رضوان احمد طارق
کسی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اس میں نیا خون شامل کرنا بہت ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نیا خون زیادہ تر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اور تجارتی اداروں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے تجارتی اور کاروباری اداروں اور گھریلو صنعتوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ا پنا کاروبار شروع کرنا اور اسے کام یابی سے ہم کنارکرنا آج کی دنیا میں کوئی آسان کام نہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں نئے کاروباریوں کو آگے لا نے کے لیے مختلف سطحوں پر تعلیم اور تربیت دینے کے لیے ادارے قائم ہیں۔ اپنا کاروبار شروع کرنے کا جذبہ انٹرپرینیور شپ کہلاتا ہے۔ انٹرپرینیور کے لغوی معنی کچھ یوں ہیں:’’کوئی شخص جو منافعے کی امید میں کوئی عملی منصوبہ یا کاروبار اختیارکرے جس میں نقصان کا احتمال ہو، مہم جُو، ٹھیکے دار، جو بیچ کا بچولیا ہو۔کسی تجارتی مہم کو چلانے والا شخص جس کے پاس عنانِ کار ہو یا وہ کاروبار کا مختار ہو۔‘‘ انٹرپرینیورز کی ملکی اور عالمی اقتصادی نظام میں اہمیت کے پیشِ نظر دنیا بھر میںہو برس 16؍اپریل کو انٹرپرینیور شپ ڈے منایا جاتا ہے۔
آج دنیا بھر میں خواتین انٹرپرینیورز کی تعداد پہلے کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان میں بھی دس پندرہ برسوں میں بہت سی خواتین انٹرپرینیورز سامنے آئی ہیں ۔لیکن دیگر ممالک کے مقابلے میں اس ضمن میں یہاں ان کے لیے حالات بہت زیادہ سازگار نہیں ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں خواتین انٹرپرینیورزکی تعداد بہت سست رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ بہت سے دیگر شعبوں کی طرح ملک میں اس حوالے سے بھی اعداد وشمار دست یاب نہیں ہیں،لیکن ایک اندازے کے مطابق ملک میںخواتین کی کُل آبادی میں خواتین انٹرپرینیورز کی شرح صرف ایک فی صد ہے ۔
زیمبیا جیسے ملک میں یہ شر ح چالیس فی صد،سب صحارا افریقا کے خِطّے میں ستّائیس ، لاطینی امریکا اور کیریبیائی معیشتوںمیںپندرہ،وسطی ایشیا میں سب سے کم،یعنی چار اورایشیا کے ترقّی یافتہ حصّوں ا و راسرائیل میں پانچ فی صد بتائی جاتی ہے۔ ا مر یکا میں خو ا تین انٹر پر ینیورز کی تعداد اورملک کی معیشت پر اس کے ا ثر ا ت کے بارے میں قابلِ اعتبار اعدادوشمار موجود ہیں ۔ ایک محتاط اندازےکے مطابق وہاں 1997کےمقا بلے میںخواتین کی ملکیت میں موجود کاروبار میں اُنسٹھ فی صد اضافہ ہوچکا ہےجو تمام انٹر پرائزز کا 29فی صد بنتا ہے۔اسی طرح خواتین کی ملکیت میں موجود کاروبار ملک کے اٹہتّر لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔
پاکستان میں انٹرپرینیورشپ کے فروغ کے ضمن میں صورت حال بہت خر ا ب نظر آتی ہے۔ حالاں کہ یہاں انٹرپرینیور شپ کے فر و غ کے بہت زیادہ امکا نا ت اور مواقعے موجود ہیں۔اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرکاری ا د ا ر وں کا ڈھانچا اور ان کے کام کا طریقہ راہ کی بہت بڑی ر کا وٹ ہے۔ دوسری اہم رکاوٹ لوگوں کی راتوں رات ا میربن جانے کی خواہش ہے۔تیسری اہم وجہ انٹرپرینیورشپ کے فروغ کے لیے تعلیم اور تربیت فراہم کرنے والے اداروں کی کمی ہے۔ چوتھی اہم وجہ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیز میں تسلسل نہ ہوناہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کے قیام کے ا بتد ا ئی برسوں میں بہت سے چھوٹے، درمیانے اور بڑے د ر جے کے کاروباری اس لیے تیزی سے سامنے آئے تھے کہ اس وقت لوگوں میں ملک کی تعمیرکا جذبہ عروج پر تھا اور دوسری طرف سرکاری اداروں میں بدعنوانی اور اقربا پر و ر ی آج کی حد تک نہیں تھی۔
ملک میں انٹرپرینیور شپ کو فروغ نہ ملنے کی دو مزید وجوہ بھی بتائی جاتی ہیں، یعنی کم شر ح خواندگی اور خواتین کے لیے آگے بڑھنے کے بہت کم مواقعے۔ حالاں کہ دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق اور تجر بات سے پتا چلاہے کہ ہے کہ جن خواتین کو اپنا کار وبار شر و ع کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، انہوں نے توقع سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور آگے چل کر وہ بہت کام یاب انٹرپرینیور ثابت ہوئیں۔ ماضی میں پاکستان کا حصہ رہنے والے اور آج کے بنگلا دیش میں گرامین بینک نے یہ بات پوری طرح واضح کردی ہے کہ اگر خواتین کو مواقعے فراہم کیے جائیں تو وہ مردوں سے زیادہ بہتر نتا ئج دیتی ہیں۔
گرامین بینک کے سربراہ متعدد بار ملکی اور عا لمی سطح پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے بینک سے قرض حاصل کرنے والے مردوں کے مقابلے میں خواتین ز یادہ مفید انداز میں قرض کی رقم استعمال کرتی ہیں اور وہ زیادہ پا بند ی کے ساتھ قرضوں کی قسطیں ادا کرتی ہیں۔
آج کی دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے علم اور تربیت کے ساتھ تخلیقی صلاحیتیں بہت اہم گردانی جاتی ہیں۔ کسی شعبے میں نیا کاروبار شروع کرنے اور اسے کام یاب بنا نے کے لیے آج جِدّت،نُدرت، انوکھے پن، عمدگی ا و ر اختراعی فکر کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ تعلیم اور تربیت یہ صلاحیتیں نکھارتی ہیں، لیکن افسوس کہ پاکستان میں اس ضمن میں بہت کم سہولتیں موجود ہیں۔ دوسری طرف ہما ر ے پڑوس میں ایسی بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔
تاہم، یہاں صرف ایک ادارے کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ اس ادارے کا نام انٹرپرینیور شپ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف انڈیاہے، جس کامرکز احمدآباد،گجرات میں ہے۔ 1983 ءمیں نجی تجارتی اداروں اور حکومتِ گجرات کی فعال شر کت سے قائم ہونے والا یہ ادارہ تحقیق، تربیت اور ا د ا رے قائم کرنےکی تربیت دینے کی ذریعے بھارت میں ا نٹرپرینیور شپ کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 70 سے زائد ممالک کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہے۔ یہ ادارہ دو سا ل کا پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان بزنس مینجمنٹ اینڈ انٹر پر ینیور شپ، ایک سال کا پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان مینجمنٹ آف این جی اوز، ایک سال کا لرننگ پروگرام ان انٹرپرینیور شپ کراتا ہے اور کیپیسٹی بلڈنگ، سپورٹ فارریسرچ ان انٹرپرینیور شپ اور سمرکیمپس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔
ادھر ہم کیا کررہے ہیں؟ انٹرپرینیور شپ کے فروغ کے لیے تعلیم اور تربیت دینے والے اداروں کا فقدان ہے۔سیاسی عدم استحکام، پالیسیزمیں عدم تسلسل، ا نفر ا ا سٹرکچر کا برا حال، مربوط منصوبہ بندی کا فقدان، سرکاری فنڈزکا غلط استعمال، بدعنوانیاں، اقربا پروری، من پسند افرادکےلیےقرضے،پھر قرضوں کی معافی، نان پرفار منگ لونزکا بڑھتا ہوا گراف،زمین اور یوٹیلٹی بلزکے بڑ ھتے ہوئے نرخ، بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت وغیرہ یہاںانٹرپرینیور شپ کے فرغ کی راہ میں بُری طرح حائل ہیں۔ چناں چہ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
بھارت اور چین کی ترقی میں انٹرپرینیور شپ کے فروغ کا اہم کر د ا ر ہے۔ لہٰذا آج وہاں نوجوان کروڑ پتی اور ارب پتی افرادکی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کیا ہمیں مزید اسباق سیکھنے کے لیے کہیں اور جانے کی ضرورت ہے؟
دنیا بھر میں خواتین کی معاشی سرگرمیاں
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں معا و ضے کے عوض خدمات انجام دینے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 20 سے 54 برس کی خواتین کی کُل معاشی سرگرمیاں 70 فی صد تک پہنچ گئی ہیں، جو 1950ء میں 50 فی صد تھیں۔ یہ عمل کسی ایک خطّے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ہوا ہے ۔ 1980ء کے بعد سے افریقا کے علاوہ دنیا بھر میں مردوں کے مقا بلے میں خواتین کے برسرِ روزگار ہونے کی شرح میں نما یا ں اضافہ ہوا ہے۔ کینیڈا، امریکا اور اسکینڈے نیوین مما لک میں خواتین فعال آبادی کا تقریباً نصف حصّہ ہیں اور عمر کے اہم گروہوں میں ان کی فعالیت کی شرح 70 فی صدسے زاید ہے۔
ترقی پزیر ممالک کی افرادی قوّت میں بھی خواتین کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 60 فی صدسے تجاوز کر چکاہے۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ کے اکثر مما لک میں معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کی شرح اب بھی کم ہے، جو دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ البتہ چند دہائیوں سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک میں 1970ء میں یہ شرح 22 فی صد تھی، جو 1995ء میں بڑھ کر 27 فی صد ہوگئی تھی۔ عرب دنیا میں معاشی سر گر میوں میں فعال خواتین کی سب سے زیادہ شرح مصر اور لبنان میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ خلیجی ممالک میں یہ شرح سب سے کم بتائی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترقی پزیر ممالک میں بھی معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت کے سبب ا قتصا د ی عوامل کو فروغ ملا ہے اور افرادی قوّت کی بدلتی ہوئی ا شکا ل سامنے آچکی ہیں۔اب ابھرتے ہوئے صنعتی مما لک میں،جہاں برآمدی پیداوار پر زیادہ زورہے، صنعتو ں میں خواتین محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر لیے گئے جائزے کے مطابق عالم گیریت کے ا ثر ا ت کے تحت جن ممالک کی برآمدات میں اضافہ ہوا، وہاں افرادی قوّت میں خواتین کا کردار ناگزیر ہے، مثلاً بنگلا دیش میں 1978ء میں صرف چار گارمنٹ فیکٹریز تھیں، لیکن 1995ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2400 تک جا پہنچی تھی، جس میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 12 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ اس افرادی قوّت میں خواتین کا حصّہ 90 فی صد تھا۔
بنگلادیش میں یہ صنعت محنت کش خواتین کی 70 فی تعداد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح ڈو مینیکن ری پبلک، انڈونیشیا، ماریشس، فلپائن، ری پبلک آف کوریا، تائیوان اور تیونس کی برآمدات بھی اور وہاں برسرِِ روزگار خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایشیا میں چین، بھارت، ملائیشیا اور فلپائن نے برآمدی مصنوعات کی پیداوار کے لیے خصوصی مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ ان مراکز میں افرادی قوّت میں خواتین کا حصّہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کیریبین ممالک میں قائم ایسے مراکز میں تمام تر افرادی قوّت خواتین پر مشتمل ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف کم مہارت والے کاموں میں نہیںہے،بلکہ سافٹ ویئرڈیزائننگ، کمپیوٹرپروگرامنگ اور ما لیاتی خدمات(بینک اور انشورنس) کے شعبوں میں بھی خواتین نے پیش قدمی کی ہے، جو زیادہ مہارت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان اعلیٰ مہارت کے شعبوں میں خواتین اعلیٰ اور فیصلہ سازی کے عہدوں تک پہنچتی ہیں۔
خواتین کا نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں حصّہ بڑھ رہا ہے، بلکہ ان میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جد و جہد کرنے کا شعور بھی بیدار ہو رہا ہے۔ ملائیشیا کے ا یکسپو ر ٹ پروسیسنگ زونز میں کام کرنے والی خواتین کا گروپ 1980ءسے فعال ہے، جو کارکن خواتین کو نہ صرف قا نو نی مدد فراہم کرتا ہے، بلکہ عوامی اجتماعات میں گفتگو کرنے اور قائدانہ صلاحیتیں پروان چڑھانے کے لیے کلاسز کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ اسی طرح وہاں کمیونٹی آرگنائزیشنز بھی فعال ہیں، مثلاً تینسی جینیتا ویمنز ورک فورس ایکشن گر و پ خواتین کو ان کے قانونی حقوق کی تعلیم دیتا ہے اور ٹا ئپنگ، سلائی اور عوامی اجتماعات میں گفتگو کرنے کی تربیت فراہم کرتا ہے۔ فلپائن میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں 41 ٹریڈ یونینز سرگرمِ عمل ہیں، جو ان زونز میں کام کرنے والے پانچ لاکھ محنت کشوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔ ان یونینز کی 30 فی صد قیادت خواتین پر مشتمل ہے۔
سری لنکا میں دو ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں 1980ء کی دہائی میں خواتین کے کئی گروپ قائم ہوئےجنہوں نے خواتین کارکنان کی تعلیم کے لیے کئی مراکز کھولے ہیں۔
کئی ترقی پزیر ممالک میں خواتین سیاحت، مالیات اور ابلاغ کے شعبوں میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔ مختلف ممالک کے اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ معیشت کے غیر رسمی شعبوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نجی شعبے اور ترقی کے بارے میں کمیشن نے دنیا میں غربت کی وجوہات اور اس میں کمی کے لیے نجی شعبے کے کردار کے ضمن میں 2003ء میں ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ کئی ترقی پزیر ممالک میں خواتین انفرادی سطح اور چھو ٹے پیمانے پر غیر رجسٹرڈ کاروبار کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر رجسٹرڈ سیکٹر میں ان کا نمایاں کردار ہے۔
تاہم ان خو ا تین کی اکثریت ناخواندہ ہے اور وہ پس ماندہ دیہی علا قو ں میں رہتی ہے۔ تعلیم سے بہرہ ور نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس گزر بسر کے لیے ذاتی کاروبار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔لا طینی امریکا اور جزائر غرب الہند میں 25 تا 35 فی صد کاروبار رجسٹرڈ ہے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار خواتین کی ملکیت ہیں۔ فلپائن جیسے ملک میں خواتین چھوٹے پیمانے پرکیے جانے والے کا ر و بار میں سرگرمِ عمل ہیں اور اس شعبے میں ان کی ملکیت کا تخمینہ 44 فی صد لگایا گیا ہے، جس میں 80 فی صد سے زاید حصّہ دیہات میں بسنے والی خواتین کا ہے۔ زمبا بو ے میں انفرادی اور چھوٹے پیمانے پر کیے جانے والے کاروبار میں خواتین کا حصّہ 67 فی صد ہے۔
مذکورہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے معاشرے میں، جہاں خواتین کی معاشی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں، وہاں گھریلو سطح پر کاروبار شروع کر کے پیسے کمانے کے مو اقعےپیدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ممالک جہاں رسمی قواعدو ضوابط کا سختی سے اطلاق ہوتا ہے، وہاں لوگ ان بندشوں کے باعث اپنی صلاحیتیں کاروبار کے لیے استعما ل نہیں کر پاتے، حالاں کہ ان حالات میں منظّم اور رجسٹر کاروبار معیشت کے لیے سود مند ثابت ہو سکتاہے۔
اب ہمیں بھی اپنی خواتین کومدد، بحشش ،جہیزیا دان کی صورت میں کچھ دینے کے بجائے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے والا سرمایہ،یعنی مناسب تعلیم،تربیت،رہ نمائی اور حوصلہ دینا ہوگا،کیوں کہ زمانہ بدل جو گیا ہے۔
شرح خواندگی اور انٹرپرینیور شپ میں تعلّق
تاجر برادری کے ممتاز رہنما ،انجینئر عبدالجبارکے مطا بق کسی معاشرے کی شرح خواندگی انٹرپرینیور شپ کے ر جحان کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر بہت محدود حد تک اس ضمن میں سبسیڈائز ڈتعلیم کی سہولتیں موجود ہیں۔ لیکن ان اداروں سے تعلیم اور تربیت حاصل کرکے نکلنے والے کسی اہم یا بڑ ے ادارے کے سربراہ نہیں بن سکے ہیں۔ یہ ادارے کسی حد تک لوگوں کی کیپیسٹی بلڈنگ بھی کرتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں چھوٹے سے کلسٹر میں اورکم وسائل کے سا تھ پروگریسیو ڈیولپمنٹ کے لیے انٹرپرینیور شپ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم بعد میں اسے اسمال انڈ سٹری کی سطح تک لے جاسکیں۔
کوریا میں اس طرح بڑے بڑے ادارے بنےہیں۔پاکستان میں نئی نسل کو انٹر پر ینیور شپ کا تجربہ عام طور سے والدین سے ملتا ہے۔ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) نے اس حوالے سے کچھ کام کیا ہے۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں مختلف سرکاری اداروں اور بینکس نے لوگوں کو 20 ہزار تا تین لاکھ کے قرضے دینے کے منصوبے شروع کیے تھے، جس سے ملک میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوئے، لیکن پھر اس میں درمیان کے عناصر داخل ہوگئے، جنہوں نے کام خراب کیا اور غریبوں کو آخر میں نقصان ہی ہوا۔ زراعت کے شعبے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بروکرز نے مال کمایا اور پھر بینکرپسی کے بعد اپنے ادارے بندکردیے۔
دراصل ملک میں اس بارے میں مربوط منصوبہ بند ی کا فقدان ہے۔ حکومتوں کی نیتیں خراب نہیں کہی جا سکتیں، لیکن منصوبہ بندی کے فقدان اور مانیٹرنگ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اچھے سے اچھا منصوبہ بھی تباہ ہوجاتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں درمیان کا آدمی سر کا ر ی مراعات حاصل کرکے یا مواقعےسے فائدہ اٹھا کر خو ب مال کماتا ہے، لیکن کسان ہمیشہ غریب رہتا ہے۔ سمیڈا اور بعض نجی کنسلٹنٹ ادارے لوپروڈکٹ انٹرپرینیور شپ کے فروغ کے لیے کچھ کام کررہے ہیں، لیکن مربوط انداز میں تعلیمی اداروں میں اس ضمن میں کوئی خاص کام نہیں کیا جارہا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، سمیڈا اور اسکل ڈیولپمنٹ کونسل کو باہم مربوط کیا جائے اور وہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں تو بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ہائرایجوکیشن کمیشن کے تحت اربوں روپے پی ایچ ڈی تیارکرنے پر خرچ کیے۔
انہوں نے بہت سے افرادکو پی ایچ ڈی کرنےاور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکے لیے بیرون ملک بھیجا۔ وہ لوگ پاکستان آ کر کیا کریں گے۔ یہاں انہیں ان کی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ملازمتیں نہیں مل سکتیں، کیوں کہ ہم نے یہاں ایسے ادارے نہیں بنائے ہیں۔ اس طرح یہ سرمایہ کاری غیر محفو ظ تھی اور ملک کی دولت کا غلط استعمال تھا۔
دوسری طرف ملک میں شرح خواندگی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کمپیوٹر آپریٹرزکی اتنی کھیپ نکالی کہ آج کمپیوٹرزکم اور آپریٹرز زیادہ ہیں۔طویل عرصے سے ما ئیکر و فنانسنگ بھی ہورہی ہے، لیکن نان پرفارمنگ لون کی شر ح 40 فی صد ہے اور وہ رقم ڈوب چکی ہے۔ بنگلا دیش میں گرامین بینک کام یاب رہا، لیکن یہاں ماڈل اس لیے کام یاب نہیں ہورہا کہ ہم نے سپلائی چین ڈیمانڈ پرکوئی توجہ نہیں دی ہے۔ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں انٹرپرینیور شپ کے فروغ کے بہت سے مواقع موجود ہیں، لیکن ہم نے اس جانب کبھی توجہ نہیں دی۔ اس شعبے میں ویلیو ایڈیشن کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا اور ہم اپنی زرعی پیداوار کا زیادہ تر حصہ رامٹیریل کی شکل میں اند ر و ن ملک استعمال کرلیتے ہیں یا برآمد کردیتے ہیں۔
اگر ہم اس جانب توجہ دیں تو دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان اور شہروں پر دبائو کم ہوگا، جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر ہم ضلعوں میں زرعی شعبے کی پیداوار کے لیے ویلیو ایڈیشن کے مراکز قائم کریں اور وہاں کے لوگوں کو اس ضمن میں تعلیم اور تربیت دی جائے تو مقامی سطح پر انٹرپرینیور شپ کو فروغ ملے گا۔ اسی طرح کان کنی کے ضمن میں مائننگ کرکے اس کے مختلف بلاکس مختلف لوگوں کے حوالے کردیں، انفرااسٹرکچرکو ترقی دیں اور پیداوارکی بازار تک رسائی کے لیے سہولتیں فراہم کریں تو اس شعبے میں بھی انٹرپرینیور شپ کو فروغ ملے گا۔
اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کے بہت سے مواقعے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں بیرون ملک مقیم آئی ٹی کے ماہرین کی مدد درکار ہوگی۔ وہ لوگ پاکستان نہیں آسکتے کیوں کہ یہاں ان کے لیے مارکیٹ نہیں ہے۔ بھارت میں آئی ٹی کے ماہرین بیرون ملک سے اس لیے واپس ملک آرہے ہیں کہ وہاں انہیں ترقی کے مواقعے نظر آرہے ہیں۔ ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا انسانی سرمایہ جتنا زیادہ پیداواری ہوگا، معیشت اتنی ہی بہتر ہوگی۔ اگر ہم اپنی خواتین کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں تو ہماری اقتصادی حالت بہت بہتر ہوجائے گی۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں چھوٹے اور بڑے کاروباری افرادخاندان سے باہر کے لوگوں کو اپنے تجربات سے مستفید نہیں کرتے۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے، زیادہ قابلیت اور اہلیت کے حامل افراد سے ڈرتے ہیں اور انہیں آگے نہیں آنے دیتے۔ ان حالات میں پاکستان میں انٹرپرینیور شپ کے فروغ کے مواقعے،بالخصوص خواتین کے لیے،بہت کم ہیں۔
سرکاری سطح پر کچھ نہ ہونے کا شکوہ
ویمن چیمبر آف کامرس، سے منسلک ایک خاتون کے مطابق خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے پیسہ کمائیں اور اسے خرچ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بیس برسوں میں بہت سی خواتین انٹرپرینیور سامنے آئی ہیں اور مزید آگے آئیں گی، لیکن سرکاری سطح پر ان کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔
ویمن چیمبر آف کامرس آئندہ خواتین کو ملازمت کرنے کے بجائے خود اپنا کاروبار شروع کرنے پر زیادہ توجہ دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ جامعات کی سطح پر خواتین کو انٹرپرینیور شپ کی تعلیم اور تربیت دینے کے لیے کوئی خا ص کام نہیں ہوا ہے۔ خواتین کو جب تک یہ نہیں بتایا جائے کہ ان کے لیے کن شعبوں میں کام کرنے کی گنجائش ہے اور وہ کس طرح آگے بڑھ سکتی ہیں، اُس وقت تک وہ آگے نہیں آسکتیں۔
پاکستان کی خواتین اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں۔ بالخصوص سندھ اور بلوچستان کی دست کار خواتین۔ وہ خود اٹھتی ہیں اور جو کچھ سمجھ میں آتا ہے کرتی ہیں۔ ہمیں ان کی تیار کردہ مصنو عا ت اندرون اور بیرون ملک خریداروں کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی خواتین ڈریس ڈیزائنرز نے اندرون اور بیرون ملک نام کمایا ہے۔ ایکسپرٹ ڈیولپمنٹ فنڈ سے عام خواتین کو کچھ نہیں ملا ۔متعلقہ حکّام اپنی مرضی سے منصوبے بناتے اور فنڈز خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں دیہی علاقوں کی خواتین میں انٹرپرینیور شپ کا جذبہ پروان چڑھانے کی خاص ضرورت ہے۔