• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر یوں ہوا کہ میں نے احمد بشیر(مرحوم) سے پوچھا
’’اچھی فلم کی آپ کے نزدیک تشریح کیاہے؟‘‘
حمید اختر سے ایک انٹرویو میں سوال کیا۔ ’’لیکن اچھی فلم کی آپ کیا تعریف کریں گے؟‘‘
اے جےکاردار سے یہی سوال پوچھتے پوچھتے میں لندن سے ایمسٹرڈم آگیا وہاں بھی شمیم اشرف ملک سے یہی سوال پوچھ لیا (وہ ان دنوں میرے گھر پر تھے) جاوید جبار سے بھی اسی سے ملتا جلتا سوال پوچھا۔ میرے حساب سے اچھی فلم کی معتبر تشریح کسی نے کرنا نہیں چاہی۔ یار لوگRealisticفلم بنانے بیٹھتے ہیں اورFactualبنا ڈالتے ہیں پھر کہتے ہیں لوگ ان کے ’’فن‘‘ کو سمجھ نہیں سکے۔ اب ’’لوگ‘‘ لفظ جو ہے یہ سب کیلئے مستعمل ہے اور ہر شخص دانشور نہیں ہوتا پھر بھی لوگ اصل اور نقل کا فرق خوب جانتے ہیں، اگر اچھی چیزیں بھی فیل ہوا کرتیں تو پھر تورات، انجیل، رامائن، اور مہا بھارت ابھی تک زندہ نہ رہتیں کہ انہیں تو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے۔ میرے خیال یا میری رائے میں جب ہدایتکارFactualکی زد میں آجاتا ہے تو دم توڑ دیتا ہے:حقیقت بیان کرنا ہدایتکار کا کام نہیں اور پھر جوں کا توں یا ہوبہو اسکرین پر پیش کردینے میں اس کا اپنا کیا کمال ہے؟ فلم میکر حقائق کا واقعہ نویس نہیں ہے بلکہ ظاہر وباطن کے درمیان رہنے والے امکانات اور اشاروں کا خبر رساں ہے ایک اچھا ہدایتکار فلم کے کرداروں کو اپنے لائحہ عمل اور مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی سعی اور اپنے حوصلے کی پیمائش کرتا ہے۔ پاکستان میں چند فلمیں بنی تھیں شمیم اشرف ملک کی ’’نیند‘‘ گھر پیاراگھر، اور سیما جاوید جبار کی مسافر، حمید اختر کی، سکھ کاسپنا، کنور آفتاب کی، جھلک، احمد بشیر کی نیلا پربت اور اشفاق احمد کی ’’دھوپ اور سائے‘‘۔ یہ فلمیں دوسری بننے والی فلموں سے مختلف تھیں ایک طبقہ ان فلموں کو اہم بھی تسلیم کرتا ہے لیکن یہ تمام فلمیں بالخصوص ہماری فلم صنعت پر اور بالعموم قومی زندگی پر رتی بھر اثرات مرتب نہ کرسکیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پچاس کی دہائی میں ہم متعدد قومی حادثوں سے دوچار ہوئے پچاس کی دہائی ہی میں فیض صاحب اور شمیم اشرف ملک فلم کے میدان میں اترے، اسی دہائی میں لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہماری سیاسی ہلاکت کا آغاز ہوا بعد ازاں فوجی اور معاشی تعاون کے معاہدوں کے ذریعے پاکستان کی سیاست آگے بڑھی، اس دوران پنڈی سازش کیس کا غلغلہ بھی بلند ہوا، مشرقی بنگال(پاکستان) میں بنگالی کو دوسری قومی زبان قرار دینے کی تحریک چلی اور وہاں عوام پر تشدد کیا گیا، کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی، قوم پر ون یونٹ مسلط کیاگیا۔ 1958میں قوم کو مارشل لا کے تجربے سے گزرنا پڑا پھر اس کے بعد 1960میں بھارتی فلموں پر پابندی لگادی گئی۔ ان تمام برسوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ شمیم اشرف ملک، حمید اختر اور احمد بشیر نے اپنی اپنی فلمیں بنائیں۔ احمد بشیر کی نیلا پربت اس عہد کا خاص واقعہ تھا ، دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ ہم نے بورژوا جمہوریت کیلئے جدوجہد کی اور ایک تازہ دم مارشل لا تک پہنچے۔1970کی دہائی کے پہلے برس میں ہم نے بنگال کو رہا کردیا اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی سیڑھیاں چڑھنا سیکھا۔ اس اثنا میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے بنائی اور فیض صاحب نے نیف ڈیک کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں ایک فلم کا ڈول ڈالا، فلم تو کیا پایہ تکمیل کو پہنچتی کہ پہلی ریلیں ہی بنگال کے خون میں ڈوب گئیں۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض، شمیم اشرف ملک،حمید اختر، احمد بشیر، کنور آفتاب، اشفاق احمد اور جاوید جبار جیسے دانشور کیوں ناکام ہوئے؟ ا ن کی ناکامی ناسازگار حالات کی وجہ سے تھی یا وہ اپنے دانشورانہ، انتہا پسندانہ تجربوں کی نذر ہوگئے اور کیوں وہ ابلاغ نہیں کر پائے تھے؟ ’’نیند‘‘ غالباً پاکستان کی پہلی سنجیدہ فلم تھی،شمیم اشرف ملک جیسے دانشور کی یہ دانشورانہ کوشش مات کھا گئی۔ نیند تو ایک ترقی پسندانہ اور بامقصد فلم تھی اسے کیوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا؟
’’میں نے بعض غیر اہم نکتوں پر تو سمجھوتہ کیا لیکن میں بیشتر بنیادی مسائل پر ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار نہ تھا‘‘۔ شمیم اشرف ملک مرحوم نے مجھے بتایا۔ بنیادی مسئلہ یا مسائل سے ان کی کیا مراد تھی۔ میرے حساب سے سوشلسٹ حقیقت نگاری یا مروجہ قدروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ تھا۔ دراصل انہوں نے ایک فارمولے کورد کرکے دوسرا فارمولا پیش کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ کہ آرٹ میں سماجی یا معاشرتی حقیقت نگاری کا تصور سخت قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرتا، یہ حقیقت نگاری اپنے سماجی حالات اور تقاضوں کے درمیان جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔شمیم اشرف ملک کی تینوں فلمیں عوام تک پہنچیں تو ضرور لیکن ابلاغ پیدا نہ کرنے کی وجہ سے باکس آفس پر ناکام ہوگئیں۔ حمید اختر کی سکھ کا سپنا۔ آسٹریلیا کے ایک کیمونسٹ ادیب کے ناول(The power with glory)پر مبنی فلم تھی۔ حمید اختر نے ایک باربتایا۔ ’’ترقی پسندانہ فلم کی جانب یہ ایک نہایت اہم قدم تھا۔ فلم کے ساتھ بہترین لوگ وابستہ تھے۔ ہدایتکار مسعود پرویز کے علاوہ فیض صاحب تھے، اداکاروں میں علائوالدین، آغا طالش وغیرہ شامل تھے، یہ ساری باتیں فلم انڈسٹری کے جہلا برداشت نہ کرسکے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو انڈسٹری کی سکہ بند جہالت کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ چنانچہ ساری فلم انڈسٹری شعوری طور پر ہمارے مقابل آگئی باقاعدہ سازشی جلسے ہوئے، ہنگامہ برپا ہوا،فلم کے پرنٹ گھٹیا تیار کئے گئے اور وہ بھی بروقت سینما ہال تک نہ پہنچ پائے جس کے باعث پہلے ہی شو میں بدمزگی پیدا ہوگئی۔ مگر میں سمجھوتہ نہ کرنے پر شرمندہ نہیں ہوں۔ میری رائے میں یہاں بھی یونٹ کے اراکین کی ’’دانشوری‘‘ نے عوام سے اس انداز میں مکالمہ نہ کیا جس کی انہیں توقع تھی۔
’’نیلا پربت‘‘۔ احمد بشیر نے بلیک اینڈ وائٹ فلم کا نام نیلا پربت تجویز کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب دور دور تک کامیابی کا کوئی خطرہ نہیں ہے، سو یہی ہوا لیکن اس کا تجزیہ اور دوسرے دانشور ہدایتکاروں کے فن کے بارے میں آئندہ بات کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، بڑی بڑی باتیں، ضرررساں باتیں اور بے ضرر باتیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین