• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تارکین وطن پاکستانی اپنی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے عزیز و اقارب، بہن بھائیوں، ماں باپ اور بچپن کے دوستوں سمیت جب اُن گلیوں محلوں کو چھوڑتے ہیں جہاں کھیلتے کھیلتے اُن کے لڑکپن کے دن نہ جانے کب جوانی کی دہلیز میں داخل ہو جاتے ہیں تو اُس وقت اُنہی آنکھوں میں خوابوں کے ساتھ ساتھ کچھ جگنو بھی چمکتے ہیں جن کی روشنی پردیس کے چکا چوند قمقموں اور حالات کی تبدیلی میں مدھم ہو جاتی ہے۔ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی اپنی محنت، جفا کشی اور ایمانداری سے کمائی ہوئی دولت سے جہاں اپنے اہل خانہ کو پالتے ہیں وہاں اُن کی بھیجی جانے والی بیرون ممالک سے رقوم کا کچھ حصہ حکومت پاکستان کے قومی خزانوں میں اُگنے والے سرمائے کے درخت کو زرمبادلہ کی ’’کھاد‘‘ کے ساتھ پروان چڑھانے میں بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تارکین وطن پاکستانی رہتے تو دوسرے ممالک میں ہیں لیکن اُن کے دِل میںپاکستان کی محبت وطن عزیز میں رہنے والوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ وطن میں آنے والی ناگہانی قدرتی آفات اور ہر طرح کی تکلیف میں تارکین وطن پاکستانی اپنے ہم وطنوں کی خدمت اور مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ تارکین وطن پاکستانی اپنے وطن عزیز میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں میں بھی اُسی طرح حصہ لیتے ہیں جیسے کہ وہ پاکستان میں ہی مقیم ہوں، پھر سیاسی قائدین سے والہانہ اور دیوانہ وار محبت بھی تارکین وطن پاکستانیوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھر دی گئی ہے یہ اپنا سرمایہ اور وقت سیاسی قائدین پر نچھاور کرنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دیارِغیر میں رہنے والے کئی کامیاب بزنس مین پاکستانی سیاسی قائدین سے کی جانے والی محبت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ تارکین وطن پاکستانیوں کا سیاسی دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھنے کا سلسلہ ابھی تھما نہیں رُکا نہیں، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے تقریباً پندرہ سال بعد ہی پاکستانیوں کا دوسرے ممالک میں قسمت آزمائی کے لئے ہجرتوں کا شروع ہونے والا سلسلہ آج تک جاری ہے ،پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین سیر و سیاحت کے لئے یا پاکستان سے رفوچکر ہو کر جب بھی دیار غیرمیں آئے تو وہاں مقیم پاکستانیوں نے اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر اُن کی خدمت کی، لیکن قائدین کی جانب سے اِس خدمت کا صلہ دیا جانا تو درکنار اُس کا ذکر کرنا بھی گناہ کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اپنے اہل خانہ کے ساتھ جب پاکستان سے جلا وطن کر دیئے گئے تو اُس وقت چند پاکستانیوں نے دوسرے ممالک میں اِن کو اپنی آنکھوں پر بٹھایا، اُن کی تابعداری کی، اُن کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائی، اُن کے حقوق کے لئے نعرے لگائے، ا یسا کرنے والوں میں مسلم لیگ ن برطانیہ کے صدر زبیر گل سر فہرست ہیں ۔ جلاوطنی کے دور میں میاں برادران نے حوصلہ کرتے ہوئے جب برطانیہ سے اپنا جہاز پاکستان کی سر زمین پر اُتارا تو سیکورٹی اداروں نے میاں برادران کو لاہور ایئر پورٹ سے ہی سعودی عرب روانہ کر دیا، انہیں پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا گیا، اُس وقت میاں برادران کے ساتھ پچیس برٹش نوجوانوں کی قیادت کرنے والے زبیر گل ہی تھے جو اپنے قائدین کو پاکستان میں داخل نہ ہونے پر روکنے والوں کے ساتھ دست و گریباں ہونے کے لئے تیار ہوگئے، پاکستان کے ایک سینئر اینکر پرسن نے اپنے ٹاک شو میں کہا تھا کہ میاں محمد نواز شریف اگر چاند پر جائیں تو وہاں بھی اُن کے پیچھے ایک شخص کھڑا نظر آئے گا جس کا نام زبیر گل ہے، موصوف کی قربت میاں محمد نواز شریف سے زیادہ ہے اسی لئے انہیں وزیر اعظم پاکستان کا وفاقی مشیر برائے اوورسیز بنایا گیا لیکن رواں ماہ ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نے سینیٹ کا امیدوار بنا کر زبیر گل کی وفاؤں اور خدمات کا صلہ انہیں دے دیا۔ سینیٹ کے امیدواروں کی لسٹ جب میاں شہباز شریف کے پاس پہنچی تو انہوں نے زبیر گل کے نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ نام لسٹ سے نکالا جائے لیکن محترمہ مریم صفدر ’’اڑ‘‘ گئیں اور انہوں نے کہا کہ یہ نام نہیں نکالا جائے گا، دوسری طرف برطانیہ سے تعلق رکھنے والے پنجاب اوورسیز کمیشن کے کمشنر اور وائس چیئرمین میاں شہباز شریف کے گروپ میں ہیں۔ برطانیہ میں زبیر گل پر ہونے والے جان لیوا حملے میں اوور سیز کمیشن کے کمشنر کے ملوث ہونے کا خدشہ زبیر خود ظاہر کر چکے ہیں، اِن سارے معاملات کے ہوتے ہوئے بھی زبیر گل کو دیا جانے والا ٹکٹ کینسل نہ کرایا جا سکا، فیصلہ ہوا کہ ووٹنگ کے وقت انتقام لیا جائے گا، لہٰذا ایم پی ایز کا جو گروپ زبیر گل کے لئے تیار کیا گیا تھا اس گروپ نے ہدایات کے مطابق کام کیا اور ٹوٹل ووٹ کاسٹ نہ کرتے ہوئے ’’زبیر کی بتی گل کر دی‘‘ زبیر کو 38ووٹ ملے جبکہ باقی لیگی ووٹ پی ٹی آئی کے چوہدری سرور کو ملنے سے وہ جیت گئے۔ یہاں یہ لکھنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے اندرونی اور خاندانی اختلافات کا پہلا شکار زبیر گل بنے ہیں اور یہ اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن کے لئے زبیر نے برطانیہ کی شہریت چھوڑ دی تھی اُسے مکمل یقین تھا کہ وہ الیکشن جیتیں گے، لیکن اس ہار نے زبیر کو’’اِدھر کا رہنے دیا نہ اُدھر کا‘‘ شہریت چھوڑنے کے نقصان کو کون اور کس طرح پورا کرے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ اگر زبیر گل کو ایم پی اے یا ایم این اے کا ٹکٹ دیا جائے تو وہ کیسے جیت سکیں گے کیونکہ اُنہیں تو علاقے کے لوگ بیرون ملک جانے کی وجہ سے کب کے بھول چکے ہیں، 2018کا الیکشن ہوتا نظر تو نہیں آتا لیکن اگر ہوا اور مسلم لیگ نہ جیت سکی تو زبیر کا مستقبل کیا ہوگا ؟ اگر مسلم لیگ ن جیت گئی تو میاں شہباز شریف جماعت کے صدر ہیں وہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے تو کس طرح چاہیں گے کہ زبیر کو کوئی عہدہ دیا جائے کیونکہ مبینہ طور پراُن کی’’پلاننگ‘‘ کی وجہ سے ہی تو سینیٹ کی سیٹ ’’لوز‘‘ ہوئی ہے۔ یہ قیاس آرائی بھی کی جا رہی ہے کہ چوہدری سرور کو جان بوجھ کر لیگی ایم پی ایز نے ووٹ کاسٹ کئے ہیں تاکہ انہیں اس شفقت کے عوض واپس مسلم لیگ میں لایا جا سکے، لیگی رہنما عظمیٰ بخاری کے آنسو سینیٹ انتخابات میں لیگی ایم پی ایز کے ’’بکنے‘‘ کا اشارہ دے رہے ہیں، جبکہ عدالت عظمیٰ نے چار سینیٹرز کے دہری شہریت رکھنے پر اُن کی جیت کے نوٹیفکیشن روک دیئے ہیں جب تک کہ وہ ثبوت نہ دیں کہ انہوں نے ایک شہریت چھوڑ دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا چاروں سینیٹرز ثبوت پیش کرتے ہیں یا ایک سینیٹر کو کلین چٹ ملنے کے بعد باقی تین سینیٹرز کو مسلم لیگ ن کی اکثریت کم کرنے کے لئے مسترد کر دیا جاتا ہے۔

تازہ ترین