کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ کی تحقیقات میں جے یو آئی ف کے تین سینیٹرز پر ووٹ نہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے، ووٹ کے تقدس کی مہم جاری ہے لیکن حکمراں جماعت کے وزراء پارلیمنٹ کو عزت دینے کو تیار نہیں،نقیب قتل کیس میں راؤ انوار ابھی تک قانون کی گرفت سے آزا د ہے۔میزبان نے کہا کہ مسلم لیگ ن سینیٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنا امیدوار کامیاب کروانے میں ناکام رہی، اتحادیوں کا ساتھ ہونے کے باوجود ایوان بالا میں اپوزیشن اتحاد سے شکست کھائی، ن لیگ کی طرف سے سینیٹ میں مطلوبہ ووٹ نہ ملنے کی تحقیقات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں،ن لیگ یہ انکشافات میڈیا پر آکر تو شیئر کرنے کیلئے تیار نہیں مگر ن لیگ کے ذرائع شک کررہے ہیں اس کا اظہار کررہے ہیں، ن لیگ کے ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے تین سینیٹرز نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے حکمراں اتحاد کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا، ان سینیٹرز میں سینیٹر طلحہ محمود، مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن اور مولوی فیض محمد شامل ہیں، ن لیگ کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضروری نہیں اس بات کا علم مولانا فضل الرحمٰن کو بھی ہو، جے یو آئی ف کی جانب سے صرف مولانا عبدالغفور حیدری نے ن لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیا، ن لیگ ذرائع کے مطابق فاٹا سے نومنتخب سینیٹر مرزا آفریدی نے بھی وعدے کے باوجود حکمراں اتحاد کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا جبکہ بلوچستان سے ن لیگ کی سینیٹر کلثوم پروین نے راجہ ظفر الحق کو ووٹ دینے کا دعویٰ کیا تھا لیکن انہوں نے بھی ووٹ نہیں دیا، کلثوم پروین نے راجہ ظفر الحق کو ووٹ دینے کی غلط بیانی کی کیونکہ وہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں جانے کیلئے راجہ ظفر الحق کی حمایت چاہتی تھیں، ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات سامنے آنے کے بعد نواز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے، ن لیگ کے ذرائع کے مطابق ووٹ نہ ڈالنے والے پانچ سینیٹرز کا پتا چلالیا گیا ہے جبکہ مزید دو سینیٹرز کے بارے میں تحقیقات جاری ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی تحقیقات میں جے یو آئی ف کے تین سینیٹرز پر ووٹ نہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے اسی دن ہمارے پروگرام میں کہا تھا کہ ان کے سینیٹرز نے وعدے کے مطابق ن لیگ ہی کو ووٹ دیئے ہیں، پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت نے انہیں ووٹ دیا ہے، ن لیگ کی سینیٹر کلثوم پروین کا معاملہ بھی دلچسپ ہے جو اعتراف کرچکی ہیں انہوں نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو جبکہ چیئرمین سینیٹ کیلئے ووٹ راجہ ظفر الحق کو ہی دیا تھا لیکن ن لیگ کے ذرائع کہہ رہے ہیں انہوں نے راجا ظفر الحق کو بھی ووٹ نہیں دیا، کلثوم پروین کا سیاسی کیریئربہت دلچسپ رہا ہے، کلثوم پروین پہلی بار ق لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں، 2009ء میں کلثوم پروین بی این پی عوامی کا ٹکٹ حاصل کر کے سینیٹر بنیں، 2015ء میں وہ بی این پی عوامی کو چھوڑ کر ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کر کے ایک بار پھر سینیٹر بننے میں کامیاب رہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ مسلم لیگ ن ووٹ کے تقدس کی مہم چلارہی ہے، نواز شریف نے واضح کردیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ نعرہ ن لیگ کا منشور ہوگا، نواز شریف ووٹ کو عزت دینے کی بات تو کررہے ہیں لیکن ووٹ کی عزت صرف مخالفین نے نہیں کرنی بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی کرنا لازمی ہے، نواز شریف نے ووٹ لے کر حکومت بنائی مگر محسوس ہورہا ہے کہ حکمراں جماعت کے وزراء پارلیمنٹ کو عزت دینے کو تیار نہیں ہیں، پارلیمنٹ میں نہ ن لیگ کے وزراء اور نہ ہی متعلقہ وزارتوں کے سرکاری افسران پیش ہوتے ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی ہوں یا چیئرمین سینیٹ دونوں کو ہی یہ شکایت رہی ہے کہ وزراء پارلیمنٹ میں نہیں آتے ہیں، قومی اسمبلی کےبدھ کے سیشن میں اپوزیشن رکن شیری مزاری نے وزراء اور افسران کی عدم حاضری کی نشاندہی کی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے یقین دلایا کہ سوالات کا جواب دینے کیلئے نہ آنے والے وزراء اور افسران کیخلاف کارروائی ہوگی، اسپیکر قومی اسمبلی منگل کو بھی وزارت داخلہ کے حکام کی عدم موجودگی پر سخت ناراض ہوئے تھے، قومی اسمبلی کی تاریخ میں منگل کو پہلی بار ایسا ہوا کہ ارکان بیٹھے رہے اور اسپیکر قومی اسمبلی واک آؤٹ کر گئے، اسپیکر قومی اسمبلی اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس کے سربراہ ووٹ اور پارلیمنٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں لیکن چونکہ اس جماعت کے وزراء پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے اس لئے اسپیکر واک آؤٹ کر گئے، نواز شریف اب ووٹ کی عزت کی مہم چلارہے ہیں تو اپنے وزراء کو پارلیمنٹ کی عزت کرنے کی بھی ہدایت دیں، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی اپنے دور میں کئی بار وزراء کی غیرحاضری پر سخت ناراض ہوئے، ستائیس نومبر 2017ء اس وقت کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی وزیراعظم اور وفاقی وزیرداخلہ کی غیرحاضری پر سخت ناراض ہوئے، وزراء کی مسلسل غیر حاضری پر رضا ربانی نے اپریل 2017ء میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی پیشکش کی اور پھر بغیر پروٹوکول گھر روانہ ہوگئے تھے، حکومت نے بعد میں انہیں منایا اور وزراء کی حاضری یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی مگر صورتحال جوں کی توں رہی، رضا ربانی کے تمام تر اقدامات کے باوجود اہم مواقع پر وزراء غیر حاضر رہے، پارلیمنٹ کو عزت نہ دینے کا معاملہ آج کا نہیں ہے ن لیگ ساڑھے چار سال سے یہی کررہی ہے، نواز شریف بطور وزیراعظم ساڑھے چار سال یہی کرتے رہے، نواز شریف کے وزراء بھی پارلیمنٹ کے ساتھ یہی کررہے ہیں مگر نواز شریف پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہو کر ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگارہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کو دو ماہ گزرچکے ہیں مگر قتل کا مرکزی ملزم راؤ انوار ابھی تک قانون کی گرفت سے آزا دہے، راؤ انوار خود تو مفرور ہے لیکن عدالت سے اس کی خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے، راؤ انوار عدالت میں پیش نہیں ہورہے لیکن غیرحاضری میں بھی عدالت سے استدعا کررہے ہیں، دوسری طرف تمام صوبائی حکومتیں، پولیس اور حساس ادارے مل کر بھی اب تک راؤ انوار کو گرفتار نہیں کرسکے، بدھ کو ایک سیکیورٹی ادارے نے عدالت میں اعتراف بھی کرلیا کہ ان کے پاس ٹیکنیکل وسائل محدود ہیں لیکن وہ پھر بھی پولیس کی معاونت کررہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ راؤ انوار کہاں ہے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، صوبائی حکومتیں اور حساس ادارے راؤ انوار کو گرفتار کرنے میں اب تک ناکام نظر آرہے ہیں، راؤ انوار کے خطوط آرہے ہیں وہ لوگوں سے واٹس ایپ پر رابطہ بھی کرتے ہیں، نقیب اللہ محسود کے لواحقین کا کہنا ہے وہ راؤ انوار کی عدم گرفتاری پر خود عدم تحفظ کا شکار ہورہے ہیں، یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر تمام تر معاونت کے باوجود راؤ انوار کی گرفتاری کیوں نہیں ہورہی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پشتون لانگ مارچ ایک ماہ بعد پھر سے بحال ہوگیا ہے، مطالبات وہی ہیں مگر احتجاج کا دائرہ اور مظاہرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، اسلام آباد سے اٹھنے والا جرگہ اب پشتون لانگ مارچ کی شکل اختیار کرچکا ہے، پشتون تحفظ موومنٹ کے تحت اس لانگ مارچ میں پچھلے پانچ دنوں میں بلوچستان میں چار جلسے کیے جاچکے ہیں، یہ چار جلسے بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ، ژوب، قلعہ سیف اللہ اور خانو زئی میں کیے گئے جس میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی ہے، اس لانگ مارچ کے مطالبات وہی ہیں جو ایک ماہ پہلے تھے جنہیں پورا کرنے کی یقین دہانی گزشتہ ماہ چھ فروری کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کروائی تھی جس کے بعد اسلام آباد میں دس دن تک جاری رہنے والا دھرنا ختم کردیا گیا تھا مگر ایک ماہ گزرنے کے باوجود ان مطالبات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کا جرگہ اب پشتون مارچ میں تبدیل ہوگیا ہے، بلوچستان میں چار جلسے کرنے کے بعد یہ مارچ اگلے دو ہفتوں میں خیبر پختونخوا میں داخل ہونے والا ہے، لانگ مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے ملک بھر میں پرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ پشتون لانگ مارچ کی طرف سے چار بنیادی مطالبات میں پہلا مطالبہ نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور اس کے ساتھیوں کو سزا دینا اور دوسرا مطالبہ پشتونوں کے ماورائے عدالت قتل کو روکنا ہے ،تیسرا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے جبکہ چوتھا مطالبہ فاٹا میں بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنا ہے، دیگر مطالبات اپنی جگہ نقیب اللہ محسود قتل کیس جس پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے چکی ہے وہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے، حکومت کی طرف سے پشتونوں کے مطالبات تو تسلیم نہیں کیے گئے مگر مظاہرین کیخلاف ایف آئی آرز درج ہورہی ہیں، پشتون لانگ مارچ کے سرگرم رکن محسن داور نے لانگ مارچ کیخلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان الزامات کے ذریعہ ہمیں ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ہم لانگ مارچ ختم کردیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ عمران خان کا موقف پچھلے پانچ چھ دن میں مسلسل تبدیل ہوتا رہا ہے، پہلے انہوں نے آصف زرداری پر شدید تنقید کی، پھر ووٹ دینے کا کہہ دیا، پھر شدید تنقید کی اور کہا ووٹ نہیں دیں گے لیکن پھر ان کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دیا، بدھ کو جہلم گئے اور نواز شریف کے ساتھ آصف زرداری پر ایک دفعہ پھر تنقید کی، اس سے پہلے عمران خان پیپلز پارٹی پر پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو پیسے دے کر ووٹ لینے کا الزام لگاچکے ہیں۔