ن لیگ کے رہنما زعیم قادری نے کہا ہے کہ ن لیگ کا چیئرمین سینیٹ کا امیدوار چھوٹے صوبے سے ہوگا، چیئرمین سینیٹ کیلئے 54سے زیادہ ووٹ موجود ہیں، آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کا ڈی این اے ہی تبدیل کردیا ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”لیکن!“ میں میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کررہے تھے۔
پروگرام میں بلوچستان سے آزاد سینیٹر انوار الحق کاکڑ ، سینئر صحافی سہیل وڑائچ اور سینئر تجزیہ کار مشرف زیدی بھی شریک تھے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کیلئے درکار ووٹ حاصل کرلیں گے، ن لیگ کچھ ایسے لوگوں کو اپنا ووٹر سمجھ رہی ہے جن کی حمایت کا ہمیں بھی یقین ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ آج جوتا نواز شریف کو نہیں پاکستانی سیاست کو پڑا ہے، آج جو جوتے نواز شریف کی طرف اٹھے وہ کل عمران خان اور آصف زرداری کی طرف بھی جائیں گےجوتے اور سیاہی پھینکنے جیسے واقعات کوئی کروانہیں رہا بلکہ خودبخود ہورہے ہیں، ن لیگ کو انتخابی مہم چلانے میں مشکل پیش آئے گی۔
مشرف زیدی نے کہا کہ پاکستان میں جو سیاسی کلچر ہے اس میں ن لیگ کسی سے پیچھے نہیں رہی ہے،ن لیگ کیلئے اس صورتحال میں خود کو مظلوم ثابت کرنا بہت آسان ہوگا۔
ن لیگ کے رہنما زعیم قادری نے کہا کہ ن لیگ کے پاس چیئرمین سینیٹ کیلئے 54سے ز یادہ ووٹ موجود ہیں، کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے تاثر پیدا ہو کہ ن لیگ اپنا امیدوار لانا چاہتی ہے، ن لیگ چیئرمین سینیٹ کیلئے رضا ربانی کے نام پر آج بھی راضی ہے، پیپلز پارٹی نے رضا ربانی کو نامزد نہیں کیا تو ن لیگ اتحادیوں کی مشاورت سے امیدوار کا اعلان کرے گی، ن لیگ کا چیئرمین سینیٹ کا امیدوار چھوٹے صوبے سے ہوگا، آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کا ڈی این اے ہی تبدیل کردیا ہے، پیپلز پارٹی کے نظریاتی لوگ آصف زرداری کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔
بلوچستان سے آزاد سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کیلئے درکار ووٹ حاصل کرلیں گے، ن لیگ کچھ ایسے لوگوں کو اپنا ووٹر سمجھ رہی ہے جن کی حمایت کا ہمیں بھی یقین ہے، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں آخری لمحے پر ان لوگوں کی چوائس واضح ہوگی، آصف زرداری اگر صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کردیتے ہیں تو یہ ہماری بڑی مدد ہوگی، پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی دیگر لوگوں سے بات چیت چل رہی ہے، پورا پاکستان بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ لانے کا مطالبہ کررہا ہے جو ہماری بڑی کامیابی ہے۔
سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ جامعہ نعیمیہ میں تقریب میں مختلف خیال رکھنے والے شخص کا آجانا حیران کن نہیں ہے، آج جوتا نواز شریف کو نہیں پاکستانی سیاست کو پڑا ہے، آج جو جوتے نواز شریف کی طرف اٹھے وہ کل عمران خان اور آصف زرداری کی طرف بھی جائیں گے، عدم برداشت کے ماحول کو صرف برداشت کا ماحول ہی روک سکتا ہے،سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق بناناچاہئے کہ اگر ان کا کوئی کارکن ایسے واقعہ میں شریک ہوگا تو اس سے قطع تعلق کر کے کوئی قانونی امداد نہیں کی جائے گی۔
سہیل وڑائچ نے بتایا کہ نواز شریف اسٹیج پر تقریر کرنے کیلئے آئے تو اس شخص نے آگے آکر بالکل سامنے سے جوتا پھینکا جو نواز شریف کو باقاعدہ لگا، اسی دورا ن مختلف سمتوں سے بھی جوتے آئے لیکن وہ نواز شریف تک نہیں پہنچے،جوتا پھینکنے والے شخص نے لبیک لبیک کا نعرہ لگایا تو پرجوش طالب علموں نے بھی لبیک لبیک کے نعرے لگانے شروع کردیئے، اس وقت مجمع قابو سے باہر ہوتا نظر آرہا تھا لیکن مفتی منیب الرحمن نے طلباء کو نشستوں پر بیٹھنے کیلئے کہا، اس دوران ن لیگ کے کچھ کارکنوں نے نواز شریف کے حق میں نعرے لگائے، اس کے بعد نواز شریف نے چند منٹ تقریر کی اور پھر وہاں سے چلے گئے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ بریلوی اور اہل سنت مکتبہ فکر کے طالب علم خادم رضوی کی فکر اور تحریک لبیک یا رسول اللہ سے بہت متاثر ہیں جبکہ کے مدارس کے مہتمم اپنی پرانی سیاسی وابستگی کے تحت ن لیگ سے جڑے ہوئے ہیں، یہ تضاد بھی اس واقعہ کی ایک بڑی وجہ تھی، اس واقعہ کے سیاسی و سماجی کلچر پر منفی اثرات پڑیں گے، اگر آزادی ٴ اظہار نہیں ہوگا تو کس طرح جمہوریت چلے گی۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں لگتا ہے ن لیگ کو انتخابی مہم چلانے میں مشکل پیش آئے گی، جوتے اور سیاہی پھینکنے جیسے واقعات کوئی کروانہیں رہا بلکہ خودبخود ہورہے ہیں، لیکن جس وقت لوگوں کے جذبات بھڑکائے گئے اس وقت پیچھے سے کچھ نہ کچھ ہورہا تھا۔
سینئر تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ نواز شریف اور خواجہ آصف پر تضحیک آمیز حملے کروائے نہیں جارہے ہیں، ن لیگ کیلئے اس صورتحال میں خود کو مظلوم ثابت کرنا بہت آسان ہوگا، پاکستان میں جو سیاسی کلچر ہے اس میں ن لیگ کسی سے پیچھے نہیں رہی ہے، خواجہ آصف کا خود بات کرنے کا جو انداز رہا ہے اور انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور سے خواتین اور دیگر معاملات میں جو باتیں کیں وہ سب کے سامنے ہیں۔