• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصوری کے انوکھے انداز

وجیہہ ناز سُہروردی

کہتے ہیں کہ، ’’اگر کسی شخص میں ٹیلنٹ ہو تو، کسی نہ کسی طرح وہ دنیا کے سامنے آہی جاتا ہے‘‘۔ اب وہ وقت گیا جب اپنے ٹیلنٹ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کسی کا محتاج ہونا پڑتا تھا۔ دور حاضر میں جہاں مواصلاتی نظام اس قدر تیز رفتار اور طاقت ور ہوچکا ہے کہ چند لمحوں میں ہی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک باآسانی پیغام رسائی ممکن ہوگئی ہے، وہیں صارفین میں چھپے ٹیلنٹ کو بھی دنیا کے سامنے لا رہا ہے۔

 آج اگر عام شخص میں کسی قسم کا ٹیلنٹ ہے، مثلاً وہ گانا گا سکتا یا اچھا رقص کرسکتا ہے، مصّوری کا شوق ہے یا کسی کی نکلیں اُتار سکتا ہے، کھانا پکا سکتا ہے، میک اپ کر سکتا ہے یا پھر بے کار اشیا کو دوبارہ استعمال کر کے گھر کی سجاوٹ کر سکتا ہے، الغرض قابلیت کسی کے سہارے کی محتاج نہیں ہوتی، بلکہ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنی قدرتی صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں استعمال میں لائے اور اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرئے۔ اس کے لیے اُس کے پاس بس ایک عدد اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی سائٹس پر اکاونٹ موجود ہو۔

اس کے بعد اُسے اپنا ٹیلنٹ دنیا سے متعارف کروانے کے لیے صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنے ٹیلنٹ کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے وڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر دے، بس پھر دیکھتے جائیے منٹوں میں یہ وڈیو اور اس شخص کا ٹیلنٹ دنیا بھر میں وائرل ہوجائے گا، قارئین کی دلچسپی کے لیے اس ہفتے مصّوری کی چند ایسی ہی وڈیوز اور تصاویر کا تذکرہ کر رہے ہیں،جن میں وڈیو اور تصاویر بنانے والے نے مختلف انداز میں اپنے ٹیلنٹ کو دوسروں کے ساتھ شیئر کیا اور چند لمحوں میں دنیا بھر سے داد وصول کر کے شہرت حاصل کرلی۔

٭… ڈین یون, میک اپ آرٹسٹ

مصوری کے انوکھے انداز

زیر نظر تصاویر دیکھ کر یقیناً آپ بھی دیگر افراد کی طرح دھوکے میں آگئے ہوں گے کہ یہ تصاویر ایڈیٹنگ سافٹ وئیر کا شاہ کار ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ کسی ایڈیٹنگ سافٹ وئیر کا کمال نہیں بلکہ میک اپ کے ذریعے تخلیق کیا گیا نظروں کا دھوکہ ہے، جسے ماہرینِ آرائش حُسن بھی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ صرف چوبیس سالہ ’’ڈین یون‘‘ نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے میک اپ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔

جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی ڈین یون، عام میک اپ کے ذریعے ایسے ’’آپٹیکل الیوژن‘‘ (بصری دھوکے) تخلیق کرتی ہیں کہ ان پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ ڈین کو بچپن سے ہی میک اپ کا شوق ہے۔ وہ ایک اچھی مصّور بھی ہیں، انہوں نے جنوبی کوریا کے مختلف اور بہترین آرٹ اسکولز سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ڈیجیٹل ایفیکٹس اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے، آپٹیکل الیوژن میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی، اور پھر ڈین نے اس تکنیک کو میک اپ کے ساتھ ضم کرنے کا سوچا۔ 

مصوری کے انوکھے انداز

تین سال قبل انسٹاگرام اور فیس بُک پر اپنی تصاویر پوسٹ کرنا شروع کیں تو ہر کوئی انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا، بعض نے اسے میک اپ ماننے سے انکار کردیا، عام افراد سمیت کئی ماہرینِ میک اپ کا خیال تھا کہ، انہوں نے تصاویر فوٹوشاپ کی ہیں، کیوں کہ ان میں چہرے کے دھندلے خدوخال اور آڑھے ترچھے نقوش ناقابل خیال و گمان ہیں، لوگوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ ان کے شک کو دور کرنے کی خاطر ڈین نے میک اپ کرتے ہوئے پوری وڈیو بناکر پوسٹ کرنا شروع کر دیں، تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والا ابہام ختم ہو سکے اور دیکھنے والوں کو یہ بتا سکیں کہ وہ عام میک اپ کٹ، برش اور فیس پینٹ سے خود میک اپ کرتی ہیں، نیز کسی بھی قسم کے ایڈیٹنگ سافٹ وئیر کا سہارا نہیں لیتیں۔ ان کی وڈیوز کو ہزاروں بار شئیر کیا گیا۔ 

تمام شکوک و ابہام ختم ہونے کے بعد انہیں سماجی رابطوں کی سائٹس پر غیر معمولی میک اپ آرٹسٹ قرار دیا جا رہا ہے اور لاکھوں افراد ڈین کے مداح اور فالوور بن چکے ہیں۔ ڈین کا کہنا ہے کہ ’’انہیں میک اپ کرنے میں گھنٹوں لگتے ہیں اور وہ بار بار آئینہ دیکھ کر ہر میک اپ کو نیا رنگ دیتی ہیں‘‘۔ ڈین کے مطابق ایک خاص طرح کا میک اپ، جس میں تھری ڈی(3D) ایفیکٹ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس میں انہیں 3 سے 12 گھنٹے تک لگ جاتے ہیں۔

٭… ریت پر بنائے گئے عارضی فن پارے…بلوچستان کے نوجوانوں کی انوکھی کاوش

مصوری کے انوکھے انداز

سمندر کنارے بنایا گیا آرٹ کا نمونہ، کسی بیرون ملک کا منظر نہیں ہے، بلکہ یہ وطن عزیز کے صوبے بلوچستان میں واقع شہر پسنی کے ساحل کا ایک منظر ہے۔ جہاں تین نوجوانوں نے ساحل سمندر کو ہی اپنا کینوس بنا کر ریت پر تھری ڈی (3D) آرٹ کے ایسے شاہ کار تخلیق کیے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔

گوادر کی تحصیل پسنی سے تعلق رکھنے والے زبیر مختار، حسین زیب اور بہار علی سبز اور نیلگوں سمندر کنارے پر لکڑی اور پتھر کی مدد سے نم ریت پر تھری ڈی آرٹ کے ذریعے مختلف اشیاء کے نمونے بناتے ہیں، جن میں گلاس، بالٹی، قلم، کنواں، گھر، دروازہ، بوتل وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ باآسانی کسی بھی شے کی تصویر تھری ڈی تکنیک کے ذریعے بنا سکتے ہیں۔ 

ان نوجوانوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آؤٹ ڈور تھری ڈی سینڈ آرٹ، پاکستان میں سب سے پہلے انہوں نے ’’جوڈی‘‘ کے ساحل پر متعارف کروایا تھا۔ اب یہ ان تینوں کا مشغلہ بن گیا ہے اور وہ روزانہ دوپہر کے اوقات میں ساحل سمندر جاکر مختلف اشیاء کی تصاویر تھری ڈی طرز پر بناتے اور اس کے ہمراہ اپنی تصاویر بنا کر فیس بُک پر شئیر کرتے ہیں۔ ان کے درمیاں اس قدر ہم آہنگی اور ان کے ہاتھوں میں اتنی صفائی ہے کہ ان کے بنائے گئے نمونوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اشیاء کسی وسیع و عریض کینوس پر نہیں بلکہ حقیقت میں وہاں موجود ہوں۔

تھری ڈی بیچ سینڈ آرٹ یعنی ریت پر بنائے گئے یہ فن پارے، عارضی ہوتے ہیں، جب تک ریت نم ہو تب تک، ان سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن ایک بار ریت خشک ہوجائے تو ہوا کے چلنے کے ساتھ ہی یہ خوبصورت فن پارے بھی مٹ جاتے ہیں، گوکہ یہ گھنٹوں بھی محفوظ نہیں رہ سکتے، مگر اس کے باوجود نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں داد کی مستحق ہیں۔ اس آرٹ پر کام کرنے والے، نوجوان آرٹسٹ زبیر مختار کا کہنا ہے کہ، وہ خود فن مصّوری کے شعبے سے وابستہ اور سرکاری اسکول میں ڈرائنگ ٹیچر ہیں۔ 

ساحل سمندر پر تھری ڈی آرٹ بنانے کا آئیڈیا انہیں انٹر نیٹ سے ملا، جب انہوں نے اس آرٹ سے متعلق مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں ایسے کئی آرٹسٹ ہیں جو آؤٹ ڈور یعنی ساحل سمندر پر ریت تھری ڈی مصوری کرتے ہیں، لیکن اس طرز پر پاکستان میں اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔ یہ جاننے کے بعد انہوں نے اپنے دو، دوستوں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ پر مختلف وڈیوز کے ذریعے اپنی مدد آپ کے تحت تھری ڈی بیچ سینڈ آرٹ کی تعلیم حاصل کی اور پھر اسے بنانے کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا تجربہ اچھا رہا جس کے بعد انہوں نے باقاعدہ اس کی مشق کرنا شروع کی اور اس فن میں مہارت حاصل کرلی۔ 

ان کے ایک اور ساتھی حسین زیب کے مطابق، ریت پر دو قسم کے آرٹ پر کام ہوتا ہے، پہلا اسکلپچر آرٹ، جسے عام زبان میں مجسمہ سازی بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا تھری ڈی بیچ سینڈ آرٹ جس پر ہم کام کر رہے ہیں۔ اب تک یہ فن نیوزی لینڈ اور یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں مقبول تھا، جہاں مقامی آرٹسٹ اپنے اپنے شہروں کے ساحلی علاقوں میں فن مصوری اور تصویر کشی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ لیکن اب یہ تکنیک پاکستان میں بلوچستان کے خوبصورت ساحل تک بھی پہنچ گئی ہے۔ ان نوجوانوں کو ایک فن پارہ تیار کرنے میں تقریباً تین سے پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ 

تینوں نوجوان اس فن مصّوری کا مظاہرہ ملک کے دیگر حصوں اور ساحلوں کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں بھی پیش کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ گزشتہ ماہ ان کی تصاویر اور وڈیوز سماجی رابطوں کی سائٹ فیس بُک پر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئیں، جس کے بعد نہ صرف ان کے کام کو سراہا گیا بلکہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کے خوبصورت ساحلوں نے بھی دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی۔

٭… بےکار ٹی بیگز کو بھی کارآمد بنانے والی منی ایچر آرٹسٹ روبی سلویئس

مصوری کے انوکھے انداز

چائے پی کر استعمال شدہ ٹی بیگز کو کچرے کی نذر کرنا تو عام بات ہے۔ لیکن امریکا سے تعلق رکھنے والی گرافک ڈیزائنر اور بصری آرٹ کی ماہر، روبی سلویئس کے لیے یہ ہی بے کار ٹی بیگز کسی کینوس سے کم نہیں ہیں۔ وہ ان پر انتہائی مہارت سے خوبصورت اور دلفریب منی ایچر آرٹ یعنی مختصر پینٹنگز بناتی ہیں۔

چائے کی شوقین روبی سلویئس نے تین برس قبل فرصت کے لمحات کو تخلیقی کاموں میں صرف کرنے کا ارادہ کیا، فن مصوری کے خیال کو تقویت دیتے ہوئے استعمال شدہ ٹی بیگز کو کینوس بنا لیا اور اس پر منی ایچر آرٹ تخلیق کرنے لگیں۔ سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں تین سو تریسٹھ دنوں تک روزانہ استعمال شدہ ٹی بیگ کو خشک کر کے اس پر روز مرہ کے احساسات اور واقعات کو پینٹ کرتیں اور اسے روز مرہ کی ڈائری کے طور پر مرتب کر کے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ شئیر کرتی ہیں۔ ان کے کام کو بےحد سراہا گیا۔ 

ان کی مقبولیت اور شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کے دوست احباب نے مختلف ڈئزاین کے ٹی بیگز جمع کرنے میں انہیں مدد کی۔ ان کی مصّوری کی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چائے کے دھبوں کو بھی تخلیقی انداز میں پیش کرتی ہیں۔ 

مداحوں سے بے پناہ داد وصول کرنے کے بعد انہوں نے دو پروجیکٹس مزید شروع کیے ہیں۔ جن کے عنوان ’’جاپان میں چائے کے 26 دن‘‘ اور ’’52 ہفتے‘‘ ہیں۔ جاپان میں چائے کے 26 دن کا آغاز 2016 میں ہو، ا جب کہ 52 ہفتے 2017 میں فرانس سے شروع کیا گیا تھا۔

٭… ٹیٹو آرٹسٹ کارل ریبکؤسکی

مصوری کے انوکھے انداز

تیس سالہ کارل ریبکؤسکی کا نام آج ٹیٹو بنانے والوں کی فہرست میں نمبر ون تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے وارسا کی اکیڈمی آف فائن آرٹس سے فن مصّوری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیٹو بنانے کا کام شروع کیا۔ ابتدا میں وہ تشہیر کی خاطر ٹیٹو بنا کر آن لائن شئیر کیا کرتے تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ کسٹمرز (صارفن) ان سے رجوع کر سکیں، لیکن بیشتر افراد ان کی تصاویر پر، جعلی تصاویر یا ایڈیٹڈ تصاویر کے کمینٹس کیا کرتے تھے، کیوں کہ انہیں ان کے حقیقی ہونے پر شک تھا، جس کے باعث ان کا کام بہت متاثر ہوتا تھا۔

 لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ان کے بنائے گئے ٹیٹوز کے حوالے سے بحث اُس وقت چھڑی جب انہوں نے امریکی اداکار ’’بریڈلی کوپر‘‘ کی تصویر مشہور اسنائپر، ’’کرس کیلے‘‘ کے طرز پر بنائی۔ لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اس قدر اصلی ٹیٹو بھی بنا سکتا ہے، جسے دیکھ کر یہ محسوس ہو کہ کسی نے اصل تصویر بازؤں پر چسپاں کروالی ہے۔

کارل ریبکؤسکی کا کہنا ہے کہ، ’’ٹیٹو بنانے والے دیگر کئی آرٹسٹ بھی ان کے ٹیٹوز کو فوٹوشاپ کا کمال کہتے تھے، لیکن جب انہوں نے خود ذاتی طور پر ان کا کام دیکھا تو انہیں ان کے حقیقی ہونے پر یقین آگیا‘‘۔ اس سے قبل کبھی کسی نے لائٹ اینڈ ڈارک اسکن کلر ٹون شیڈز کا اس قدر باریکی سے استعمال نہیں کیا تھا، جیسا پولینڈ سے تعلق رکھنے والے کارل ریبکؤسکی نے کیا ہے اور یہ ہی تکنیک ان کے ٹیٹوز کو حقیقت کا رنگ دیتی ہے۔ 

جوں جوں وہ انسٹاگرام پر اپنے تخلیق کیے گئے ٹیٹوز شئیر کر رہے ہیں، لوگ انہیں دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں، کیوں کہ ان کی بنائی گئی تصاویر کے نمونے بالکل فوٹوگراف معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں منعقد ہونے والے مختلف ٹیٹو ایونٹس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنے سر پر جیت کا تاج بھی سجایا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین