• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشیمانیاں اُٹھانے کے ہم بہت دلدادہ ہو چکے اور سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی ہماری ریاستی توفیق پہ، کارِسرکار کی تذویراتی گنجائش پہ تو اب اپنا سر پھوڑنا ہی باقی بچا ہے۔ ایسے میں ہمیں ملے بھی تو نوزائیدہ اور من موہنے مشیرِ مالیات مفتاح اسمٰعیل جن کی لاٹری کھلی بھی تو اسحاق ڈار کی فراریت پر! موصوف کا کہنا ہے بس یہ تھوڑی سی خفگی کی بات ہے اور پاکستان پہلے بھی اس شرمندگی کا نہایت بردباری سے سامنا کر چکا ہے اور ہمارا بال تک بیکا نہ ہوا۔ اب پھر ہم اپنے پرانے تجربے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس زحمت کو گوارا کر لیں گے، بس سال چھ مہینے کی ہی تو بات ہے۔ ہائے قربان جایئے اپنے مفتاح کی اس سادگی پہ! مگر انہیں داد دیئے بنا چارہ نہیں کہ ان کے بقول اُنہوں نے دس سال پہلے جو کام ہونا تھا وہ دو ماہ میں کر دکھایا۔ پہلے تو خبر ہی نہ پڑی کہ پاکستان کو پھر سے دوسری بار عالمی مالیاتی ٹاسک فورس (Financial Action Task Force = FATF) نے خاکستری فہرست (Grey List) میں ڈال دیا ہے۔ اور ہمارے مجمع باز وزیرِ خارجہ نے تو ٹوئیٹر پر قوم کو فتح مندی کا مژدہ بھی سنا دیا تھا۔ ایسی عجلت اور ایسی سفارتی پُرکاری! واہ کیا کمال ہے۔ پھر وزارتِ خارجہ کو چپ لگ گئی اور حربی ٹوئٹ پر بھی سناٹا رہا۔ پھر معلوم پڑا کہ پاکستان کا نامِ گرامی ابھی نہیں، مگر جون میں خاکستری فہرست کی زینت بنے گا اور اگر عالمی مالیاتی نظام کی دہشت گردی کے سرمایے کی نگرانی کی تنظیم (FATF) کے تجویز کردہ اقدامات پر بھی عمل نہ ہو سکا تو پاکستان شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ کالی فہرست (Black List) پہ رونق افروز ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی روایتی پھرتیوں سے باز آ گئے تو خاکستری فہرست تو ہمارا مقدر ہی رہے گی کہ ہم پہ اعتبار کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ سعودی عرب نے ساتھ چھوڑا (شاید پورا رُکن بننے کے لئے) تو چین کے بس میں نہ رہا کہ ہمیں ہزیمت سے بچا پاتا کہ ترکی سمیت اس لعنت سے بچنے کے لئے دو اور ووٹ درکار تھے۔
یہ ویسا ہی قدم ہے جیسے ہمارے ہاں مشتبہ دہشتگردوں کو پولیس کڑی نگرانی کے لئے خاص کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ یہ مالیاتی ٹاسک فورس عالمی سطح پر ایسے ناجائز سرمایے کی تلاش میں رہتی ہے جو دہشت گردوں کو کمک پہنچاتا ہے۔ ہماری ہاں جہاد اور وطن پرستی کچھ ایسی گڈ مڈ ہوئی یا پھر جہادی تنظیمیں اور اُن کی دُنیا بھر میں چاہی جانے والی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے بندش لگنے کے باوجود (خود اپنی ہی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی عظیم قربانیوں کے باوجود) کالعدم تنظیموں کو نئے رنگ و روپ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کام کرنے دیا۔ فلاحی تنظیمیں بدستور انسانیت کے نام پر خون خرابے کے لئے چندہ اکٹھا کرتی رہیں اور جہادی بھائی چارے کے لئے استعمال کرتی رہیں۔ ہائے کیا کریں اس جدید دُنیا کی غافل نہ ہونے والی تکنیکی نگاہوں کا کہ وہ ان پراسرار مالی ادائیگیوں کو دیکھ رہی تھیں اور ہمارے گرد شکنجہ اور جکڑ دیا گیا ہے۔ بھلے ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی عظیم قربانیوں اور کامرانیوں کے پھریرے کیسے ہی لہرایا کریں۔ اور ہم کوستے رہ گئے اپنے سفارتکاروں کو یا پھر بے بس سول حکومتوں کو کہ تم نااہل ہو اور ہمارا بیانیہ بیچ نہیں پا رہے۔ بھلا جھوٹ کے پاؤں کہاں! اسے کہتے ہیں دمڑی کے لئے شاطر اور اشرفی کے لئے احمق (Penny wise and pound foolish)!
ماشا اللہ! خیر سے وزیراعظم خاقان عباسی کی صدارت میں اٹھارہ کے قریب کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس ہو چکے۔ لیکن ضروری اقدامات اور پالیسی کے از سرِ نو جائزے میں بہت دیر کر دی گئی۔ اور مطلوبہ دہشت گرد تنظیموں اور اُن کی فلاحی انجمنوں پہ قدغن لگی بھی تو FATF کے اجلاس کے موقع پر جب ایک دہائی کی دُہائیوں کے بعد صدرِ مملکت نے اُنہیں کالعدم کرنے کے لئے ایک آرڈیننس جاری کیا اور ہماری کارکردگی کی دو رپورٹیں بھیجی بھی گئیں تو FATF کے اجلاس سے ذرا پہلے۔ اور ابھی جن اقدامات کا سوچا جا رہا ہے، اگر ان پر عمل ہوا تو جون میں عالمی ادارہ یہ دیکھے گا کہ ہم پھرکیا ہیرا پھیری سے بھی تائب ہوئے کہ نہیں۔ ہم اتنا زبردست ملک ہیں، ماہر سفارتکاروں کی کمی نہیں اور اینٹ اُٹھاؤ تو دفاعی و سلامتی کے امور کا ماہر مل جاتا ہے، پھر بھی یہ ہماری ناقص حکمتِ عملی اور دہری پالیسیوں کا پھل جس کی کڑواہٹ سے اب تو اصل پالیسی سازوں کو بدمزہ ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایک ہی کام کو بار بار اُسی طریقے سے کرنے اور مختلف نتائج کی اُمید رکھنے کے ہم اتنے دلدادہ ہیں کہ بدلنے کو نہیں۔ چالیس برس سے زائد امریکی جہاز چلانے اور اس کا بہیمانہ نشانہ بننے، دسیوں ہزار شہری مروانے اور ہزاروں جانباز سپاہیوں اور مردانہ وار افسروں کی قربانیاں دینے اور اربوں ڈالر کا نقصان اُٹھانے کے باوجود ہماری تزویراتی مہم جوئی میں کمی نہیں آئی۔ اور ترکے میں افغانستان میں تزویراتی گہرائی تو کیا ملنی تھی، اُلٹا تزویراتی اثاثے ہمارے گلے میں چھچھوندر کی طرح اس طرح پھنسے ہیں کہ نگل پائیں نہ اُگل پائیں۔ ان بوالعجبوں کا کیا کریں جنہیں وطن عزیز سے زیادہ تذویراتی کھلونے عزیز ہیں؟
مگر معاملہ دہشتی سرمائے اور اس کی ریل پیل سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ لیکن وطنِ عزیز کی سلامتی کو ہر چہار جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات کو گلے لگانے میں کیا حکمت ہے؟ کوئی عقاب ہم جیسی راندۂ درگاہ فاختاؤں کو بھی کچھ سجھائے! افغانستان عالمی طاقتوں کی لگائی آگ میں جھلسا ہے، اور بے چارے افغانوں کی چار نسلیں اس کی نذر ہو چکیں۔ اس آگ میں ہمیں بار بار کودنے کی کیا ضرورت۔ ہم اُس دلدل میں پھنسے رہنے پہ کیوں اتنا مصر ہیں، جہاں سوویت یونین کے بعد تمام مغربی عالمی قوتوں اور امریکہ بہادر ناکام ہو چکے ہیں۔ امریکہ جانے اور افغان جانیں اور افغان طالبان جانیں۔ ہماری مہمان نوازی ہمارے لئے سوہانِ روح کیوں بنے۔ بھئی حقانیوں اور طالبان کے لئے اب افغانستان میں بہت ٹھکانے ہیں وہ جانیں اور افغان حکومت جس کے صدر نے اب افغان طالبان کو گولہ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور سیاسی حزبِ اختلاف کے طور پر غیرمشروط بات چیت کی دعوت دے دی ہے۔ امریکہ کو افغان طالبان نے براہِ راست بات کرنے کا دعوت نامہ بھی ارسال کر دیا ہے۔ ہماری اوّل و آخر ضرورت افغانستان میں امن کی بحالی ہے اور بھارت کو وہاں سے عقب سے حملہ آور ہونے کی صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا۔ چین پاکستان معاشی شاہراہ (CPEC) کو تو افغانستان اور وسطی ایشیائی سمیت جنوبی ایشیا کا مرکزہ بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر ہمارا معاشی و تذویراتی بنیادی ہدف یہی ہے تو پھر باقی جھگڑے اور اشتعال انگیزیاں ختم کرنی ہوں گی۔ ہماری مدد کے بغیر امریکہ افغانستان سے خلاصی نہیں پا سکتا اس کے لئے اسے ہماری ضرورت ہے۔ لیکن امریکہ کچھ اور بھی چاہتا ہے جو ہمیں قبول نہیں ہوگا۔ البتہ اگر CPEC نے جنوبی ایشیا تک پھیلنا ہے تو پھر چین چاہتا ہے کہ بھارت کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
روس میں اُلفا (Ulfa) کے مقام پر مودی نواز شریف ملاقات کے بعد جو برف پگھلی تھی اس کے باعث ہم خاکستری فہرست سے نکل پائے تھے۔
بھارت کے ساتھ مکالمے کے آغاز کی جو اُمید وزیراعظم مودی کے جاتی امرا آنے پر بندھی تھی وہ پٹھان کوٹ اور اُری کے واقعات سے ملیامیٹ ہو گئی۔ اب بھارت ہر طرف سے چڑھائی کر رہا ہے اور ہمارے لئے جوابی محاذ آرائی کا یہ وقت نہیں۔ بھارت کے اگلے انتخابات تک یہی کیفیت برقرار رہے گی۔ لیکن دریں اثنا ہم کم از کم منقسم کشمیر کے دونوں جانب تباہ ہونے والے کشمیریوں کو تو لائن آف کنٹرول پہ جاری رہنے والی گولہ باری سے محفوظ کرنے کے لئے تو کچھ کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ بھارت کو پاکستان میں اور ہمیں سرحد کے اُس پار چھیڑ چھاڑ سے پرہیز کرنے کی کوئی موثر تجویز پیش کرنی چاہیے۔ قدم اور بھی بہت سے اُٹھانے کے ہیں لیکن رانجھا تخت ہزارے سے چلے بھی۔ پشیمانیاں اُٹھانے کے ہم بہت دلدادہ ہو چکے اور سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی تذویراتی گنجائش پہ اب اپنا سر پھوڑنا باقی بچا ہے۔ لیکن سر پھوڑنے سے کیا حاصل؟ (شکر ہے جیسے کیسے سینیٹ کے انتخابات ہو گئے اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود بادشاہت کے لئے نااہل بادشاہ قصۂ پارینہ نہ ہوئے۔)

تازہ ترین