شہری آبادی کو مسلسل حرکت میں رکھنا حکومتوں کی اہم ذمہ داریوں میں شمارکیا جاتا ہے۔ کراچی کے سوا دو کروڑ آبادی کا 60فیصد روزانہ اس مسئلے سے دوچار رہتا ہے جو ایک نفسیاتی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ جس کا ان کے پاس کوئی حل موجود نہیں۔ 2011ء میں 22ہزار منی بسیں اور دیگر ذرائع کم ہوکر 2014ء میں 12400 ہوچکے ہیں۔ 2015ء میں گورنر عشرت العباد، وزیر معاشیات سندھ سید مراد علی اور وفاق کی جانب سے BRT سسٹم کے رنگین وعدوں کے باوجود کراچی کے شہریوں نے کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہیں کیا کہ وہ عرصہ دراز سے اس قسم کی خوش خبریاں سننے کے عادی ہوچکے ہیں۔ کراچی کا دوسرا نام ٹرانسپورٹ سسٹم کا قبرستان ہے۔ جہاں محمد علی بس ٹراموے کمپنی، کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن، کراچی سرکلر ریلوے نااہلی، محکمہ جاتی انتشار، ٹرانسپورٹ مافیا اور سیاسی تلاطم کا شکار رہی ہیں۔ محمد علی بس ٹراموے ریس کورس کی نظر ہوگئی۔ KRTC کو کرپشن کھاگئی۔ جبکہ KCR وزیر مینشن سے کراچی سٹی تک کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے اپنا سرکل مکمل نہ کرسکی۔ KCR کا جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA) کے بھرپور تعاون کے باوجود سندھ حکومت کی نااہلی اور لاپروائی کی وجہ سے 2016ء میں آغاز نہ ہوسکا۔
مستقبل کی آبادی، انرجی بحران آلودگی کے پیش نظر سالانہ انٹرنیشنل انفرا سٹرکچر کانفرنس 2014ء دہلی اور 2015ء لندن میں کراچی کیلئے میٹرو سسٹم تجویز کیا گیا تھا۔ جس میں کراچی کا ذکر سب سے زیادہ ضرورت مند اور وسائل سے بھرپور شہر کے طور پر ہوا۔ میٹرو مہنگا ہونے کے باوجود بہترین متبادل اور ماحول دوست بذریعہ ہے۔ 2013ء احمد آباد کی BRT سسٹم میں دہلی میٹرو کے مقابلے میں صرف 5فیصد خرچ آیا تھا۔ لہٰذا کراچی کے وسائل اور جلد تعمیر ہونے کی وجہ سے BRT قابل ترجیح ہوگا۔ BRT سسٹم میں مسافروں کی حرکت، ماحولیاتی احتیاط، انرجی بچت، چادر چہار دیواری اور گھٹن کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔سندھ گورنمنٹ کے پانچ سالہ منصوبے میں پانچ ریپڈ ٹرانزٹ BRT، دو میٹرو اور کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال کرنا شامل ہے۔ وفاق کے تعاون سے 26کلومیٹر کی گرین لائن سرجانی ٹائون سے ٹاور تک راہداری فراہم کریگی گرین لائن وفاقی فنڈ سے 2017ء تک مکمل کرلی جائے گی۔ اسی مدت میں سندھ حکومت سٹی حکومت کی مدد سے اورنگی ٹائون سے ناظم آباد تک اورنج لائن تعمیر کرے گی۔ایشین ڈویلپمنٹ بینک ADB کی سرمایہ کاری سے 27کلومیٹر کی طویل راہداری ماڈل کالونی، صفورہ گوٹھ، یونیورسٹی روڈ سے ریگل چوک تک ریڈ لائن تعمیر کی جائے گی بینک کا قرضہ پبلک ٹرانسپورٹ پارٹنر کی شراکت داری سے ادا کیا جائے گا۔ 2018ء کے اوائل تک 1,27بلین ڈالر سے کراچی لائٹ ریل برائون لائن چائنا کی ایک کمپنی کی شراکت داری سے کورنگی، شاہراہ فیصل، راشد منہاس روڈ سے ناگن چورنگی پر ختم ہوگی۔ پروجیکٹ کا 3,7کلومیٹر زیر زمین جبکہ 12,29 کلومیٹر ELEVATE سطح زمین سے بلند ہوگا۔ پروجیکٹ سے 20 سے 70ہزار مسافر مستفیض ہوں گے۔ اشتہار کرایوں اور اسٹالز کی مد سے سالانہ ساڑھے تین ارب آمدنی متوقع ہے۔ زمین کا معائنہ سائٹ سروے، ٹریفک معلومات، حکومتی اداروں اور مذکورہ کمپنی کے تعاون سے مکمل کرلی گئیں ہیں۔کراچی سرکلر ریلوے KCR کو دوبارہ فعال بنانے کیلئے JICA کے تعاون سے 24اسٹیشنوں پر مشتمل 43.3کلو میٹر طویل ڈبل ٹریک ریلوے لائن کی تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔ ہر اسٹیشن کا درمیانی فاصلہ 1.5کلومیٹر ہوگا۔ متوقع خرچ 2.6ملین ڈالر آسکتا ہے۔ JICA سے قرض کی شرائط 2016ء کے آغاز میں طے کرلی جائیں گی۔ انکار کی صورت میں چائنا سے بھی متوازی طور پر گفتگو جاری ہے۔ یہ پروجیکٹ مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں کراچی کینٹ سے گلستان جوہر28,3 کلومیٹر میں 9کلومیٹر سطح زمین سے بلند ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں 14.8کلو میٹر گلستان جوہر سے لیاقت آباد تعمیر ہوگا۔ڈرگ روڈ سے جناح ائیرپورٹ تک 5.9کلومیٹر برانچ لائن زیر زمین یا بلندی پر تعمیر کی جائے گی۔ BRT سسٹم کی تشکیل مثلاً اوورہیڈ، انڈر گرائونڈ، اسٹیشن، ٹرمینل، ڈپو وغیرہ کے لئے سندھ گورنمنٹ نے 50ایکڑ اضافی زمین کا وعدہ کیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سندھ گورنمنٹ، وفاقی اور سٹی گورنمنٹ کی مدد سے چار راہداریوں پر 2016ء کی پہلی سہ ماہی میں کام شروع کرسکتی ہے۔ وسائل، سہولت اور قیمت کے اعتبار سے BRT بہترین متبادل ہے۔ BRT کے ذریعے اندازاً ڈبل لائن میں 45ہزار مسافر فی گھنٹہ فی سمت سفر کرسکتے ہیں جسے مستقبل میں ریل اور سرکلر سے ٹرمینل کے ذریعے جوڑا جاسکتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے مسلسل میٹنگز، ورک شاپ اور ٹریننگ علیحدہ سے جاری ہیں۔
ایک ماڈرن ٹرانسپورٹ سسٹم کی منطقی، سماجی اور معاشی اہمیت کا تو کوئی منکر نہیں مگر ٹرانسپورٹ سیکٹر توانائی کا سب سے بڑا صارف ہونے کیساتھ شور اور آلودگی کاسب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جس کا خیال گلوبل ماحولیاتی انڈیکس اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP کے مطابق حکومت پاکستان کو رکھنا ہوگا۔
ٹرانسپورٹ سیکٹر میں پانچ سالہ پلان میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا اس منصوبے میں بیک وقت خورد بینی و دور نظری وژن کی ضرورت ہے۔ جو مستقبل کی ضروریات پر 2030ء کے اہداف کے مطابق نظر رکھ سکے۔ اس قسم کے میگا پروجیکٹ کے لئے نہایت اعلٰیٰ معیاری نگہداشتی نظام کا موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ جو شعبہ جاتی ماہرین کی ٹیم پر تو مشتمل ہو مگر سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے زیر انتظام تمام شعبے باہم منضبط ہوں۔ جس کا نگران اعلیٰ صاحب اقتدار و اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ فہم و فراست اور جذبہ جنون میں یگانہ و فرزانہ ہو اور صرف ایک ہو۔سیاسی طور پر ایک بااختیار سٹی گورنمنٹ کی نمائندگی ہر سطح پر لازمی ہے۔ اس پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرنےکیلئے حکومت سندھ اور میئر کراچی وسیم اختر کے درمیان صرف کراچی کے لئے بہترین تعاون ایثار و قربانی کی اعلٰیٰ مثال قائم کرنا ہوگی تاکہ ایک زمانے تک ان کا ذکر قائم رہ سکے۔