تھا اور کعبے سے جدائی کا وقت قریب آگیا تھا۔ 13 ذی الحج کی صبح نماز فجر کے بعد ہمیں مدینۂ منورہ روانہ ہونا تھا، حسب سابق لوگوں کو بسوں میں بیٹھنے اور سب کا سامان رکھنے میں کا فی دیر ہو گئی ۔اُس دن کی کیفیت بھی نرالی تھی ،کعبے کو چھوڑ کر جانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا اور مدینہ اپنی طرف کھینچ کھینچ کر بلا رہا تھا۔ بیت اللہ سے جدائی کا غم اور روضۂ رسولﷺ تک پہنچنے کی کشش دل میں لئے اپنا سفر شروع کیا ۔اُس دن میری طبیعت بہت خراب تھی، تیز بخار اور کان میں شدید درد تھا، لیکن اس روز زندگی میں پہلی بارمجھے اپنی طبیعت کی بالکل فکر نہیں تھی۔ زبان پر تو درود پاک کا ورد تھا ہی، ساتھ ساتھ دل کی ہر دھڑکن صل علی محمدﷺ کہہ رہی تھی۔ مکے سے مدینے کا سفر محبتوں کا سفر تھا ، مکہ سے مدینہ 425 کلومیٹر دور ہے۔ ہمیں تقریباً سات گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد مدینہ پہنچنا تھا ۔باہر شدید گرمی تھی، راستے میں باہر دیکھنے پر وہی اونچے اونچے پہاڑ اور تپتے ہوئے لق و دق میدان نظر آرہے تھے۔عرب اور اونٹ لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں، لیکن اب تک ہمیں اونٹ کہیں نظر نہیں آئے تھے ۔بالآ خر ایک میدان میں ہمیں ڈھیروں اونٹ نظر آگئے، سڑک کے کنارے باڑھ لگا دی گئی تھی، تاکہ اونٹ سڑک تک نہ پہنچ سکیں اور ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث نہ بنیں،آدھے راستے میں بسیں ایک اسٹاپ پر بھی روکی گئیں، تاکہ لوگ واش روم جاسکیں اور ظہر کی نماز ادا کرسکیں ،راستے کا ہوٹل بہت بری کنڈیشن کا ایک عام سا اسٹیشن تھا، جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، بلکہ واش رومز میں پانی بھی نہیں تھا۔ لوگوں کو وضو کرنے میں بھی بہت مشکلات پیش آئیں، اس ہوٹل کو دیکھ کر سندھ کے ہائی ویز کے بری حالتوں والےہوٹلز کا خیال آرہا تھا، سب کو بھوک بھی لگ رہی تھی، لیکن ایک تو میری طبیعت خراب تھی اور دوسرے وہاں کی کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر کچھ بھی خریدنے کا دل نہیں چاہا ۔ہم نے نماز ادا کی، بسکٹ کھاکے دوا لی اور ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوگیا۔ مدینہ منورہ میں حاضری کوئی عام حاضری نہیں تھی، محبت و عقیدت کے ساتھ احسان مندی، شکر گزاری، شرمساری کی کیفیات لئے ہمارا سفر جاری تھا۔ رسولﷺ کی محبت تو ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے ہی، لیکن نجانے کیوں اُس دن مجھے رسول اکرم ﷺ کی اپنی امت سے محبت کا خیال بار بار آرہا تھا اور اپنی خوش قسمتی پر رشک آرہا تھا کہ میں اپنے پیارے نبی ﷺ کی امت میں شامل ہوں ، مجھ گناہ گار کو آپ ﷺ کی شفاعت کی امید بھی ہے، اس موقع پر بار بارعلامہ اقبال کا وہ قطعہ یاد آرہا تھا، جو انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے ایک شاعر کو بخش دیا تھا ۔اس سے پہلے بھی جب یہ قطعہ پڑھا، آنکھیں چھلک چھلک گئیں ،لیکن اس سفر کے دوران تو اس قطعہ کے یاد آنے کے بعد آنسو جو بہنا شروع ہوئے تو کسی طرح رک ہی نہیں رہے تھے ، قطعہ کچھ یوں ہے :
تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
در حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہ مصطفی پنہاں نگیر
ترجمہ : اے رب ذوالجلال تو دونوں جہانوں سے غنی اور میں فقیر ہوں ،روز قیامت میرے نامۂ اعمال سے در گزر کرتے ہوئے میری التجا قبول فرمااور اگرمیرا نامۂ اعمال دیکھنا نا گزیر ہی ٹھہرے تو اتنا کرم کرنا کہ میرے مصطفی ﷺکی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
یا نبی ﷺ ہم آپ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ آپ ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرماتے ہوئے اللہ کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں گے،اپنی امت کی محبت میں بہائے گئےآپ ﷺکے آنسو ہم گنا ہگاروں کی بخشش کا سبب بنیں گےانشاءاللہ۔ہم سرکار مدینہ کے فضل کی امید لئے شام مغرب کے وقت مدینہ پہنچے۔ مسجد نبوی کے گیٹ نمبر 26 کے پاس ہی ہمارا ہوٹل کنز الایمان تھا، جس کی نویں منزل پر ہمیں کمرہ ملا۔مغرب کے وقت تو پہنچے ہی تھے، اس لئے میں نے نماز ہوٹل میں ہی پڑھی ،کان کا درد چین نہیں لینے دے رہا تھا، دوبارہ دوا کھائی اور نہا دھو کر عشاء کی نماز کے وقت مسجد جانے کے لئے ہوٹل سے نکلے ،جذبات کی شدت اتنی تھی کہ قدم باقاعدہ لرز رہے تھے۔ ہم جب اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے رب سے یہ امید کر رہے تھے کہ ہمارا نامۂ اعمال ہمارے پیارے مصطفی ﷺ کی نگاہوں سے چھپا لینا تو سوچیں ذرا کہ جب خود ان کے حضور پیش ہونے جا رہے تھے تو کیاکیفیت ہوگی، بقول شاعروہی حال تھا کہ ،
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
سبز گنبد نظر آیا تو دل کی عجب ہی کیفیت تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ میں قدم قدم پر آسانیاں عطا فرمائیں، بالکل اسی طرح مدینہ میں پہلے قدم پر ہی ایک آسانی یہ ملی کہ ہوٹل کے پاس ہی گیٹ نمبر 25 تھا۔ ہم گیٹ نمبر 25 یا 26 کے کسی بھی دروازے سے اندر داخل ہوسکتے تھے ،سامنے ہی خواتین کے لئے مخصوص جگہ تھی، جہاں آسانی سے داخل ہو گئی۔ پہلی مرتبہ مسجد نبوی گئی تھی، اگر ہم کسی اور دروازے سے داخل ہوتے تو مجھے راستہ ڈھونڈنے میں بہت دیر لگ جاتی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے سیدھی وہیں پہنچی،جہاں خواتین جائے نمازوں پر بیٹھی اذان کا انتظار کر رہی تھیں ۔ سامنے ہی لکڑی کے بڑے بڑے پارٹیشن لگے تھے۔ میں ایک انڈین خاتون کے پاس بیٹھ گئی اور ان سے اندر جانے کے طریقہ کار کے با رے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پارٹیشن نماز کے بعد کھولے جائیں گے، تاکہ خواتین روضۂ رسول ﷺ کا دیدار اور ریاض الجنہ میں نفل ادا کرسکیں ۔وہ خاتون پہلے حج کر چکی تھیں، لہٰذا اُن سے کافی معلومات حاصل ہوئی۔ وہ دن چونکہ ایام حج کے بعد پہلا دن تھا، یعنی 13 ذی الحج کا دن، اس لئے رش کافی کم تھا، کیونکہ لوگ آہستہ آہستہ مدینہ آرہے تھے ،پھر رش بڑھنے کا امکان تھا۔ میں نے سوچا کہ آج کا دن زیارت کے لئے بہترین ہے۔ اپنے میاں کو فون کیا کہ نماز کے بعد میں مسجد میں رک جاؤں گی، اگر آپ جانا چاہیں تو چلے جائیے گا ،ہوٹل سامنے ہی تھا، اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں تھی ۔ نماز ادا کرنے کے بعد تمام خواتین انتظار میں بیٹھ گئیں۔ میں نے آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع کردیا، آگے جہاں خالی جگہ نظر آتی، وہاں کھسک جاتی ۔عربی خواتین گارڈ عورتوں کو کنٹرول کرتےہوئے، شور شرابے سے منع کررہی تھیں۔ اچانک ایک ہلچل مچی اور گیٹ کھول دیے گئے۔ گیٹ کھلتے ہی خواتین دیوانوں کی طرح اندر بھاگیں ۔میں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور بھاگنا شروع کردیا۔ رش کافی کم تھا، ہم آسانی سے اندر پہنچ گئے۔ میں نے خواتین کو نیت باندھتے دیکھا حیران ہوکر پیروں کے نیچے نظر ڈالی تو میں سبز قالین پر کھڑی تھی، یعنی ریاض الجنۃ میرے سامنے تھا ور مجھے دھکے دے کر ہٹانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جو جگہ میرے منبر اور حجرے کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے "اللہ کا جتنا شکر ادا کروں، کم ہے کہ میرے مالک نے دنیا کی زندگی میں ہی جنت کے فرش پر اتنی آسانی سے سجدہ کرادیا۔ لوگوں سے سنا تھا کہ ریاض الجنۃ میں نفل ادا کرنا مشکل ترین کام ہوتا ہے، لیکن وہ دن میرے لئے نہایت مبارک دن تھا، آرام سے نوافل ادا کر کے سر اٹھایا تو روضے کی جالیاں دیکھنے کی خواہش اورآپ ﷺکو سلام پیش کرنے کے شوق نے بےتابی سے سر اٹھایا، لیکن اب مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا، ریاض الجنہ اور روضۂ رسول ﷺکی جالیوں کے درمیان سفید رنگ کی شیٹیں اس طرح لگادی گئی تھیں کہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کوشش کرنے پر بھی کچھ نظر نہ آیاتو مایوسی ہوئی، دور جا کر پنجوں کے بل کھڑے ہوکر دیکھنے کی کوشش کی تو منبر رسول ﷺ کی جھلک دکھائی دی، آس پاس کی ان خواتین سے جو پہلے بھی مدینہ آچکی تھیں، پوچھا کہ یہاں تو کچھ نظر ہی نہیں آرہا تو انہوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا، کیونکہ وہ لوگ کافی سال پہلے آئی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ پہلے ایسا نہیں تھااور روضے کی جالیوں کو بآسانی دیکھا جاسکتا تھا، لیکن اب تو ایک جھلک بھی دکھائی نہ دی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ خواتین بدعات بہت کرتی ہیں جیسے کہ جالیوں کو چومنا ، اس میں دھاگے باندھنا یا دور سے ہی کا غذ پر لکھے ہوئے مسئلے پھینکنا وغیرہ وغیرہ تو اس لئے اس کا یہ حل نکالا گیا کہ ان کا جالیوں کو دیکھنا ہی منع ہو گیا ، نہایت افسوس ہوا زندگی میں پہلی بار حاضری نصیب ہوئی بھی تو تشنگی جوں کی توں باقی رہی ،بے اختیار رونا آگیا۔ حضور اکرم ﷺ کو سلام پیش کیا تو ساتھ ہی منہ سے نکل گیا کہ " یا رسول ا للہ ﷺ میں تو بڑی دور سے آپ کوسلام پیش کرنے آئی تھی۔ میرے دل میں تو آپ کی جالیوں کے دیدار کی حسرت نجانے کب سے تھی،میں کوئی بدعت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، پھر مجھے کیوں دیدار سے محروم رکھا ،میرے نبی نے مجھے در پہ بلایا تھا ،پھر یہ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے "دل اتنا اداس ہوا کہ پھر وہاں رکا ہی نہیں گیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام پیش کرتے ہوئے باہر نکل آئی ۔ میری طرح کتنی ہی خواتین تھیں، جو یہ سب دیکھ کر دکھ کا شکار تھیں۔ ہم وہاں تک پہنچتے ہیں پھر بھی ان لوگوں کی مرضی ہے کہ ہمیں جالیوں کا دیدار کروائیں یا نہیں ،جب منٰی میں ایک رضاکار ہزاروں لوگوں کو اپنے اشاروں پر اِدھر سے اُدھر کر سکتا ہے تو کیا مسجد نبوی میں وہ عورتو ں کو بدعات سے نہیں روک سکتا۔
میرے نبی ﷺ کے سونے میں تولنے کے قابل الفاظ " کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں اور کسی عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں یاد آتے رہے " دل چاہتا تھا کہ ان سے پوچھوں کہ " کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں ۔ کیا تمہارا نبی ہے ہمارا نہیں " بہر حال اس وقت تو روتے روتے میں ہوٹل واپس آگئی، پھر یہی خیال آیا کہ نعمتوں پر شکر ادا کروں اور مشکلات پر صبر کروں تو اللہ اور اس کا رسول ﷺ خوش ہوںگے۔ دوسرا دن مسجد نبوی کے آس پاس گھومنے اور صحن کا چکر لگانے میں گزرا۔ میرے میاں روضۂ رسولﷺکے بالکل پیچھے اس حصے کی طرف لے گئے، جہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سے قبر مبارک بہت نزدیک ہے ،وہاں جا کر سلام پیش کیا۔ ظہر اور عصر کی نماز کے بیچ کے وقفے میں گیٹ نمبر 6 کے سامنے کھجور منڈی دیکھی، ساتھ لانے کے لئے کھجوریں خریدیں، دوپہر کو ہی "البیک بروسٹ " کھانے کا شوق بھی پورا کرلیا اور ہماری قطر کی ساتھی زرقا کا کہنا صحیح ثابت ہوا کہ آپ لوگوں کو البیک اچھا نہیں لگے گا۔ زرقا تقریباً پوری دنیا گھوم چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو البیک اچھا نہیں لگتا، کیو نکہ اس میں کسی عربی مسالے کا ہربل ذائقہ سب کو اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں بھی اس میں سونٹھ ٹائپ کسی مسالے کا ذائقہ کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا، برا تو نہیں لگا، لیکن کوئی خاص بات بھی نہیں لگی، بہر حال کھا لیا، اگر نہیں کھاتے تو شاید شوق برقرار رہتا۔ اگلے دن ہمارے ٹریولنگ گروپ والے ہمیں زیارتوں پر لے کر گئے، مسجد قبا جس کے بارے میں حدیث میںہے کہ " وہاں دو رکعت نفل نماز پڑھنے کا اجر عمرے کے برابر ہے " بے انتہا رش کے باعث بڑی مشکل سے نماز ادا کی۔ ایک سجدہ کسی کی کمر پر ہوتا تو دوسرا سجدہ کسی کےپیروں پر ،لیکن اُس وقت ممتاز مفتی کی وہ بات یاد آگئی کہ " سجدہ نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں ،احساس حضوری تو خود سجدہ ہے ،" یہی احساس حضوری مسجد قبلتین میں بھی کام آیا، پھر ہم میدان اُحد پہنچ گئے۔ آنحضور ﷺ اُحد پہاڑ پر جایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ’’اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں '۔ اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا چاہیے‘‘۔پھر سید الشہداء حضرت حمزہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ اور تمام شہدائے اُحد کو سلام پیش کیا ، جنگ خندق کی جگہ بھی دیکھی اور ظہر کی نماز سے پہلے پہلے مسجد نبوی واپس آگئے۔ راستے میں آنے والے ہر مقام کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتایا جا رہا تھا، لیکن مدینہ میں تو قدم قدم پر اسلام کی عظمت و رفعت کی داستانیں رقم ہیں۔ اللہ نے اس شہر کو اتنی فضیلت بخشی کہ اپنے محبوبﷺ کا مسکن بنایا، وہاں تو انسان مہینوں بھی گھومتا رہے تو سیراب نہیں ہوسکتا ۔ اب صرف ایک دن بعد ہماری واپسی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ ایک مرتبہ اور حضور ﷺ کےروضۂ انورکے قریب پہنچ جاؤں ،اس دن توایسی کیفیت تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ میں نے سلام بھی صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا۔ کچھ لوگوں نے بطور خاص کہا تھا کہ ہماری طرف سے بھی سلام پیش کرنا، وہ بھی یاد نہیں رہے ، اس لئے آخری دن اپنی عزیزیہ کی دوستوں کے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا، عشاء کے بعد بیٹھے تو آج پہلے دن کے برعکس کافی رش تھا ۔ عرب اور ہندوستانی اورپاکستانی زائرین کو الگ الگ بٹھایا جا رہا تھا۔ انڈین اور پاکستانی ناراض تھے کہ ہمیں الگ بٹھاتے ہیں اور پھر عرب زائرین کی طرف کا گیٹ کھول کر انہیں اندر بھیج دیتے ہیں۔ خیر انتظار کیا اور جب گیٹ کھلا تو کیا عرب اور کیا ہندوستانی اور پاکستانی سب دیوانوں کی طرح دوڑتے ہوئے اندر گھس گئے۔ آج اندر بھی رضاکار عورتیں زائرین کو روکے کھڑی تھیں اور باری باری ریاض الجنۃ تک جانے دے رہی تھیں۔ رش میں کھڑے کھڑے میری طبیعت خراب ہونے لگی تو میں نے اپنی ساتھیوں سے کہا کہ میں واپس جا رہی ہوں۔ بڑی مشکل سے بھیڑ میں سے نکل کر آب زمزم کے کولر تک پہنچی۔ آب زم زم پیا اور با ہر کی طرف جانے والے راستے پر قدم بڑھائے تو ایک مرتبہ پھر اللہ نے مجھ گناہ گار پر کرم کردیا، اتفاقاً ٹھیک اسی وقت اُس طرف کھڑی ہوئی خواتین کا راستہ کھول کر انہیں ریاض ا لجنۃ میں جانے کی اجازت دےدی گئی اور ایک مرتبہ پھر میں ریا ض الجنہ میں نماز پڑھ رہی تھی "سبحان اللہ" اگر میں وہاں سے نہیں نکلتی تو شاید ایک گھنٹہ اور انتظار میں کھڑی رہتی ،کیو نکہ میری ساتھی خواتین کافی دیر بعد ہوٹل واپس آئیں، لیکن اللہ نے ایک بار پھر مجھے آسانی عطا کردی ،جن لوگوں نے سلام پیش کرنے کا کہا تھا ،اُن کی اور اپنی طرف سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک بار پھرسلام پیش کیا اور ہوٹل واپس آگئی۔ اب بس نماز فجر مسجد نبوی میں ادا کرنی تھی اور ہمیں واپسی کے لئے نکلنا تھا ۔صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے بوجھل دل سے مدینہ اور تاجدار مدینہ ﷺ کو الوداع کہا، وہاں سے یہ التجا کرتے ہوئے رخصت چاہی کہ اللہ ہمیں ایک بار پھر وہاں پہنچنے کی سعادت نصیب کرے، کیو نکہ اب تو بقول شاعر :
اقبال دو گھروں کا پتہ دل پہ نقش ہے
کعبہ خدا کا گھر ہے مدینہ حضور ﷺکا